بسم اللہ الرحمن الرحیم
بابا جی کی آمد، جنگل میں آگ کی مثل تھی.
پل بھر میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا، بندھتا چلا گیا ،
بابا جی اپنی مطلوبہ نشست پہ براجمان دکھیوں کے دکھ سن رھے تھے، دعائیں دے رھے تھے، حل بتا رھے تھے اور کاغذ کے ٹکڑے بانٹ رھے تھے ..
نور صاحب بھی اپنے بھائ کو بغل میں دبوچے وھاں جا وارد ھوۓ ...
مسائل چلتے رھے، دکھ چلتے رھے، لوگ چلتے رھے، آخر یہ چلنے کا چکر نور صاحب اور انکے بھائ تک آ پہنچا !
بابا جی نے ایک نگاہ_آر پار نور صاحب اور اسکے بھائ پہ ڈالی، بات سنی اور گویا ھوۓ ! آپ کا یہ بھائ اس سال کسی بھی امتحان میں پاس نہیں ھونے والا ، جائیۓ اسے لے جائیۓ ، میں آپ کو کامیاب ھوکے دکھاؤں گا بابا جی، مجھے آپکی باتوں پہ رتی بھر یقین نہیں ھے. مجھے تو بس نور بھائ لے کے آ گۓ ورنہ میں یہاں کبھی نہ آتا !
نور صاحب کے بھائ کی یہ بات بابا جی سمیت پورے مجمعے پہ بم پھوڑنے کے مترادف تھی !
بابا جی کے جلالی چہرے پہ جلال کی سرخی اور گہری ھوتی دکھائ دی ، پورے مجمعے کو سانپ سونگھ چکا تھا لوگ دانتوں میں انگلیاں ڈالے اس نصیب جلے کے نصیبوں کو کوس رھے تھے جس نے بابا جی کی گستاخی کرکے خود بلاؤں کو آواز دی تھی ، لوگوں کے ساتھ ساتھ نور صاحب کی اپنی پیشانی پہ پسینے اور پشیمانی کے آثار واضح ھو چکے تھے! اس سے پہلے کہ وہ باباجی سے اپنے بھائ کی طرف سے معافی تلافی کرتے!
باباجی کی آواز گونج اٹھی اس گستاخ کو اب کے برس کوئ پیپرز (امتحانات) دینا تک بھی نصیب نہیں ھوگا، کامیابی تو دور کی بات ٹھہری ، لے جاؤ اسے یہاں سے ، لے جاؤ ...
نور صاحب لرزتے کانپتے اپنے بھائ کو لیۓ گھر کو چل دیۓ سارے رستے وہ اپنے بھائ کو کوستے رھے، گھر جا کے بھی گھر والوں سمیت بھائ کی خوب عزت افزائ کروائ...
سب گھر والوں کے دل میں یہ بات راسخ ھوچکی تھی کہ اب کی بار ھمارا یہ بیٹا ایف ایس سی کے پیپرز نہیں دے پاۓ گا حالاں کہ فرسٹ ائیر میں اسکے اچھے بھلے نمبر آچکے تھے، لیکن بابا جی مستجاب الدعوات تھے اور چونکہ وہ اسکے حق میں پیشن گوئ کرچکے تھے سو سب اس بارے پریشان تھے اور آخر کچھ ھوا بھی ایسے ھی، امتحانات سے ایک ماہ قبل نور صاحب کے بھائ کے ھاتھ پہ ایک پھوڑا نکل آیا اور وہ یوں پھیلا کہ بات آپریشن تک جا پہنچی، آپریشن ھوا اور ڈاکٹر نے ایک ماہ تک ھاتھ کو ھلانے جلانے سے بھی منع کر دیا، بابا جی کی بات سچ ھوتی دکھائ دے رھی تھی بلکہ سچ ھو چکی تھی...
پر نور صاحب کا بھائ ہار ماننے کو کسی طور تیار نہ تھا اس نے دوسرے ھاتھ سے لکھنے کی پریکٹس شروع کردی اور پیپرز آنے تک اسکے لکھنے کی رفتار بیمار ھاتھ سے بھی زیادہ تیز اور بہتر ھوچکی تھی ، پیپرز شروع ھوۓ تو سب کے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے پیپرز دینا شروع کر دیۓ، پیپرز ھوگۓ اور سب رزلٹ کا انتظار کرنے لگے جب رزلٹ آیا تو نور صاحب کے اسی بھائ نے ڈویژن ٹاپ کیا...
سب گھر والے حیران تھے کہ یہ کیسے ھوگیا حالانکہ باباجی کی کہی گئ سب باتیں اس سے پہلے کبھی غلط ثابت نہ ھوئ تھیں...
جبکہ نور صاحب کا بھائ جانتا تھا کہ محنت میں عظمت ھے، لیس للانسان الا ما سعی' کبھی غلط ثابت نہیں ھو سکتا...
لیکن جب ھم دوسروں کی باتوں کو حرف_آخر سمجھ بیٹھتے ھیں تو اللہ رب العزت بھی ھمیں گمان کے موافق صلہ عطا فرما دیتے ھیں ...
اوپر بیان کردہ واقعہ فقط قصہ کہانی نہیں بلکہ ایک سچا اور حقیقت پہ مبنی واقعہ ھے ...
بزرگوں کی عزت کریں ادب کریں مگر ان کے کہے کو حرف_آخر سمجھ کے محنت اور توکل سے منہ مت موڑ اٹھیں، وگرنہ آپکے رستے میں بھی پھوڑے آئیں گے، دیواریں حائل ھوںگی، بابے حائل ھوں گے ھاں بابے حائل ھوں گے اور آپ نہ تین کے رھیں گے نہ تیرہ کے ...
اللہ ھمیں محنت اور توکل کی سمجھ عطا فرماۓ عمل عطا فرماۓ آمین...
Pages
▼
No comments:
Post a Comment