Pages

Friday, 31 May 2019

چاند رات...... پہلی قسط

کام سے فارغ ہوکر جیسے ہی گھر ابا جی نے اپنے کمرے میں بلا لیا۔آج وہ خلافِ معمول خوش نظر آرہے تھے۔باہر امی کے چہرے پر بھی میں نے ایسی ہی خوشی محسوس کی تھی۔
"آو بیٹا بیٹھو۔کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے۔"
ضروری بات؟؟؟ہرگز نہیں۔جو "ضروری بات" ابا  جی نے کرنی تھی وہ میں سمجھ چکا تھا۔
"نہیں اباجی۔ ہرگز نہیں۔میں خالہ کی بیٹی مُنی سے ہرگز شادی نہیں کروں گا۔"
میں نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔ابا جی نے ایک نظر سرتاپا مجھے دیکھا۔اپنی عینک اتار کے میز پر رکھی اور گویا ہوئے:
"ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ تمہیں ہر ضروری بات میں اپنی شادی یا مُنی ہی کیوں نظر آجاتی ہے؟"

"اوہ! تو گویا بات کچھ اور تھی!!!"
میں نے اباجی سے نگاہیں چراتے ہوئے سوچا۔
"برخوردار۔۔۔جسے شادی نہیں کرنی ہوتی نا وہ ہر بات میں شادی کو گھسیٹتا بھی نہیں ہے۔خیر میں سمجھ سکتا ہوں تمہارے جذبات۔آخر میں بھی کبھی س عمر سے گزرا تھا۔بات کرتا ہوں تمہاری ماں سے کہ عید کے فوراً بعد جائے فرزانہ کے ہاں۔کہیں مُنی کسی اور کی ڈولی میں نا بیٹھ جائے۔"
میں جانتا تھا کہ اب ابا جی کی حسِ مزاح و طنز بیدار ہوچکی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ مزید بھگو بھگو کر مارتے میں  فوراً بولا:
"وہ ابا جی آپ کچھ۔۔۔۔ضروری بات۔۔۔کررہے تھے؟؟؟"
میری توجہ دِلاتے ہی ابا جی فوراً بولے:
"اوہ ہاں۔۔۔آج تمہارے چاچو کا فون آیا تھا۔۔۔۔"
ابا جی نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔میں نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا۔چند لمحوں کے لیئے تو مجھ پر بھی سکتا طاری ہوگیا۔مجھے لگا جیسے مجھ سے ہی سننے میں غلطی ہوئی ہو۔
"ککک۔۔۔کیا کہا آپ نے؟؟؟"
"یہیں کہ تمہارے چاچو کا فون آیا تھا۔"
ابا جی سمجھتے تھے کہ میرا حیران ہونا جائز تھا۔
"مطلب۔۔۔جلال چاچو کا؟؟؟؟"
میں نے ایک بار پھر کنفرم کرنا چاہا۔
"تو اور کتنے چاچو ہیں تمہارے؟؟؟ کتنی بار کہا کہ یہ سستے سٙسپینس والی انڈین فلمیں مت دیکھا کر۔خوامخواہ ایک ہی بات بار بار دہرا کر سین لمبا کرنے کی عادت ہوگئ ہے تمہاری!!"
ابا جان آج واقعی فارم میں تھے!!!
"تو کیا کہا انہوں نے؟؟؟"
میں نے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔
"معافی مانگ رہا تھا۔رو رہا تھا۔پشیمان تھا۔ظالم جانتا تھا  کہ بچپن سے ہی میں اسے روتا نہیں دیکھ سکتا۔اس لیئے ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آیا۔"
اباجان جذباتی ہونے لگے۔
"تو آپ نے کیا کہا؟؟؟"
"کیا کہتا؟؟؟ معاف کردیا۔اب وہ بضد ہے کہ تمہیں اس کے ہاں بھیجوں۔تبھی اسے یقین آئے گا کہ میں نے اسے دل سے معاف کردیا ہے۔"
ابا جی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"مطلب مجھے وہاں جانا ہوگا؟؟؟"
میں نے بیزاری کا مظاہرہ کیا۔
"نہیں میں نے اسے کہا کہ تمہیں نہیں بھیج سکتا۔یہ اپنے مولوی حیکم اللہ صاحب ہیں نا؟؟ انہیں بھیج دوں گا۔"
ابا جی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"مگر مولوی صاحب تو فوت ہوچکے ہیں ابا جی۔"
میں نے حیران ہوکر انہیں دیکھا۔
"ایک بات تو بتاو مجھے۔یہ تم بے وقوف بننے کا ڈھونگ رچاتے ہو یا پھر واقعی بے وقوف ہو؟؟؟"
"اب میں نے کیا غلط کہہ دیا!!!سچ ہی تو کہا تھا کہ مولوی صاحب تو فوت ہوچکے تھے!!!"
میں نے سوچا۔
"ممم۔۔۔مطلب ابا جی؟؟؟"
"اے میرے لنڈے کے سٹیون ہاکنگ۔۔۔تمہارا کہا تو تمہیں ہی بھیجوں گا نا!!!"
ابا جی نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
"اوہ!!!تو ابا جی نے مولوی صاحب کا نام طنزیہ لیا تھا!!!"
کاش کہ یہ میں پہلے ہی سمجھ لیتا!!!
"ٹھیک ہے۔کب جانا ہے؟؟"
میں نے پوچھا۔
"آج 27 رمضان المبارک ہے۔تم یوں کرو کہ کل ہی چلے جاو۔میں نے بشیر کو بھیج دیا ان لوگوں کے لیئے عیدی اور گفٹس لانے کے لیئے۔اور ہاں عید ادھر ہی گزار کر آنا تم۔"
میں جانتا تھا کہ اس بار بھی عید کی چھٹیاں ابا جی کے حکم کے مطابق ہی ضائع ہونی تھیں!!پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا۔اپنے کسی دوست کے ہاں مجھے بھیج دیا تھا۔جنکی بیٹھک بھی نہیں تھی۔چاند رات مجھےٹریکٹر کی ٹرالی میں بچھے گدے پر گزارنی پڑی تھی!!!
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
میرے سامنے عیدی اور گفٹس سے بھرے دو ٹرنک پڑے تھے۔میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"ابا جی یہ عیدی ہے؟؟؟"
میں نے اپنی طرف سے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا۔
"نہیں بیٹا۔یہ وہ سامان ہے جو تمہاری ماں تمہارے جہیز کے نام پر جمع کرتی رہی تھی۔"
"ابا جی!!!!کبھی بس بھی کردیا کریں!!!"
میں نے سوچا۔خیر وہ سارا سامان ٹیکسی پر لاد کر میں ریلوے سٹیشن کی جانب گامزن ہوگیا۔سارا راستہ بے مزہ گزرا۔ آخر جلال چاچو کو کیا پڑی تھی کہ عید سے عین ایک دو دن پہلے فون کردیا۔جہاں اتنے سال رکے رہے وہاں چند دن اور انتظار کرلیتے!!!
جلال چاچو ابا جی سے چھوٹے اور سب کے لاڈلے تھے۔خاندان بھر سے جو پیار ملا اس نے انہیں ضدی اور خود سر بنا دیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دادا جان کی مرضی کے خلاف شادی کرلی۔دادا جی کے اس شادی سے شدید اختلاف کی وجہ یہ نہیں تھی کہ چاچو نے چھپ کرشادی کی۔بلکہ انہیں اس خاندان پر اعتراض تھا جہاں سے چاچو دلہن بیاہ لائے۔اتفاقاً چچی اس بندے کی بیٹی نکلیں جس نے جوانی کے زمانے میں دادا کے پیار پر ڈاکہ ڈالا تھا۔اب یہ بات داد جی واضح تو نہیں کرسکتے تھے اس لیئے جلال چاچو کو گھر سے نکال دیا گیا۔پھر اس کے بعد چاچو کو میں نے دوبار ہی دیکھا۔پہلی بار دادا کی فوتگی اور دوسری بار دادی کے جنازے پر۔اس کے بعد سے آج تک انہیں دیکھنا تو دور،ان سے بات تک نہیں ہوئی کبھی۔بس سنا تھا کہ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے۔جنہیں میں آج پہلی بار دیکھنے والا تھا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
سٹیشن پراتر کر میں نے سامان سمبھالتے ہوئے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔تبھی کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پرہاتھ رکھا۔میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ جلال چاچو تھے۔مجھے اپنی طرف موڑ کر انہوں نے گرمجوشی سے اپنے گلے لگایا۔کافی دیر وہ یونہی مجھے بھینچے رہے۔چاچو کے ساتھ ہی 13،14 سال کا ایک خوش شکل لڑکا کھڑا تھا،جس نے مسکراتے ہوئے میری جانب ہاتھ بڑھایا:
"السلام علیکم وجاہت بھائی۔"
میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سوالیہ نظروں سے چاچو کی جانب دیکھا۔
"یہ جاذب ہے تمہارا کذن۔"
چاچو مسکراتے ہوئے بولے۔
خیر ہم کچھ ہی دیر بعد چاچو کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔سارے راستے چاچو اپنے ماضی کے وہ قصے سناتے رہے جو میں بچپن سے ہی اباجی سے سنتا آیا تھا۔خدا خدا کرکے گھرپہنچے۔چاچو کا گھر بہت ہی شاندار تھا۔اندر داخل ہوتے ہی میری نظر صوفے پر بیٹھی ایک انتہائی نفیس اور خوبصورت خاتون پر پڑی،جو مجھے دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ہوئیں۔
"ارے وجاہت بیٹا۔۔۔تم آگئے!!!کب سے اس دن کا انتظار تھا مجھے کہ تمہیں دیکھوں۔"
وہ ضرور چچی تھیں۔انتہائی خوش اخلاقی سے مجھے بیٹھنے کا کہا۔پھر ایک ایک فرد کا نام لے کر حال احوال پوچھا۔تبھی ہاتھ میں چائے اور باقی کھانے لینے کی اشیاء سے مزین ٹرے لیئے ایک لڑکی داخل ہوئی۔خاندان کے باقی افراد کی طرح وہ بھی انتہائی پرکشش شکل و صورت کی مالک تھی۔بظاہر 18،19 سال کی لگ رہی تھی۔
"السلام علیکم وجاہت بھائی۔کیسے ہیں آپ؟؟؟"
اس نے ٹرے رکھتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔
"یہ میری بیٹی ہے ماہ نما۔"
چاچو نے اس کا تعارف کروایا۔
جلد ہی میں خاندان کے ہر فرد کے ساتھ گھل مل گیا۔شام کا کھانا کھاکر میں نے سونے کی خواہش کا اظہارکیا۔جاذب مجھے اوپر کی منزل پر موجود ایک کمرے میں لے گیا۔نرم و ملائم بیڈ پر لیٹتے ہی مجھے نیند نے آلیا۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
رات کے کسی پہر پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی۔پانی پینے کے بعد میں واپس لیٹا مگر اب نیند اڑن چھو ہوچکی تھی۔لہذا میں کمرے سے منسلک ٹیرس کی طرف چلاآیا۔ٹیرس پر کھڑے ہوکر میں نے ارد گرد کا معائنہ شروع کردیا۔موسم خوشگوارتھا۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔تبھی میری نظر گھر کے پچھلے حصے پر پڑی۔۔۔۔سامنے ایک عجیب و غریب۔۔۔بلکہ خوفناک منظر تھا۔چند لمحوں کے لیئے تو جیسے میں صدمے کی حالت میں چلا گیا۔مجھے اپنی آنکھوں پریقین نہیں آرہا تھا۔
میں نے دیکھا کہ چاچو اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیئے گڑھا کھودنے میں مشغول تھے۔چچی،جاذب اور ماہ نما ایک تکون کی شکل میں بیٹھے تھے۔ان تینوں کے درمیان کوئی چیز پڑی تھی۔میں نے مزید غور کیا تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ سفید چادر میں لپٹی کوئی لاش تھی!!!!

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment