میں بائیک پر بازار گیا تو رش بہت زیادہ تھا اور مجھے ذرا جلدی بھی تھی تو ہر جگہ سے کٹنگ مارتا ھُوا نکال رھا تھا بائیک کہ اِتنے میں ایک جگہ پر میرے آگے ایک سائیکل آ گئی جو کہ کھڑی تھی اور میری اس پر نظر نہ پڑ سکی ...
خدا کی کرنی ایسی ہُوئی کہ مجھے وہ سائیکل نظر نہ آنے کی وجہ سے میں نے اسے ٹکر مار دی اور وہ نیچے گِر گئی۔ سائیکل کے پیچھے ایک نمک سے بھرا تھیلا رکھا ہُوا تھا جو کہ دور جا کے گِرا اور پھٹ گیا اور سارا نمک زمین پر بکھر گیا ...
اِتنے میں سائیکل کا مالک بھاگتا ہوا ایک دکان سے باہر آیا جہاں وہ سائیکل ٹہرا کر کوئی سودا خرید رہا تھا اور سر پکڑ کے بیٹھ گیا اور زمین پر بکھری ہُوئی اپنی پندرہ کلو نمک کو دیکھ رہا تھا۔ وہ شخص حلیہ سے غریب لگ رہا تھا، مجھے افسوس ہُوا کیونکہ نمک ایسی چیز ہے جو مٹی سے سمیٹی بھی نہیں جا سکتی، میں نے سوری بولا اور پوچھا :
"نمک کتنے کا تھا میں آپکو اُتنے پیسے دے دیتا ہُوں؟"
وہ بولا :
"رہنے دیں پندرہ کلو تھی اور سزا تو مِلنی ہی تھی نا۔"
میں نے پوچھا :
" کیا_مطلب ...؟ "
کہنے لگا :
" میری چھوٹی سی دکان ہے ساتھ کے ایک دیہات میں، تو میں بازار سے چیزیں لے جا کر وہاں دکان پر بیچتا ہُوں۔ آج نمک لینے آیا تو تَھوک والی دکان پر رش بہت تھا میں نے اُس سے دو دفعہ پیسوں کا پوچھا لیکن وہ دوسرے گاہکوں کو ڈیل کر رہا تھا جس وجہ سے میری بات نہ سُن سکا تو مجھے شیطان اور نفس نے کہا موقع اچھا ھے نکل لے۔ فری کی نمک بیچے گا تو نفع ہی نفع۔ میں آنکھ بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور بہت خوش بھی تھا لیکن آپکی بائیک کی ٹکر نے مجھے بتلا دیا کہ دنیا مُکافاتِ عمل ہے ... "
دوستوں یہ کہانی ہمیں کیا سیکھاتی ہے اور ہمیں اس سے کیا سبق لینا چاہیے، شاید اس بارے میں مجھے آپ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثمہ آمیــــــــــــن یارب العالمین
منقول
0 comments:
Post a Comment