چند سال پہلے کی بات ہے میں دبئی میں ہنگری یورپ کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا، اُسکے ساتھ میری کافی بات چیت تھی۔
ایک دن ہم لوگ پیکٹ والی لسی پی رہے تھے، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں، میں نے اسکو بولا کہ یہ لسی ہم گھر میں بناتے ہیں، وہ بڑا حیران ہوا،
بولا کیسے؟
میں نے اسے کہا کہ ہم لوگ دہی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں، وہ اور بھی حیران ہوگیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ہے، میں نے بولا ہم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دہی بناتے ہیں، پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں، وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کررہا ہوں، کہتا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں۔
کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک چیزوں سے محروم ہونے والے ہو ،
میں بولا کیسے؟
کہتا ہے، ہنگری میں بھی ایسے ہوا کرتا تھا، پھر ساری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی، انتظامی معاملات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں آگئے، انہوں نے کوالٹی اور صحت کے حوالے سے میڈیا پر کمپئین چلائی، اور جتنی بھی آرگینک چیزیں تھیں ان کو صحت کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے دیا، جیسے کھلا دودھ، کھلی روٹی، گوشت، ہوٹل، فروٹ، وغیرہ وغیرہ۔
اب کیا ہوا؟ برانڈ متعارف ہوگئے، جو انٹرنیشنل لیول کے میعار کے مطابق گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیاں مارکیٹ میں آ گئیں، انکا گوشت ڈبوں میں اچھی خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ملنے لگا، اور جو عام بیچنے والے تھے ان پر اداروں کے چھاپے پڑنے لگ گئے میڈیا پر انکو گندہ کیا جانے لگا، نتیجہ کیا نکلا! گوشت کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا، اور جو تھوڑے سرمایہ دار تھے، گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے انکو اپنی فرنچائزز دے دیں۔ اب وہ کمپنیوں کا گوشت فروخت کرنے لگے،
عام قصائی گوشت والا جانور لے کر ذبح کر کے گوشت صاف کر کے بیچتا، بڑی بےایمانی کرتا تو گوشت کو پانی لگا لیتا، اور کمپنیاں کیا کرتیں، وہ کسی کو نہیں پتہ، پورا جانور مشین میں ڈالتے، اسکا قیمہ قیمہ کرتے گوبر اور آنتوں سمیت!! پھر اس میں کیمیکل ڈال کر صاف کرتے، اسکو لمبا عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے اور کیمیکل ڈالتے، پھر اسکے مختلف سائز کے پیس بنا کر پیک کر کے مارکیٹ میں ڈال دیتے اور لوگ برانڈ کے نام پر خریدتے، باہر رہنے والوں کو گوشت کمپنیوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہوگا۔
پھر گدھے کے گوشت کا ڈرامہ میڈیا نے کسی کے کہنے پر رچایا تاکہ لوگ بڑا گوشت نہ کھائیں اور مرغی کی طرف واپس آئیں ۔ کیا اب ملک میں گدھے ختم ہوگئے ہیں؟
نہیں!! بلکہ سیلز ٹارگٹ حاصل ہو رہے ہیں۔
بھینسوں کو شہروں سے کیوں نکالا ؟
تاکہ خالص، تازہ، سستا دودھ کی جگہ ڈبہ والا دودھ فروخت ہو ۔ جب مطلوبہ ٹارگٹ پورے نہیں ھوئے تو کھلے دودھ کے پیچھے پڑ گئے ۔
اسی طرح دودھ والوں کے ساتھ بھی کیا؛ پہلے انکو مارکیٹ میں گندہ کیا میڈیا پر کمپئین چلا کر، پھر انکو اپنی فرنچائز دے دیں، اور اپنا دودھ بیچنا شروع کردیا۔
اب مجھے یہ بتائیں کہ جو دودھ عام اور چھوٹے فارمر سے آتا ہے، جو کسی قسم کا کیمیکل نا تو جانور کو کھلاتا ہے اور نہ دودھ میں کوئی کیمیکل ڈالتا ہے، زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا؟ پانی ڈال لے گا،، زیادہ ڈالے گا تو وہ بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔
اور جو نیسلے ملک پیک اور دوسرے ٹیٹرا پیک والے ہیں وہ دودھ کو لمبے عرصہ تک رکھنے کے لیے کیا کیا کیمیکل ڈالتے ہیں، اور فارموں میں کیا کیا جانوروں کو کھلاتے ہیں۔
وہ دودھ صیح ہے یا کسان والا ؟؟
دبئی میں دودھ کی ایکسپائری ڈیٹ جتنی زیادہ ہوگی اتنا زیادہ کیمیکل ہوگا، اور اتنی قیمت کم ہوگی۔
ایک ہی کمپنی کا دودھ اگر ٹیٹرا پیک میں خریدیں گے تو، تین درہم فی لیٹر قیمت ہے ،، اسی کمپنی کی بوتل فریش والی خریدیں گے تو چھ درہم لیٹر اور آج کل آرگینک دودھ بھی مارکیٹ میں آ گیا ہے، جو چودہ درہم فی لیٹر ہے۔
مجھے یہ بتائیں کہ سیدھا دودھ نکال کر چودہ درہم کا بک رہا ہے تو کیا ضرورت ہے، پیکنگ کر کے تین درہم کا بیچنے کی؟ لوگ اب آرگینک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہم بدقسمت برانڈ کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
اب انڈیا پاکستان اور ڈاکٹر بھی بچوں کو تازہ دودھ دینے سے منع کرتا ہے کیوں کے ڈاکٹر کو برانڈ والے پیسہ دیتے ھے 2 سے 4 مہینے والے کو ایک نمبر، 5 سے 8 مہینے والے کو 2 نمبر اور 9 سے زیادہ کو 3 نمبر میں بھی بڑے بڑے ڈیری فارم بن رہے ہیں اور ہر دوسرے روز حکومت دودھ والوں پر چھاپے مار رہی ہوتی ہے، اور میڈیا پر دکھا رہی ہوتی ہے، کہ دودھ میں یہ ملایا وہ ملایا ،، سٹ رنگ آپریشن کیے جارہے ہوتے ہیں ،،
او بھائی، اگر کاروائی کرنی ہے تو میڈیا پر شور مچانے کی کیا ضرورت ہے، کیوں لوگوں کا اعتبار اٹھانے کے لیے ذہن تبدیل کر رہے ہیں ۔
- Blogger Comment
- Facebook Comment
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments:
Post a Comment