عید_یاراں .. قسط_نمبر_1


رائیٹر_زینب_خان

"میرے سپنوں کی رانی کب آۓ گی تو ...
آئی رت مستانی کب آۓ گی تو ...
بیتی جاۓ زندگانی کب آۓ ہی تو ...
چلی آ آ آ آ ہاں تو چلی آ آ آ ..!!
پائپ سے کیاری میں لگے پودوں کو پانی دیتے وہ مزید جھوم جھوم کر سر تال بکھیرتا اس سے پہلے ہی برابر والےگھر کی دیوار سے بارہ سالہ گڈو کا سر نمو دار ہوا ..
"عابی بھائی اپی کہ رہی ہیں اپنا منہ بند کر لیں ورنہ وہ آپ کا سر پھاڑ دیں گی ..!!"
شرارت سے چمکتی آنکھیں لیکن بڑی بہن کے ڈر سے سنجیدہ  انداز میں کہتے ہوئے اس نے جیسے خبر نامہ پڑھا تھا ..
"نہیں کروں گا بند ..جا بول دے اپنی بہن کو جو کرنا ہے کر لے ..
ہٹ دھرمی کی حدیں ختم تھیں عارب مرزا پر ..
دیوار کے پار صحن میں کرسی پر بیٹھی کتاب پڑھتے ہوئے وہ مسلسل عارب کی بے سری تان سے ڈسٹرب ہو رہی تھی اندر بھی نہیں جا سکتی تھی کے لائٹ نہیں تھی مجبورآ کتاب تخت پر پٹخ کر وہ کچن میں چلی آئی موسم پیارا ہو رہا تھا سوچا چاۓ کے ساتھ پکوڑےہی بنا لے جب تک دادی بھی نماز سے فارغ ہو جائیں گیں ...
"اپی اس دفعہ ہم قربانی کریں گے نہ ؟..!!"
کڑاہی میں گرم تیل کے اندر  پکوڑوں کا آمیزہ ڈالتے ہوئے وہ چونک کر مڑی جہاں کچن کے دروازے کے پاس اس کا چھوٹا بھائی گڈو آس بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ..
بے ساختہ اس کا دھیان اپنی کمیٹی کی طرف چلا گیا جو اس نے اپنی ساتھی ٹیچر کی طرف ڈال رکھی تھی خوش قسمتی سے اس دفعہ اسی کا نمبر تھا ..
اس کا ارادہ بھی یہی تھا کے کمیٹی کے پیسوں سے اس دفعہ بکرے کی قربانی تو ضرور کرنی ہے ..جب تک اس کے ماں باپ زندہ تھے ہر سال ان کے یہاں قربانی ہوتی تھی لیکن چند سال پہلے عمرہ کی ادائیگی سے واپس آتے ہوئے ظہیر اور رشنا کی پلین کریش میں وفات ہو گئی تھی ..
ان کے بعد تو اس  کے لئے زندگی رک سی گئی تھی ہر وقت ہنسنے مسکرانے والی ساج کہیں کھو سی گئی تھی ..جہاں آرا (دادی) کے لاکھ سمجھانے اور صرف اپنے چھوٹے بھائی کی وجہ سے وہ دوبارہ زندگی کی رونقوں میں واپس لوٹی تھی ..
ورنہ یتیمی کا دکھ اتنا چھوٹا تو ہر گز نہیں ہوتا کے آسانی سے جھیلا جا سکے ..
"اپی بتاۓ نہ ..ہم قربانی کریں گے نہ ؟؟..!!"
گڈو کی آواز اسے ماضی  کے جہاں سے کھینچ لائی تھی اس نے جلدی سے کڑاہی میں سے پکوڑے نکال کر ساتھ ہی برابر میں چاۓ کا چولہا بند کیا ..
دوپٹے کے پلو سے نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے وہ گڈو کے پاس آئی جو ابھی بھی بے چین انداز میں اسے دیکھ رہا تھا ..
" انشاء اللہ ہم قربانی ضرور کریں گے اور جانور بھی تمہاری پسند کا لائیں گے ..!!"
ساج  نے مسکراتے ہوئے اس کے بال بگاڑے ..
گڈو کا معصوم چہرہ کھل اٹھا تھا ..
"اپی سچ میں ہم قربانی کریں گے ؟؟..واؤ کتنا مزہ آۓ گا ..دیکھئے گا میں عابی بھائی کے ساتھ جا کر کتنا پیارا بکرا لاؤں گا .اسے خوب گھماؤں گا پھراؤں گا بہت سارا گھاس کھلاؤں گا .!!"
اس کے تاثرات سے بے نیاز وہ اپنی ہی سنانے میں مگن تھا ..
"کوئی ضرورت نہیں ہے اس عابی چابی کے ساتھ کہیں جانے کی ..اور بات سنو میری اس سے دور رہا کرو ورنہ اس کی طرح تم بھی بگڑ جاؤ گے ..اور اگر تم بگڑ گئے تو میں تمہیں گھر سے نکال دوں گی ..!!"
اس کا کان مروڑتے ہوئے وہ سخت انداز میں کہ رہی تھی کچھ دیر پہلے کی شفقت عارب کا نام سن کے ہی اڑ چکی تھی ..
محلے میں ان دونوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے دونوں کا بچپن بھی ایک ساتھ ہی گزرا لیکن اپنی شوخ و چخچل اور شرارتی طبیعت کے باعث وہ اسے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا ..
اور وہ بھی کون سا کم تھا ساج کو چڑانے اور جلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ..
جیسے کے ابھی دروازے پر زور دار انداز میں دستک دیتے ہوئے وہ گھستا چلا آیا تھا ..
"پڑوسیوں کا حق مارنے والوں کا الگ سے حساب ہوگا ..میں پوچھتا ہوں شرم نام کی کوئی چیز تمہارے اندر ہے کے  نہیں ؟ چاۓ پکوڑے بنا لئے خود کھا لئے اپنے اس موٹے بھائی کو کھلا دیے ..یوں تو نہیں کے دو چار ہم غریب پڑوسیوں کو بجھوادو ..دیکھو ذرا خود مانگنے آنا پڑ رہا ہے ..!!"
وہ دروازہ سے ہی زور و شور سے بولتا اندر کچن تک چلا آیا تھا دونوں ہاتھ کمر پر ٹکاۓ وہ لڑاکا عورتوں کی طرح اسے سنانے میں مصروف تھا جیسے خود بہت ہمساۓ کا حقوق کی پاسداری کرتا ہو اس دوران گڈو میاں بھی ساج کا دھیان بٹا دیکھ آنکھ بچا کر نکل لئے ..
اس کے تو سر پر لگی تل پر بجھی ..
"پہلی بات تو یہ کے میرے گھر میں انسانوں کی طرح دروازہ بجا کر آیا کرو ..ویسے تمہیں ضرورت ہی کیا ہے دروازے سے آنے کی ؟ اسی دیوار سے کھود کر آ جایا کرو نہ  جس پر تم سارا دن لنگوروں کی طرح لٹکے رہتے ہو ..اور دوسری بات فورآ دفع ہو جاؤ  میرے گھر سے ..شکل گم کرو اپنی ورنہ میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گی ..!!"
"اے لڑکی ..آواز آہستہ رکھو اپنی ...کسی کی اونچی آواز برداشت نہیں کرتا عارب مرزا ..!!"
شرٹ کا کالر پیچھے کرتے ہوئے وہ گردن تان کر بولا تھا ..
"ہاں لیکن بے شرموں کی طرح پکوڑے مانگنے ضرور آ سکتا ہے عارب مرزا ..!!"
بازوں سینے پر لپیٹے اس کے طنزیہ انداز سے کہنے پر وہ خجل ہوا تھا
سر کھجاتے منہ توڑ جواب سوچ ہی رہا تھا کے ان کی بلند آوازوں سے ہڑبڑا کر باہر آتی دادی کو دیکھ پھر سے گردن اکڑا گیا اور لپک کے ان کے پاس پہنچا ..
"دیکھ رہیں ہیں آپ دادی اماں ؟؟..یہ آپ کی چھٹانک بھر کی چھوکری کیسے مجھے منہ بھر بھر کے باتیں سنا رہی ہے ..کیا میں نے اس کے جہز کے برتن مانگ لئے تھے ؟ ..یا پھر کوئی کروڑوں کی جائیدادیں مانگ لی تھی ؟ صرف دو پکوڑوں کے لئے اس نے مجھے اتنا بے عزت کیا ہے کے میں بتا نہیں سکتا آپ کو ..!!"
غمگین اور شکوہ کناں انداز میں اتنے مہارت سے ڈائلوگز بولے تھے کے ساج کا بے ساختہ دل کیا تھا کے اتنی عمدہ اداکاری پر رکھ کے تھپڑ رسید کرے لیکن قہر بار نگاہوں سے  اسے گھورتی وہ کچن میں چلی گئی تھی ..
"دیکھ رہیں ہیں آپ ؟ کیسے گھور کر گئی ہے مجھے ؟ اگر اتنا ہی برا لگتا ہوں تو کیوں میرے کھانے پینے کی ذمہ داری قبول کی تھی ؟ کیوں میرے ماں باپ کو بے فکر رہنے کے لئے کہا تھا ..کاش وہ مجھے بھوکا مرنے کے لئے نہ چھوڑ گئے ہوتے ..!!"
"کیا اناب شناب بولے جا رہا ہے  لڑکے ؟ تیرے ماں باپ حج کرنے گئے ہیں قسمت والوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے خیر سے ان کی واپسی کی دعا کر ..اور تونے یہاں رونا پیٹنا مچاکر رکھا ہوا ہے ..!!"
دادی نے ناراضگی سے ڈپٹتے ہوئے تخت پر بیٹھتے ہوئے اپنا پاندان گھسیٹا تھا ..
"نہیں تو میں اور کیا کروں ؟ کیا بھوکا مر جاؤں ؟؟..!!"
"میری بلا سے تو مر ہی جاؤ ..کچھ چین آ جاۓ گا  میری زندگی کو ..!!"
کچن سے نکل کر اس نے پلیٹ اس کے ہاتھ میں زبردستی تھمائی تھی ..
گرم گرم پکوڑوں کو دیکھ کر اس نے مزید لڑنے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا ..
"اے کنجوس عورت.. کیچپ اور چاۓ کون دے گا ؟؟..!!"
وہ تو تپ ہی اٹھی تھی اس کے انداز تخاطب پر ..
وہ ایسا ہی تھا مطلب پورا ہونے پر فورآ سے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا تھا ..
"ندیدہ کہیں کا ..!!"
بڑبڑاتے ہوئے اس نے کیچپ اور چاۓ بھی اسے لا کر دی تھی ..اتنی سی دیر میں وہ آدھی پلیٹ کا صفایا کر چکا تھا ..
"آہستہ کھا لڑکے ..تیرے پیچھے کیا چور ڈاکو پڑ گئے ہیں جو ایسے ٹھونسے جا رہا ہے ؟..!!"
دادی نے اس کی کھانے کی رفتار کے پیش نظر ٹوکا تھا ..ساتھ ہی پان کی گلوری بنا کر منہ میں رکھی ..
"ارے جلدی جلدی نہ کھاؤں تو کیا کروں ؟؟..یہ آپکی پوتی جو میرے کھانے پر نظر رکھ کر بیٹھی ہے ..!!"
عارب کا اشارہ ساج کی طرف تھا جو تخت کے پاس ہی کرسی پر چاۓ کا کپ لئے کتاب ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی ..
"بے فکر ہو کر کھاؤ ..میں فقیروں کے کھانے پر نظر نہیں رکھا کرتی ..!!"
چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے بے نیازی سے کہا تھا
"لیکن یہ بھی نہ بھولو کے ہم فقیروں پر ہی دل آیا کرتا ہے شہزادیوں کا ..!!"
وہ کہاں چوکنے والا تھا ؟
اس نے ہنہ والے انداز میں سر جھٹکا ..
اتنے میں زور دار انداز میں دستک دیتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی بڑی سی پلیٹ پر کپڑا ڈھکے وہ اندر آیا تھا ..
"السلام عليكم دادی جان ..!!"
اس نے دادی کے سامنے سر جھکایا تھا ..
"وعلیکم السلام ..جیتے رہو خوش رہو اللہ تمہیں انسان بننے کی توفیق عطا کرے ..!!"
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی تھی ..
ایک کے بعد ایک پکوڑے منہ کے اندر انڈیل کر چباۓ بغیر ہی نگلتے ہوئے عارب کی نظریں عمر کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ کی طرف تھی ..
"یہ امی نے بھجوائی ہے ..!!"
اس نے ساج کی طرف پلیٹ بڑھائی تھی لیکن جلدی سے آخری پکوڑا منہ میں ٹھونس کر اس نے بیچ میں ہی عمر کے ہاتھ سے پلیٹ اچک لی تھی ...
"خالہ کو اپنے غریب بھانجے کا خیال نہیں آیا جو اتنی بڑی پلیٹ بھر کر اسے بھجوا دی ..!!"
پلیٹ سے کپڑا ہٹاتے ہوئے اس نے کینہ طوز نگاہوں سے ساج کو دیکھتے ہوئے عمر کو سنائی تھی جو اس کی خالہ کا بیٹا تھا اور دو گلی چھوڑ کر ہو اس کا گھر تھا لیکن اپنے گھر سے زیادہ وہ عارب کے گھر ہی پایا جاتا تھا  ..
ساج نے تو ان دونوں کو "جڑواں شیطان " کا لقب دے رکھا تھا ..
" جہاں بھاپ اڑاتی بریانی سے بھری پلیٹ دیکھ کر عارب کے منہ میں پانی بھر آیا تھا وہیں ساج نے اس کے ہاتھ سے فورآ پلیٹ چھین لی تھی ..
"اپنا ندیدہ پن اپنے تک ہی رکھا کرو ..بھوکڑ نہ ہو تو ..!!"
اسے گھورتے ہوئے وہ پلیٹ لے کر کچن میں چلی گئی تھی ..
"کیوں بے جب لا رہا تھا تو دو پلیٹیں لے آتا ..!!
عارب نے اسے گھورتے ہوئے کہا ..
"ابے کیوں مرا جا رہا ہے بھوکے آدمی ؟ امی نے تجھے گھر پر بلایا ہے جتنا ٹھونسنا ہے وہیں آ کر ٹھونس لے ..!!"
بے فکری سے کہتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا لیکن ساج کی آواز پر چونک کر پلٹا ..
جو چھوٹی ٹرے میں پکوڑوں کے ساتھ کیچپ اور چاۓ کا کپ رکھ کر لے آئی تھی ..
عارب کی آنکھیں تو باہر ابلنے کو تھیں ..
"توبہ توبہ ..اللہ معاف کریں اٹھیں دادی جان ..یہاں آپ سوئیں پڑی ہیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں کیسے آپ کی بے خبری میں  آپ کےہی گھر میں بریانی اور پکوڑوں کے تبادلے ہو رہے ہیں ..ہاۓ ہاۓ صرف دو پکوڑے مانگنے پر مجھ غریب بے چارے کو سو باتیں سنائی تھی اس لڑکی نے اور اب دیکھو کیسے پوری ٹرے سجا کر لے آئی ..توبہ ..کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے میری آنکھوں کو ..!!"
اس کے واویلہ کرنے پر جہاں ان دونوں نے اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھا تھا وہیں سستانے کے لئے لیٹی جہاں آرا بیگم بوکھلا کر کچی نیند سے جاگی تھیں .
"کیا آفت آگئی لڑکے ؟ کبھی دو گھڑی چین بھی لینے دیا کر مجھ بڑھیا کو ..!!"
نیند ٹوٹنے پر وہ بیزاری سے گویا ہوئیں ..!!
"ہاں ہاں آپ چین لیں دو گھڑی ..ضرور لیں ..لیکن اپنے آس پاس بھی نظر رکھیں ایسا نہ ہو کے کوئی طوطا آپ کی چڑیا کو اڑا لے جاۓ ..!!ا"
شرارت سے ان دونوں کو دیکھ کر  کہتے ہوئے اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے چاۓ کا کپ منہ سے لگایا تھا ..
"ساج نے غصے سے کرسی پر پڑی اپنی کتاب اٹھا کر کھینچ کر اس کے کندھے پر ماری تھی ..
"جہنم میں جاؤ اپنی گندی سوچ کے ساتھ ..اور تم کیا کھڑے ہو ؟ پکڑو اسے اور دفع ہو جاؤ ..بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ..!!"
عارب کو کہ کر اس نے خاموش کھڑے عمر کو پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا تھا جس نے آگے آ کر جلدی سے اس کی بڑھائی گئی ٹرے تھامی تھی ..
"جس کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے اس کے ساتھ تو کرتی نہیں ..ہنہ !!"
اس کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی ..
چاۓ ختم کر کے کپ سائیڈ پر رکھے وہ جھک کر جوتے پہنتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا ..
گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کرتی وہ اندر چلی گئی مزید اسے برداشت کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ..
" رک جا یار مجھے کھانے تو دے ..!!"
عارب کے چلنے کا اشارہ کر کے عمر نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی جانب اشارہ کیا ..
"گھر چل کر کھا لینا ..بلکے دونوں بھائی مل کر کھائیں گے !!"
اس کے کندھے میں ہاتھ ڈالے عارب اسے اپنے ساتھ لیے آگے بڑھا تھا ..
"خبیث..ابھی جو پوری پلیٹ ٹھونس کے بیٹھا ہے وہ کہاں گئیں ؟؟ ..!!"
عمر کو پتا تھا کے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کے اس گھر میں آ کر وہ خالی پیٹ اور ساج کی جان جلاۓ بغیر لوٹ جاۓ ..
"وہ تو پڑوسن کی جلی کٹی سن کر ہضم ہو گئی ..!!"
اس کے دانت نکوس کر کہنے پر وہ سر جھٹک کر رہ گیا ..
_________________________________________
فجر کی نماز اور مختلف وظائف پڑھ کر وہ چھت پر آگئی تھی ..
ٹھنڈی ہوائیں بدن س ٹکراتے ہی موڈ خوش گوار ہو گیا تھا گلے کے پاس سے نماز کے انداز میں باندھا گیا دوپٹہ لوز کرتے ہوئے وہ چھت کے کونے میں بنے بڑے سے کبوتروں کے پنجرے کے پاس آئی ..
جس میں درجنوں کبوتر یہاں سے وہاں پھد کتے پھر رہے تھے ..
اس کے واحد غمگسار..اس کے واحد دوست بس وہ کبوتر ہی تو تھے جن سے وہ دن بھر میں ڈھیروں باتیں کرتی تھی .
مسکرا کر ان کو دیکھتے ہوئے اس نے مٹی کے بڑے سے برتن میں صاف پانی اور دانہ بھر کر رکھا اور ساتھ ہی ایک سفید رنگ کے کبوتر کو احتیاط سے نکال کر جالی دار دروازہ بند کیا ..
وہ اپنی ہیرے جیسی چمکتی سرخ نگاہوں سے ٹکر ٹکر ساج کو دیکھ رہا تھا ..
وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی ..
دفتآبرابر والی چھت سے  "آؤ ..آؤ .." کی آواز پر کبوتر مچل اٹھا تھا پھڑپھڑاتے ہوئے وہ اس کے ہاتھ کی گرفت سے نکل کر دونوں چھتوں کے درمیان بنی دیوار پر جا بیٹھا ..
جو با مشکل پانچ سے چھ فٹ ہو گی ..
وہ بوکھلا سی گئی تھی کبوتر کا پنجہ اس کی گردن پر لگا تھا جس سے باریک سی خون کی لکیر نمودار ہو گئی تھی ..
اس نے چونک کر عارب کی چھت کی طرف دیکھا جہاں وہ براؤن شلوار قمیض پہنے آستین کے کف موڑے اسی کبوتر کو ہاتھ میں لئے کھڑا تھا ..
ساج کو اگر اس میں کچھ پسند تھا تو صرف اتنا کے  وہ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز ضرور ادا کرتا تھا..
لیکن اس وقت سخت زہر لگ رہا تھا ..ان دونوں میں اگر کچھ مشترک تھا تو صرف کبوتروں کا شوق ..
جتنے ساج کے پاس تھے اس سے دو گناہ زیاد عارب کے پاس تھے ..
"ادھر دو میرا کبوتر ..!!"
دیوار پر دونوں ہاتھ رکھے وہ نیچی آواز میں غرا کر بولی ..
" آیا اپنی مرضی سے ہے تو جاۓ گا بھی اپنی مرضی سے ہی نہ  ..کیوں بھائی کبوتر ٹھیک کہا نہ میں نے ؟..!!"
اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے تپانے والے انداز میں ساج کو دیکھا ..
"عارب میں صبح ہی صبح تم سے لڑ کے اپنا دن نہیں خراب کرنا چاہتی ..بہتر ہوگا اسے واپس کردو مجھے ..ورنہ ناشتے کے نام پر تھپڑ کھاؤ گے ..!!"
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے کیا کر گزرے اس کے ساتھ ..غصہ تھا کے بڑھتا ہی جا رہا تھا جتنی وہ کوشش کرتی تھی اس سے نہ بھڑنے کی اتنا ہی وہ اس کے راستے میں آکر کھڑا ہو جاتا تھا ..
"پڑوسن کبوتر باز .یہ ناشتہ نہ دینے کی دھمکی کسے دے رہی ہو ؟ اگر ناشتہ نہ ملا تو اسے کبوتر کو روسٹ کر کے کھا جاؤں گا میں ..!!"
"عارب ب  ...!!!"
وہ زور سے چیخی ..
صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جا رہا تھا ..
اپنا کبوتر اس پاگل کے قبضے میں دیکھ کر غصے کا گراف بڑھتا ہی جا رہا تھا ..
"اچھا اچھا ..دے رہا ہوں یار ایسے چلا کر محلے والوں کو کیوں جگا رہی ہو صبح ہی صبح ؟؟..جا بھئی کبوتر ..میری پڑوسن اور اپنی مالکن کے پاس جا ..ہش ہش ..جا یار چلا جا ..دیکھو اب خود ہی نہیں جانا چاہ رہا یہ ..!!"
کبوتر کو نیچے فرش پر رکھے وہ ہاتھ سے اسے اڑانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب یہ نہ جانے اس کبوتر کی سستی تھی یا اسے عارب کی چھت پسند آ گئی تھی وہ تو وہیں آرام سے نہ جانے کا ارادہ کر کے بیٹھ گیا ..
اس نے کندھے اچکا کر ساج کو دیکھا اب تمہارا سست کبوتر خود ہی نہیں جانا چاہتا تو میں کیا کروں ؟..!!"
وہ وہاں سے مڑ کر دوسری جانب آیا تھا جہاں اس کے بے شمار کبوتر پوری چھت پر بکھرے نیچے گرا دانہ کھانے میں مصروف تھے ..ساج کی طرح وہ انھیں قید کر کے نہیں رکھتا تھا ..
سٹول پر سے برتن اٹھا کر مٹھی میں دانہ بھر کر اس نے ان پر اچھالا تھا ..
صبح ابھی پوری طرح سے طلوع نہیں ہوئی تھی لیکن سورج کی ہلکی سی کرنیں نمودار ہونا شروع ہو گئیں تھیں ..
ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے اس کے ماتھے پر بکھرے سوٹ کے ہم رنگ بال پیچھے کی طرف اڑ رہے تھے جنہیں وہ ہاتھ سے بار بار ٹھیک کر رہا تھا ..
دانہ پھینکتا اس کا ہاتھ تھما تھا ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا ڈرتے ڈرتے اس نے گردن گھما کر برابر والی چھت پر دیکھا جہاں وہ ابھی بھی غضب ناک انداز میں اسے گھور رہی تھی ..
"نہیں ..اسے اپنی جان بھی پیاری تھی اور اپنا ناشتہ بھی ..!!"
جلدی سے وہ دوبارہ اس کے پاس آیا اور جھک کر مزے سے ٹھنڈے فرش پر آرام فرماتے  اس نیستی  کبوتر کو زبردستی اٹھا کر پوری عزت کے ساتھ گردن جھکا کر پڑوسن کو پیش کیا ..
جس کی آنکھوں سے آگ کے شعلے بس باہر لپکنے کو ہی تھے ..
جھپٹنے کے سے انداز میں کبوتر چھین کر خونخوار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے وہ پنجرے کے پاس آئی تھی ..
"اگر ان سے عشق فرما لیا ہو تو ناشتہ بنا دو میرے لئے ..اور سنو انڈہ حاف فرائی بنانا کٹی ہوئی کالی مرچ چھڑک کر ..!!"
"ملاذمہ نہیں ہوں میں تمہاری ..اور نہ ہی یہاں کوئی فرمائشی پروگرام چل رہا ہے ..نہیں ملے گا آج تمہیں ناشتہ ..دو منٹ میں نیچے آجاؤ ورنہ چاۓ اور توس سے بھی جاؤ گے ..اماں باوا چلے گئے لاڈلے کو ہمارے سر چھوڑ گئے ..ہنہ اب ان لاڈ صاحب کے نخرے اٹھاؤ..!!"
وہ بڑبڑاتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی ..پیچھے وہ خود کو کوس کر رہ گیا کے کیا ضرورت تھی اس کے ساتھ پنگا کرنے کی ؟  ناشتہ تو گیا نہ اب ؟..
"ہاۓ میرا انڈہ پراٹھا ..!!
وہ کلس کر رہ گیا ..
_________________________________________
دادی آپ کو ہو کیا گیا ہے ؟ چالیس ہزار اس ڈفر کو ایسے ہی دے دئے ..اس کو کیا پتا کے قربانی کا  جانور کیسا خریدنا چاہیے؟آج تک اس نے ایک انڈہ تو خریدا نہیں  ..اگر ایسا ویسا بکرا اٹھا لایا اور خدا ناخواستہ اگر لولا لنگڑا ہوا تو کیا کریں گے ہم ؟ ..ہماری قربانی تو گئی نہ ..!!"
ساج سخت غصے سے تلملاۓ انداز میں صحن میں  یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی ..
کل ہی تو اس نے کمیٹی والے پیسے احتیاطآ دادی کے پاس رکھواۓ تھے کے اس سے جانور خرید لیں گے لیکن اسے کیا پتا تھا کے دادی اسی وقت وہ پیسے عارب کو تھما دیں گی ..
"تو کیا ہوا ساجو اگر بکرا لولا لنگڑا ہوا تو ہم اس سے تمہارا نکاح پڑھوا دیں گے سو سمپل ..!!"
صحن کی بیچ دیوار پر لٹکے اس نے سیب کھاتے ہوئے مخلصانہ انداز میں مشورہ دیا ..
"تم ..!!"
وہ غصّے سے اس کی جانب مڑی ..
"ہٹو یہاں سے ..گراؤ گے کیا دیوار اپنے بھاری وجود سے ؟..اور دادی میں آپ سے کہ رہی ہوں اس کو کہے کے شرافت سے پیسے واپس کر دے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ..!!"
انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں ساج نے باری باری ان دونوں سے کہا تھا ..
"ہاۓ لڑکی باؤلی ہوئی ہے کیا ؟ اگر اس سے پیسے واپس لوں گی تو کیا تو جاۓ گی منڈی ؟ یا مجھ بڑھیا کو بھیجے گی خاک چھاننے کے لئے ؟ جس کا کام ہے اس کو کرنے دے کاہے کو بحث کرتی ہے ؟؟..!!
تخت پر بیٹھے مٹر کا تھال گود میں رکھ کر چھیلتے ہوئے دادی نے بگڑ کر کہا ..
"مٹھیاں بھینچ کر گہری سانس لیتے ہوئے جیسے اس نے بہت ضبط سے کام لیا تھا ساتھ ہی ایک گھوری اس پر ڈالی جو ابھی بھی دیوار پر ٹنگا تھااسنے ابرو اچکا کر شرارتی انداز میں ساج کو دیکھا  ..
"تم ..بے غیرت انسان دفع ہو جاؤ یہاں سے ..!!"
تخت پر پڑا کشن اٹھا کر اس نے عارب کو کھینچ مارا تھا وہ تو بوکھلا کر نیچے ہو گیا لیکن اس طرف سے دروازہ کھول کر اپنی جون میں آتے عمر کر چہرے پر جا لگا ..
"یا وحشت ..!!"
وہ بلند آواز میں چلایا ..
"خاموش ہوجا کیوں حلق پھاڑ رہا ہے ؟ کون سا مزائل مار دیا تجھے ؟..!!
عارب نے ادھ کھایا سیب بھی اس کی طرف اچھالا تھا جو سیدھا اس کے سر پر لگا ..
"یہ تم لوگوں کی لڑائی میں ہمیشہ میں ہی کیوں پیستا ہوں ؟..!!"
وہ دہائی دینے والے انداز میں گویا ہوا ..
" عارب ب ب ..!!"
اس کے دھیان ہٹتا دیکھ وہ بلند آواز سے چیخی ...
"جی میری جان ..!!"
وہ جی جان سے متوجہ ہوا لیکن پھر عمر اور ساج سمیت دادی اور گڈو کے کھلے منہ دیکھ کر اندازہ ہوا کے وہ کیا بول گیا ہے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ..اور اس سے پہلے کے دادی کی چمڑے کی ہوائی چپل اس کے سر پر برستی .وہ فورآ سے وہاں سے نو دو گیارہ ہوا تھا ..دادی اور ساج سے کوئی بعید نہ تھی کے پنکھے سے ہی لٹکا دیتی ..!!
جاری ہے ..

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment