Pages

Saturday, 1 June 2019

چاند رات....... دوسری قسط

تبھی کسی نے زور سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔میں نے بمشکل خود کو چیخنے سے روکا۔
"ککک۔۔ککون؟؟؟؟"
میں ٹیرس سے ہی چِلایا۔
"وجاہت بیٹا میں ہوں۔"
یہ جلال چاچو کی آواز تھی۔میں فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا۔وہاں کوئی نا تھا۔
"بیٹا کیا ہوگیا ہے؟ دروازہ کھولو۔"
جلال چاچو بولے۔
"ججج۔۔۔جی چاچو۔۔۔آیا۔"
میں اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے دروازے کی جانب دوڑا۔دروازہ کھولتے ہی جلال چاچو کو عین اپنے سر پر پا کر میں دوچار قدم پیچھے ہٹا۔
"کیا ہوگیا ہے وجاہت؟ کوئی ڈراونا خواب تو نہیں دیکھ لیا؟"
وہ عجیب انداز سے مسکرائے۔میں مزید چند قدم پیچھے پلٹا۔
"جی۔۔ننہیں۔۔۔۔جی۔۔۔جی ہاں۔۔۔جی ڈراونا۔۔"
نجانے میں کیا بول رہا تھا۔
"اچھا نیچے آجاو سب چائے پر تمہارا انتظار کررہے ہیں۔"

"چائے؟؟؟اس وقت؟؟؟نہیں۔۔۔ہرگز نہیں۔میں اِن کے اس چائے کے جال میں نہیں پھنسوں گا۔"
میں نے سوچا۔
"کچھ کہا تم نے؟؟؟"
جلال چاچو کی آواز میں سختی تھی۔
"ننن۔۔۔نہیں۔۔۔میں بس.۔۔ابھی آیا۔۔۔ابھی آیا۔۔۔یہ دیکھیں میں ۔۔۔نے جوتے۔۔۔بھی پہن۔۔۔لیئے۔۔۔آگیا میں۔۔۔"
دِل ہی دِل میں اباجی پر غصہ ہوتے ہوئے میں نے سلیپر پہننے شروع کردیئے۔
"آپ۔۔۔چلیں۔۔۔میں بس۔۔۔پہنچا۔"
میں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔چاچو واپس مڑ گئے۔دروذہ پار کرتے ہی ایک انہوں نے مڑ کر دیکھا:
"آضرورجانا۔۔۔۔چائے۔۔۔پر۔"
نجانے انہوں نے لفظ "چائے" کو واقعی لمبا کیا یا مجھے لگا۔میں نے فوراً اثبات میں سٙر ہلایا۔وہ چلے گئے۔نجانے یہ کس مصیبت میں پھنس گیا تھا میں۔ڈرتا کانپتا میں نیچے کی پہنچا۔وہ سب نیچے بیٹھے میری جانب دیکھ رہے تھے۔
"کاش یہ نظریں نیچی کرلیں۔"
میں نے دعا کی۔مگر نا۔۔۔پہلے کبھی کوئی دعا پوری ہوئی جو یہ ہوگی!!!!
"آو بیٹا بیٹھو۔"
چچی نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"ججج۔۔۔جی۔۔۔"
میں ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔تبھی ماہ نما کو میں نے اپنے سر پر پایا۔دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔سرخ انگارہ آنکھوں کے ساتھ وہ اس وقت وحشی حسینہ لگ رہی تھی!!
"چائے لیں۔۔۔وجاہت۔۔۔بھائئئئی۔۔۔۔"
اس نے لفظ "بھائی" پر زور دیتے ہوئے کہا۔
میں نے میکانکی اندازیں ہاتھ بڑھا کر چائے کا کپ اٹھالیا۔تاہم ہاتھ اس قدر کپکپاہٹ کا شکار تھے کہ کپ میرے ہاتھوں سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
"میں تمہیں کاٹ دوں بیٹا؟؟؟؟"
چچی کا لہجہ انتہائی خوفناک تھا۔مجھے ایک زوردار دھچکا لگا۔
"جججج۔۔۔جی؟؟؟"
میری آواز کانپنے لگی۔
"میں تمہیں کیک کاٹ دوں بیٹا؟؟؟"
میں قسم اٹھا سکتا ہوں کہ چچی نے پہلی بار لفظ "کیک" نہیں بولا تھا۔
"جی۔۔۔جی۔۔۔"
میں نے اس سبز رنگی چائے کوگھورتے ہوئے جواب دیا۔۔۔!
"یہ لفظ "کیک" آپ پہلے بھی تو استعمال کرسکتی تھیں۔"
میں نے دل ہی دل میں چچی سے شکوہ کیا۔
"کیا کرتی بیٹا مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم ڈر جاو گے۔"
میں نے حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہوئے چچی کی طرف پھٹی نگاہوں سے دیکھا۔
"چھوڑو یہ لو کیک کھاو تم۔"
میں نے ہاتھ بڑھا کر چچی کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑی۔۔بلکہ چھینی۔کیک کی سطح پر جمی کائی واضح نظر آرہی تھی۔اس سے اٹھنے والی عجیب بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔میں نے غیر محسوسانہ انداز میں پلیٹ واپس میز پر رکھنے کی کوشش کی۔
"اررے یہ تو بہت بری بات ہے وجاہت بھائی۔میں نے اتنی چاہ سے آپ کے لیئے کیک بنایا۔ایک بائٹ تو لینی پڑے گی۔"
ماہ نما نے ہاتھ میں پکڑی تیز دھار چھُری کو گھماتے ہوئے کہا۔میں نے فوراً کیک کا ٹکڑا اٹھایا اور آنکھیں بند کر کے ایک بائٹ لی۔عجیب بدمزہ ذائقہ تھا۔دل چاہ کہ فوراً منہ میں ہاتھ ڈالوں۔لیکن پھر ماہ نما کے ہاتھ میں موجود چھُری پر نظر پڑی۔
"کیسا لگا کیک وجاہت۔۔۔بھائئئئی؟؟؟؟"
وہ بولی۔اب مجھے تعریف کرنی تھی۔
"بہت۔۔۔بہت اچھا۔۔۔۔"
میں نے بمشکل نگلتے ہوئے کہا۔
تبھی میری نظر جاذب پر پڑی۔اس کے ہونٹوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔میں وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا۔
"چلو اب سب سو جاو۔اٹھو شاباش۔"
جلال چاچو کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میں نے سکون کا سانس لیا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
اس تمام واقع کے بات نیند کیا خاک آنی تھی۔رات بھر میں ہاتھ میں راڈ کا ٹکڑا، جو ٹیرس سے ملا تھا، پکڑے دروازے کی جانب دیکھتا رہا۔صبح ہوتے ہی میں نے فوراً اپنا فون اٹھایا اور ابا جی کا نمبر ڈائل کیا۔
"ہیلو برخوردار خیر تو ہے اتنی صبح فون کیا؟"
اباجی بولے۔
"میں آج واپس آرہا ہوں۔"
میں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا۔
"کیا مطلب واپس آرہے ہو؟؟؟؟"
ابا جی حیران ہوگئے۔
"بس یہاں مسائل ہیں کچھ۔"
میں اس وقت فون پر کچھ نہیں بتاسکتا تھا۔اگر بتا بھی دیتا تو اباجی نے کونسا یقین کرلینا تھا۔
"اوہ۔۔۔اچھا مسائل۔۔۔۔کیوں بیٹا ماں سے بات نہیں ہوئی؟؟؟"
ابا جی سنجیدگی سے بولے۔
"ہائیں؟؟؟؟اماں کہاں سے آگئیں بیچ میں؟؟؟"
میں نے سوچا۔
"اماں سے بات؟؟؟کل ہی تو آیا ہوں۔"
میں نے جواب دیا۔
"بیٹا میں اس ماں کی بات کررہا ہے ہوں جس سے تو رات کوچھپ چھپ کربات کرتا ہے۔"
ان کا لہجہ طنزیہ تھا!!!
"ان کو کیسے پتہ!!!!میں تو اپنی طرف سے سات پردوں میں چھپ کر اس سے بات کرتا تھا!!!"
میں نے سوچا۔بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ابا جی میری واپسی پر رضامند ہونے والے نا تھے۔
"ہیلو۔۔۔۔ہیلو۔۔۔ابا جی۔۔۔۔آآآواز۔۔۔۔۔"
میں نے اپنی طرف سے اداکاری کابھرپور مظاہرہ کیا۔
"پتہ ہے مجھے ایسے موقعوں پر تیری لائن کٹ جاتی ہے۔اور خبردار جو تو عید سے پہلے واپس آیا۔تیری ماں کو اس ماں کے بارے بتادینا ہے میں نے ورنہ۔"
اباجی کی دھمکی سنتے ہی میں نے فون کاٹ دیا۔سب ہی جانتے تھے کہ اگر اماں کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ موقعے پر ہی مُنی سے میرا نکاح کرادیتیں۔سو۔۔۔۔واپسی کا آپشن تو ختم!!!!
میں بے بسی کے عالم میں بیڈ پر ڈھیر ہوگیا۔رات بھر کا جگارا تھا۔فوراً نیند نے آلیا۔
"وجاہت بیٹا اٹھو۔کل شام سے سورہے ہو۔ناشتہ کرلو۔"
چاچو کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔بے خیالی میں ہاتھ فوراً راڈ پر گیا۔
"دیکھو گیارہ بج گئے ہیں دن کے۔اور یہ کیا؟؟؟راڈ کیوں رکھا ہوا ہے ساتھ؟؟"
چاچو نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
"جی۔۔وہ۔۔۔شاید نیند میں چلنے کی عادت ہے نا تو۔۔۔۔"
میں نے فوراً جھوٹ بولا۔چاچو مسکرا دیئے۔۔۔۔یہ رات والے چاچو لگ ہی نہیں رہے تھے۔
"اچھا نیچے آجاو۔تمہاری چچی ناشتہ بنا چکی ہوں گی۔سحری کے وقت تمہیں جگانے کی بہت کوشش کی پرتم جاگے ہی نہیں۔"
چاچو کی بات پر میں نے چونک کر انہیں دیکھا۔
"سحری؟؟؟؟میں تو بھول ہی گیاتھا کہ رمضان ہے۔لیکن سویا کب تھا میں؟؟؟؟؟؟"
سب کچھ سمجھ سے بالاتر تھا۔چاچو جاچکے تھے۔ان کے رویئے سے ایسا لگتا تھا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہیں۔خیر فریش ہوکر میں نیچے پہنچا۔چچی نے اسی پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا۔
"آو بیٹا تم ناشتہ کرلو۔میں تب تک بچوں کو اٹھاتی ہوں۔آج شاید چاند رات ہو۔تو تم جاذب کے ساتھ مارکیٹ گھوم پھر آنا۔کچھ سامان بھی لینا ہے اور تمہارا وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔"
میں ہونکوں کی طرح انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
دن بھر وہ لوگ مجھے بالکل عام انسانوں کی طرح ہی لگتے رہے۔مجھے خود اپنی حالت پرشبہ ہونا لگا کہ کہیں میں نے ہی کوئی بھیانک خواب نا دیکھ لیا ہو۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
افطار کرتے ہی سب ٹی۔وی کے سامنے بیٹھ گئے۔چاند سے متعلق اعلان ہونے میں ابھی وقت باقی تھا۔خیر گپ شپ میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔پھر چاند نظر آنے کی بریکنگ نیوز چلنے لگی۔کچھ ہی دیر بعد مفتی صاحب نے صبح عید ہونے کا اعلان کیا۔سب ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے۔سب کچھ بالکل معمول کے مطابق تھا۔کسی کا بھی رویہ مجھے مشکوک نہیں لگا۔چاچو نے ابا جی کو کال کی۔سب نے باری باری ابا جی اور اماں سے بات کی۔پھر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔گیارہ بجتے ہی محفل برخواست ہوئی۔سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
میں بیڈ پرلیٹا کل رات والے واقعات بارے سوچنے لگا۔
شاید ابا جی سچ کہتے تھے چیپ انڈین ہارر موویز کا میرے ذہن پر کچھ زیادہ ہی اثر ہونے لگا تھا۔سو میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ انڈین ہارر موویز بالکل نہیں دیکھنی۔صرف ہالی ووڈ ہی۔۔۔۔یونہی بے تکی باتیں سوچتے مجھے نیند آگئی۔
نجانے کون سا پہر تھا جب کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ آنکھ کھلتے ہی کانوں میں جلال چاچو کی عجیب و غریب آواز پڑی۔
"وجاہت بییییییٹا۔۔۔۔۔۔۔آخری چائے کاوقت ہوگیاہے۔"
آخری چائے؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔میں فوراً ٹیرس کی جانب دوڑا۔نیچے نظر دوڑائی تو جاذب نظر آیا۔اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی اور سرخ آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔میں الٹے قدموں پیچھے مڑا اور کھڑکھی کھول کر دیکھا تو سامنے ماں بیٹی کھڑی تھیں۔ماہ نما کے ہاتھ میں وہیں چھری تھی جبکہ چچی کے ایک ہاتھ میں ماچس اور دوسرے میں گیلن تھا۔۔۔۔ان سب کے چہروں پر خوفناک تاثرات تھے!!!!

جاری ہے

No comments:

Post a Comment