سرپرائز-----
میں پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔
"وجاہت بیٹا۔۔۔۔آخری چائے؟؟؟؟"
اب کی بار باقاعدہ دروازہ توڑنے کی کوشش کی جارہی تھی۔میں نے فوراً بیڈ کے نیچے چھپ گیا۔پورا گھر دروازے کے شور،چاچو کی آواز اور نیچے موجود عفریتوں کی چیخوں سے گونج رہا تھا۔میں نے بے بسی کے عالم اپنے کانوں پرہاتھ رکھ لیئے۔یہ سِلسلہ پانچ دس منٹس چلتا رہا۔پھر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے دروازہ ٹوٹ چکا ہو۔چاچو کے بھاری قدموں کی چاپ میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی۔وہ شاید ٹیرس پر پہنچ چکے تھے۔
"جاذب دیکھو تمہارے وجاہت بھائی چھپن چھپائی کھیلنا چاہ رہے ہیں۔"
ان کی آواز کے آئی۔میرے اعصاب شل ہونے لگے۔بیڈ کے نیچے سے چاچو کے قدم واضح نظر آنے لگے۔
"دیکھو اب چاچو کو اتنا تنگ مت کرو۔باہر آجاو شاباش۔"
وہ الماری کے قریب موجود تھے۔الماری کھلنے کی آواز آئی۔
"اچھا تو یہاں بھی نہیں ہو۔"
وہ شاید واشروم کی جانب بڑھنے لگے۔
"جانتے ہو کتنے سال لگے اس رات کے انتظار میں؟؟؟نہیں تم بھلا کیسے جان پاو گے؟؟؟اگر جانتے ہوتے تو یوں چھپ کر مجھے مایوس نا کرتے!!!"
اب ان کی آواز قریب آنے لگی۔
"اوہ۔۔۔۔تو یہاں چھپے ہوئے تھے۔"
ایک دم انہوں نے جھک کر بیڈ کے نیچے جھانکا۔میرے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
"آجاو شاباش۔۔۔باہر آجاو اب بس۔"
وہ مکاری سے بولے۔مگر میں اپنی جگہ سے ٹس سے مس ناہوا۔
"اچھا تو نہیں آو گے۔"
اتنا کہتے ہی انہوں نے مجھے پاوں سے پکڑا اور باہر گھسیٹنے لگے۔جیسے ہی میرا آدھا دھڑ بیڈ کے باہر پہنچا،میری نظر کونے پر پڑے اس راڈ پر پڑی۔میں نے بڑی مشکل سے ہاتھ بڑھا کر وہ راڈ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
"کہا تھا نا کہ پیار سے باہر آجاو۔اب تمہیں اس ضد کی سزا ملے گی۔"
اب ان کا لہجہ اور آواز دونوں بدل چکے تھے۔وہ میری جانب جھکنے لگے۔جیسے ہی ان کا سر میرے نشانے پر پہنچا، میں نے بھرپورطاقت کے ساتھ وہ راڈ ان کے سر پر دے مارا۔وہ زوردار چیخ مارتے ہوئے ایک طرف کو لڑھک گئے۔ان کے سر سے خون بہنے لگا۔یہ موقع میرے لیئے غنیمت تھا۔ایک جست لگا کر میں کھڑا ہوا،راڈ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بھاگا۔جیسے ہی نیچے اترا، میری نظر ان تینوں پر پڑی۔جاذب سب سے آگے تھا۔چچی اور ماہ نما اس کے پیچھے تھے۔میں فوراً بائیں جانب کو بھاگا۔اس طرف ایک گیلری تھی جس کے آخر میں شاید سٹور روم تھا۔میں نے آودیکھا نا تاو سٹور روم میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کردیا۔اندھیرے میں دیوار کو ٹٹولا تو بورڈ مل گیا۔بلب آن کر کے میں نے دیوار کے ساتھ لگ کر ہانپنا شروف کردیا۔تبھی دروازے پر ایک زوردار ضرب لگی۔وہ شایف جاذب تھا جو کلہاڑی سے دروازہ توڑنے کی کوشش کررہا تھا۔میں نے فوراً اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو چھوٹی سی پرانی الماری نظر آئی۔بڑی مشکلوں سے اسے دھکیل کر دروازے کے آگے رکھا۔اب مجھے اگلا لائح عمل تیار کرنا تھا۔یہ الماری زیادہ دیر تک ان خبطیوں کو نہیں روک سکتی تھی۔میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو کونے میں مجھے گرد سے اٹا ایک فریم نظر آیا۔تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ فریم اٹھایا تو اس میں کسی فیملی کی تصویر لگی تھی۔وہ بھی چار افراد تھے۔مرد،عورت،لڑکا اور لڑکی۔مگر چاچو کی فیملی تو نہیں تھی۔۔۔۔پھر یہ لوگ کون تھے؟؟؟؟
تبھی الماری کو ایک زوردار دھچکا لگا تو کچھ گرنے کی آواز آئی۔میں نے غور کیا تو وہ شاید کوئی پرانی ڈائری تھی۔اگرچہ موت میرے سر پر منڈلا رہی تھی،تاہم میرے اندر تجسس بڑھنے لگا۔میں اس گتھی کو سلجھانا چاہتا تھا۔سو بڑھ کر ڈائری اٹھا لی۔پہلے صفحہ پر جلال چاچو کا نام لکھا تھا۔میں الٹ پلٹ کر دیکھا تو ایک پرانی تصویر نیچے گری۔جھک کے وہ تصویر اٹھائی۔یہ اباجی کی جوانی کی تصویر تھی۔مگر ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔وہ شخص مجھے دیکھا دیکھا سا لگنے لگا۔تبھی ایک خیال بجلی کی مانند میرے ذہن میں لپکا۔میں نے فوراً پہلے والی تصویر اٹھائی۔اس تصویر میں موجود شخص کا موازنہ اباجی کے ساتھ کھڑے جوان سے کیا تو میرا منہ مارے حیرت کے کھلا رہ گیا۔ان دونوں تصویروں میں ایک ہی شخص تھا۔تو پھر اگر یہ جلال چاچو اور ان کی فیملی تھی تو باہر کون لوگ تھے۔اور اصل چاچو اور ان کی فیملی کہاں گئی؟؟؟؟؟
"مگر میں نے تو جلال چاچو کو دیکھا ہوا تھا!!!!پھر مجھے ان کا چہرہ کیوں یاد نہیں رہا تھا!!!!"
تبھی مجھے یاد آیا کہ بچپن سے ہی مجھے چہرے بھولنے کی عادت یا بیماری تھی!!!ایک دو بار دیکھا چہرہ ہمیشہ میرے ذہن سے محو ہوجاتا تھا۔اس دن ٹرین سے اترتے ہی میں نے نہیں بلکہ اس شخص نے مجھے پہچانا تھا!!!پر کیسے؟؟؟؟؟؟یہ سب کیا ہورہا تھا؟؟؟؟ذمین میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔کہیں یہ سب بہروپیئے تو نہیں تھے؟؟؟گھس بیٹھیئے؟؟؟؟
دروازہ شاید ٹوٹ چکا تھا۔وہ لڑکا جو جاذب کہلواتا تھا الماری کو دھکیلنے لگا۔چند ہی لمحوں بعد الماری نیچے گر چکی تھی۔ہاتھ میں کلہاڑی لیئے وہ میرے سامنے موجود تھا۔
"کیا یار وجاہت بھائی اتنا تنگ کیوں کررہے ہو؟؟؟؟؟دیکھو بابا کا سر بھی پھاڑ دیا آپ نے۔پھر مجھ سے اتنی مشقت کروائی۔"
اس کی آواز میں چھپی مکاری واضح تھی۔وہ آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگا۔الماری اور تصویروں کے چکر میں راڈ بھی میرے ہاتھ نہیں رہا تھا۔میں پیچھے کی جانب بڑھتے بڑھتے دیوار سے جالگا۔میرے نزدیک پہنچتے ہی اس کے ہاتھ فضاء میں بلند ہوئے۔اس سے پہلے کہ وہ مجھ پر وار کرتا کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نیچے جھکا اور قلابازی لگا کر اس کے پیچھے پہنچ گیا۔اس کا وار خطا گیا۔اسی عرصے میں نے جھک کر نیچے پڑا شیشے کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا اٹھایا۔وہ میری جانب پلٹا۔میں نے آنکھیں بند کر کے پورے زور کے ساتھ اس پر وار کیا۔توقع کے برعکس چیخنے کی بجائے اس کے منہ خرخرانے کی آوازیں نکلیں۔میں نے ایک آنکھ کھول کردیکھا تو سامنے دل دہلا دینے والا منظر تھا۔شیشے کا وہ ٹکڑا عین اس کی شہہ رگ میں گھس چکا تھا۔وہ اپنے ہاتھ گردن پر رکھے وہ بے یقینی کے عالم میں میری طرف دیکھی جارہا تھا۔
"یہ وقت اب گھبرانے یا ترس کھانے کا نہیں۔اپنی جان بچانے کے لیئے کسی بھی حد تک جانا پڑسکتا ہے۔"
میرےاندر کی آواز نے مجھے جھنجوڑا۔میں نے فوراً اس نیچے پڑی کلہاڑی اٹھائی اورواپس گیلری کی جانب بھاگا۔باہر کوئی موجود نا تھا۔موقع غنیمت جان کر میں نے گھر کے احاطے کا رخ کیا۔اندھا دھند دوڑتے ہوئے اچانک میرا پاوں کسی چیز سے ٹکرایا اور میں منہ کے بھر نیچے جاگرا۔جیسے ہی سیدھا ہوکراٹھنے کی کوشش کی،میری نظر اس لڑکی پر پڑی۔وہ گھٹنوں کے بھر ذمین پر بیٹھی تھی۔اس کے ہاتھ میں وہیں چھری تھی۔
"جاذب کہاں ہے؟؟؟"
اپنی خون آلود آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے وہ غرائی۔
میں پیچھے کی جانب کھسکنے لگا۔وہ بھی آگے بڑھی۔
"جاذب کہاں ہے؟؟؟؟؟؟؟"
اب کے وہ چِلائی۔میں نے کوئی جواب نادیا۔تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ مزید آگے بڑھی۔جس ہاتھ میں چھری تھی،وہ اوپرکی جانب اٹھا۔میں نے فوراً اس کے کندھے پر ایک زوردار لات رسید کی۔وہ چند قدم پیچھے لڑھکی۔میں کلہاڑی اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ کھڑا ہوا۔اسی اثنا میں وہ بھی سنبھل چکی تھی۔ہم دونوں اب آمنے سامنے تھے۔
"مار ڈالا میرے بھائی کو؟؟؟؟اپنے ہی کذن کو؟؟؟"
"میں جان چکا ہوں تم لوگ میرے رشتہ دار نہیں ہو!!!"
"او!!!تو تم جان چکے ہو!!!"
"کہاں ہیں چاچو اور ان کی فیملی؟؟؟؟اور تم لوگ کون ہو؟؟؟"
"تمہارے چاچو؟؟؟؟؟بھول گئے؟؟؟کل رات تمہارے سامنے ہی تو انہیں دفنایا تھا؟؟؟؟؟اور باقی لوگ؟؟؟سب لی لاشیں تہہ خانے میں پڑی ہیں!!!"
اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ابھری۔
"اور۔۔۔تم لوگ؟؟؟کون ہو تم لوگ؟؟؟؟کیوں کیا ایسا؟؟؟"
"اوہ!!!اتنے سوال؟؟؟؟چلو ان کے جواب تم اپنے چاچو کے پاس پہنچ کرلینا۔"
یہ کہتے ہی اس نے مجھ پر ایک جست کے ساتھ وار کیا۔میں ایک طرف تو ہوا تاہم اس چھری کی تیز دھار میرے کندھے پر گہرا زخم چھوڑ گئی۔اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی میں نے کلہاڑی سے اس کے سرپروار کیا۔وہ چیختی ہوئی نیچے جاگری۔اس کس سر بری طرح پھٹ چکا تھا۔زمین پرلوٹ پوٹ ہورہی تھی۔تبھی مجھے اس عورت کے چلانے کی آواز آئی جس خود کو میری چچی ظاہر کررہی تھی۔وہ مجھ پر حملہ کرنے کے لیئے دوڑی۔میں فوراً اس کی بیٹی کے سر پر پہنچ گیا۔کلہاڑی سے اس کی گردن کا نشانہ لیتے ہوئے چِلایا:
"اگر آگے بڑھی تو میں تمہاری بیٹی کی گردن کاٹ دوں گا۔"
میری دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔چند فٹ کے فاصلے پر ہی رک کر وہ خونخوارنگاہوں سے مجھے گھورنے لگی۔
"کون لوگ ہو تم؟؟؟"
میں چیخا۔اس نے حقارت سے مجھے دیکھا مگر خاموش رہی۔
"آخری بار پوچھ رہا ہوں کون ہو تم لوگ؟؟؟؟"
"اِمپوسٹرز!!!!!"
وہ غرائی۔
"چاچو اور ان کی فیملی کو قتل کیوں کیا؟؟؟"
"میں۔۔۔۔نے۔۔۔۔کہا۔۔۔۔ہم۔۔۔۔ایمپوسٹرز۔۔۔ہیں۔۔۔۔اور۔۔۔سیرئیل۔۔۔کِلرز۔۔۔۔"
اس نے ایک ایک لفظ پر زوردیا۔ساری کہانی میری سمجھ میں آچکی تھی اب!!!!
میں اسے زیادہ دیر نہیں روک سکتا تھا۔وہ لڑکی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔تبھی میری نظر اچانک اس سائے پر پڑی جو پیچھے سےمیری جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔جیسے ہی اس کے ہاتھ بلند ہوئے میں فوراً ایک طرف کو ہوگیا۔حملہ کرنے والا اپنا توازن قائم نا رکھ سکا اور آگے کی جانب لڑکھڑایا۔یہ وہی مرد تھا۔۔۔۔اس کے سر پر زخم کا نشان اور بالوں میں خون جما ہوا تھا۔اس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ کچھ حد تک کمزورپڑچکا تھا۔میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کلہاڑی سے اس کی ٹانگ پر وار کیا۔اس کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔کلہاڑی اس کی ٹانگ کے مسلز میں دھنس چکی تھی۔تبھی میری کمر میں ناقابلِ برداشت درد اٹھا۔میں نے نیچے دیکھا تو وہیں چھری میری کمر میں دھنسی ہوئی تھی۔ساتھ ہی کھڑی وہ عورت وحشیانہ نگاہوں سے مجھے گھور رہی تھی۔میں گھٹنوں کے بٙل ذمین پر بیٹھ گیا۔
وہ عورت فوراً اندر کی جانب دوڑی۔کچھ ہی لمحوں بعد باہر نکلی تو اس کے ہاتھ میں وہیں گیلن اور ماچس تھے۔میرے قریب پہنچ کر اس نے گیلن کا ڈھکن کھولنا شروع کردیا۔ اس کا ارادہ بھانپتے ہی میں نے فوراً اپنی کمر میں گھسی چھری کو پکڑا اور اپنی چیخ پر قابو پاتے ہوئے وہ چھری نکالی۔تب تک وہ گیلن کا ڈھکن کھول چکی تھی۔میں نے بغیر دیکھے بھرپور طاقت کے ساتھ وہ چھری اس کی جانب پھینکی جو سیدھا عین اس کے آنکھ کے نیچے جالگی۔گیلن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے وہ چلانے لگی۔میں کمرمیں اٹھنے والا شدید درد نظر انداز کرتے ہوئی مشکل کھڑا ہوا۔کچھ فاصلے پر پڑی کلہاڑی اٹھائی اور اس عورت کی جانب بڑھا۔تبھی اس مرد نے مجھے ٹانگ سے پکڑنے کی کوشش کی۔میں نے ایک جھٹکے سے ٹانگ چھڑوائی،اور پلٹ کر عین اس کے سینے کے درمیان میں وار کیا۔پھر کلہاڑی سنبھالتے ہوئے میں اس عورت کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔
"چاند رات مبارک ہو۔۔۔۔۔!!!"
اس کے سر پرپہنچ کرمیں نے کہا۔
ختم شد۔
ذیشان حیدر
No comments:
Post a Comment