نہ یہ دن نہ یہ رات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
نہ گردش میں صدیوں زمانہ رہے گا
صدا تو کسی کا نہ سکہ چلے گا
ہمیشہ نہ کوئی جنازہ اٹھے گا
نہ خوشیوں کی بارات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
جہاں زخم ہے درد ہوکر رہے گا
رخ زندگی زرد ہوکر رہے گا
لہو گرم ہے سرد ہوکر رہے گا
نہ گرمئ جذبات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
یہ دنیا کا میلہ تو ہے چار دن کا
یہ دولت کا ریلہ تو ہے چاردن کا
یہ سارا جھمیلا تو ہے چار دن کا
نہ گرمی نہ برسات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
اڑے گی فلک کی جو چادر تنی ہے
ہٹے گی زمیں جس کا دل آہنی ہے
نہ رہ پائے گی جوبھی محفل سجی ہے
نہ بزم خیالات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
فلک پر جو اڑتے تھے زیر زمیں ہیں
اسی خاک میں دفن کتنے حسیں ہیں
جو کل شاہ تھے آج وہ بھی نہیں ہیں
کسی کی نہ اوقات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
بدن پر تو مٹی کے اترا رہا ہے
توانور خود اپنے کو بہکا رہا ہے
جو آیا تھا کل دیکھ وہ جارہا ہے
یہاں کوئی بات باقی رہے گی
بس اللہ کی ذات باقی رہے گی
0 comments:
Post a Comment