Pages

Thursday, 30 May 2019

افسانہ: پھُپھُو کا بیٹا


مصنفہ: صباحت رفیق

ڈوبتے سورج کی ہلکی ہلکی نارنجی اور عنابی کرنیں سمندر کے پانی میں منعکس ہو کے خوبصورت سماں باندھ رہی تھیں ۔ اور اس سماں نے اُسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ اُسے ڈھلتے سورج کی ملنگ سی شاموں سے عشق تھا ۔ ڈھلتے سورج کے رنگ اُسے کسی اور ہی خوبصورت دُنیا میں لے جاتے تھے۔ شادی کے بعد کوئی ایک شام بھی ایسی نہیں گُزری ہو گی جو اُس نے آسماں تلے اپنے محبوب شوہر کے کندھے پہ سر ٹکا کے نہ گُزاری ہو۔اس وقت بھی وہ اپنی نظروں کے سامنے ساحل پہ کھیلتے اپنے دونوں بچوں کو دیکھ کے خوش ہو رہی تھی۔اُس کاچار سالہ بیٹا اشعر زوہیب اور تین سالہ بیٹی بسمہ زوہیب اُس کی کُل کائنات تھے۔اُس نے مُسکراتے ہوئے اپنے ہمسفر کی طرف دیکھا۔وہ اپنے بزنس کے حوالے سے ایک ضروری کال سُن رہے تھے۔ اُسے اپنی طرف دیکھتا پا کے وہ بھی مُسکرا دئیے۔ آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے اُس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دوبارہ اپنا سر اپنے ہمسفر کے بازو پہ ٹکا تے ہوئے سوچا۔ بے شک وہ ایک خوشگوار زندگی گُزار رہی ہے۔ خوابوں جیسی زندگی۔ محبت کرنے والا شوہر، پیارے پیارے بچے ، اپنا گھر، شوہر کی اچھی جاب غرض سب کچھ ہی تو تھا اُس کے پاس۔اُس نے اس خیال کے ساتھ ہی زیرِ لب ’الحمدُ اللہ ‘ کہا۔ اُسی لمحے کچھ یادوں نے اُس کے ذہن پہ دستک دی۔ اُن یادوں کے لیے اپنے ذہن کا دروازہ کھولنے سے پہلے ہی اُس کے لبوں پہ مُسکراہٹ پھیل گئی۔
شرمندہ شرمندہ سی مُسکراہٹ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس کے لبوں پہ پھیلنے والی مُسکراہٹ شرمندہ شرمندہ کیوں ہے؟
نہیں جانتے نا؟ ارے آپ لوگ جانو گے بھی کیسے کہ میں نے تو ابھی بتایا ہی نہیں ۔چلو آؤ بتاتی ہوں بھئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بہت مزے سے بیڈ پہ اُلٹی لیٹ کے کانوں میں ہینڈ ز فری لگائے ’جانان‘ فلم دیکھ رہی تھی ۔حالانکہ اس طرح اُلٹا لیٹنے پہ اُسے امی سے کئی صلوٰتیں اور کئی جوتے گفٹ کے طور پر مل چُکے تھے لیکن مجال ہے جو پھر بھی اُسے اثر ہو گیا ہو۔ ہاتھ میں لیز کا بڑا پیکٹ پکڑا ہوا تھا ۔ جس سے گاہے بگاہے چپس کھا رہی تھی۔ علینہ نے اُس کے پاس آ کے کچھ کہا۔ لیکن وہ متوجہ نہیں ہوئی تھی۔ اوپر سے الامان وہ آواز کا والیوم بھی اتنا تیز رکھتی تھی متوجہ بھی کیسے ہوتی۔آخر کار علینہ نے اُس کے کانوں سے ہینڈ ز فری کھینچ کے اونچی آواز میں کہا۔
’تم یہاں ’جانان‘ مووی دیکھتی رہنا اور چپس کھاتی رہنا وہاں امی ابو سے تمہارا رشتہ پھُپھو کے بیٹے سے طے کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں ۔‘
یہ بات کرنٹ کی طرح اُسے لگی تھی ۔اور وہ بالکل ایسے ہی اُچھلی تھی جیسے کسی انسان کو کرنٹ لگ جائے تو وہ اُچھلتا ہے۔لیز کا پیکٹ اُس کے ہاتھوں سے دور جا گرا۔ جسے اُٹھا کر علینہ صوفے پر بیٹھ کے مزے سے کھانے لگی۔اُس نے علینہ کے سامنے جا کے بے یقینی سے اپنا ہاتھ اپنے دل پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’کیا کہا میرا رشتہ ۔۔۔۔پھُپھو کے بیٹے سے؟‘
’جی ہاں ۔۔۔! بالکل بجا سُنا آپ نے۔ مس علیشہ فاروق کا رشتہ پھُپھو کے بیٹے سے۔‘
’زبان بند کرو اپنی۔ میں اپنے جیتے جی تو ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دوں گی۔‘
علینہ نے مُسکرا کے اُسے چراتے ہوئے کہا۔
’چلو دیکھتے ہیں ۔‘
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہل کے ابو کے آفس جانے کا انتظار کرنے لگی۔اُس نے وقت دیکھا نو بج گئے تھے۔ ابو نو بجے سے پہلے چلے جاتے تھے آج نو بجے بھی گھر میں موجود تھے۔آخر اُس سے جب رہا نہ گیا تو اُس نے علینہ سے پوچھ ہی لیا۔
’یہ آج ابو ابھی تک گھر پر کیوں ہیں ؟ اُنہوں نے آفس نہیں جانا کیا۔‘
’کیا پتہ نہ جانا ہو۔ اُن کا ارادہ آج ہی پھُپھو کی طرف جا کے تمہارا رشتہ پھُپھو کے بیٹے سے پکا کرنے کا ہو۔‘
’میں تمہیں کہہ رہی ہوں اپنی زبان بند کر لو۔ ورنہ میرے ہاتھوں آج تمہارا قتل ضرور ہو جائے گا۔‘
’لو میری زبان تو بند ہی تھی ۔ تم نے ہی سوال پوچھ کے کھلوائی ہے۔‘
اس سے پہلے کہ وہ اُسے کوئی جواب دیتی اُسے موٹر سائیکل سٹارٹ ہونے اور پھر دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو وہ فوراً کمرے سے باہر بھاگی۔
’امی۔۔۔ امی۔۔۔‘
دروازے کی کُنڈی لگا کے اندر کی طرف آتے ہوئے امی نے اُسے دیکھ کے کہا۔
’آئے ۔۔ ہائے۔۔۔ کیا مصیبت پڑ گئی ہے۔ کیوں چلا رہی ہو؟‘
امی اپنے تخت پہ بیٹھ گئیں ۔ اور پاس پڑا ڈائجسٹ پڑھنے کے لیے ابھی اُٹھایا ہی تھا کہ اُس نے اُن کے ہاتھوں سے اُچک لیا۔
’یہ کیا جاہلوں والی حرکت ہے۔ ادھر دو مجھے۔‘
’نہیں دوں گی پہلے مجھے بتائیں آپ ابو سے کیا باتیں کر رہی تھیں ؟‘
’علینہ کے پیٹ میں کوئی بات رہتی تو ہے نہیں ۔ جا کے بتا تو دیا ہو گا تُجھے۔ تو اب یوں مجھ سے کیا پوچھ رہی ہو؟‘
اُس نے امی کے ساتھ بیٹھ کے بہت پیار سے پوچھا۔
’امی ویسے یہ نیک خیال آیا کس کو تھا؟‘
’تمہاری پھُپھو کو۔ ‘
جواب سُن کے اُس کے ذہن میں ہنستی ہوئی پھُپھُو کا سراپا لہرایاجو اُس سے کہہ رہی تھیں علیشبہ شادی تو بیٹا تیری میرے بیٹے سے ہی ہو گی چاہے میرے خلاف تُو فیس بُک پر کتنے ہی سٹیٹس اپ لوڈ کر لے۔اُس نے جھرجھری لیتے ہوئے امی کی طرف دیکھا جو اُس سے کہہ رہی تھیں ۔
’تیری پھُپھو نے رات کو فون کر کے کہا تھا کہ زوہیب کے لیے علیشبہ کا ہاتھ دے دو۔ میں نے کہا آپا اُن کے ابو سے بات کر کے بتاؤں گی۔‘
’تو پھر ابو نے کیا کہا؟‘
’اُنہیں تو کوئی اعتراض نہیں ۔‘
’تو کیا یہ بات آپ نے پھُپھو کو بتا دی؟‘
’نہیں ۔ میں نے سوچا پہلے جو ناول شروع کیا ہے وہ مکمل کر لوں ۔ پھر تمہاری پھُپھو کو فون کر کے یہ خوشخبری سُناؤں گی۔‘
وہ جھٹکے سے امی کے تخت سے اُٹھتے ہوئے بولی۔
’نہ امی نہ۔ علیشبہ فاروق مرنا گوارا کر لے گی لیکن پھُپھو کے بیٹے سے شادی کرنا نہیں ۔اور یہ خوشخبری نہیں میرے لیے گویا موت کی خبر ہے۔
امی اگر آپ نے پھُپھو کو فون کر کے اپنی رضامندی دی ناتو پھر دیکھیے گا میں کیا کرتی ہوں ۔‘
’کیا کرو گی تم؟‘
’آپ دیکھنا میں خود کشی کر لوں گی لیکن پھُپھو کے بیٹے سے شادی نہیں کروں گی۔ ‘
’آخر کیا خرابی ہے زوہیب میں ؟‘
’امی خرابی زوہیب میں نہیں پھُپھو میں ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کیسے فیس بُک پر پھُپھو بدنام ہوئی ہے ۔ تو آپ اُسی پھُپھو کے بیٹے سے میری شادی کرنا چاہتی ہیں ؟ ‘
اگلے ہی لمحے امی کا جوتا ٹھاہ کر کے اُسے لگا۔
’نا مراد نہ ہو کہیں کی۔ یہ بات تمہارا باپ سُن لیتا نا تو دیکھتی تم کیا حشر کرتا تمہارا۔ تمہارے باپ کی بہن ہے۔ اتنی محبت کرتی ہے تم سے۔ اور تم اُسے بدنام کہہ رہی ہو۔‘
کمرے سے باہر آتی علینہ نے یہ منظر دیکھا تو وہیں پیٹ پہ ہاتھ رکھ کے دوہری ہونے لگی۔اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم سے اُس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔
’آپ کو کیا پتہ محبت نہیں دکھاوا ہے دکھاوا۔۔۔کھُل گئی نا اُن کی محبت ۔ اپنے مطلب کے لیے دکھاوا کر رہی تھیں محبت کا۔دیکھنارشتہ لے کے کیسے بدلتی ہیں ۔ وہی زبان جو مجھ سے بات کرتے پھول برساتی ہے شادی کے بعد دیکھنا کیسے انگارے برساتی۔‘
امی نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔ اُنہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ اچانک اسے ہوا کیا ہے یہ پھُپھو کے اتنا خلاف کیوں ہو گئی ہے۔علینہ اُس کے ہاتھ سے ڈائجسٹ اُچک کے امی کے ساتھ اُن کے تخت پہ بیٹھ گئی۔ پھر امی کی طرف دیکھ کے بولی۔
’امی آپ پریشان نہ ہوں ۔ یہ اچانک پھُپُھو کے خلاف نہیں ہوئی ۔ یہ مہم تو یہ فیس بُک پر بہت دیر سے چلا رہی ہے۔‘
اُس نے علینہ کی طرف اُنگلی کر کے گویا اُسے وارننگ دی۔
’علینے تم اپنی زبان بند ہی رکھو۔ ہزار دفعہ میں تمہیں کہہ چُکی ہوں خبردار میرے کسی کام میں ٹانگ مت اڑایا کرو۔‘
جبکہ امی نے علینہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے پوچھا۔
’کونسی مہم چلا رہی ہے یہ؟‘
’کوئی نہیں امی۔ یہ لیں آپ اپنا ناول مکمل کریں ۔ اور پھر پھُپُھو کو فون کر کے وہ سب باتیں بتا دیجئیے گا جو اس نے پھُپھو کے بارے میں کہی ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ پھُپھُو اپنے بارے میں اس کے نیک ارشادات سُن کے خود ہی انکار کر دیں گی۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ غصے سے سارا دن بستر میں منہ چھُپائے لیٹی رہی۔دوپہر سے رات ہو گئی ۔ نہ وہ دوپہر کے کھانے کے لیے اُٹھی نہ ہی اب رات کے کھانے کے لیے۔کھانا شروع کرنے سے پہلے ابو نے اُسے موجود نہ پا کر پوچھا۔
’یہ علیشبہ کدھر ہے؟‘
’ابو میرے خیال سے اُس کے سر میں درد ہے۔ اس لیے سو رہی ہے۔ ‘
’تو بیٹے اُسے اُٹھا ؤ وہ کچھ کھا کے سر درد کی کوئی گولی لے لے۔ایسے ہی لیٹے رہنے سے تو آرام نہیں آئے گا نا۔‘
’جی ابو میں کھانا کھا کے اُس کے لیے کمرے میں ہی لے جاؤں گی۔‘
امی خاموش تماشائی بنے بیٹھی رہیں ۔وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ کون سے سر میں کون سا درد ہو رہا ہے۔کھانا کھانے کے بعد علینہ نے اُس کے لیے ٹرے تیار کی اور لے کے کمرے میں آ گئی۔جب اُس کے چہرے سے زبردستی اُس نے چادر ہٹائی تو دیکھا رو رو کے اُس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ۔وہ بھی ٹانگیں اوپر کر کے اُس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
’ہاہ علیشبہ تم بھی پاگل ہوایویں فضول سی بات پہ رو رو کے اپنی آنکھیں خراب کر لی ہیں تم نے۔‘
علینہ کی بات پہ اُس نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’اتنی سی بات پہ؟ اگر میری جگہ تمہارا رشتہ ہو رہا ہوتا پھُپھُو کے بیٹے سے تو پھر میں تم سے پوچھتی۔‘
’ہاں اگر زیبی بھائی تمہاری جگہ مجھ سے محبت کرتے ہوتے تو میں تو اب بھی امی کو کہہ دیتی کہ میرا کر دیں ۔‘
لا علمی میں اُس نے راز افشاں کر دیا تھا۔ جب احساس ہوا تو فوراً اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔جبکہ علیشبہ ہونق بنے اُسے دیکھنے لگی۔
’کک کیا مطلب؟‘
’کچھ بھی نہیں ۔‘
’تو پھر تم نے یہ بکواس کیوں کی؟‘
’اگر تم نے اپنی فیس بُک کی دُنیا سے نکل کر اور پھُپھو کے خلاف پوسٹیں لگانے کے علاوہ کبھی اردگرد نظر گھمائی ہوتی تو آج تمہیں مجھ سے یہ سوال پوچھنے کی نوبت نہ آتی۔‘
’تو تم نے سیدھی طرح نہیں بتانا؟‘
’نہیں ۔ پہلے منہ ہاتھ دھو کے آؤ اور یہ کھانا کھاؤ۔ پھر بتاؤں گی۔‘
’ارے رہنے دو تم ۔ نہیں مجھے جاننا کچھ بھی۔ جانتی ہوں میں یہ سارے ہتھکنڈے۔ مجھے یہ محبت کا لالی پاپ دے کے تم شادی کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔اور اگر وہ سچ میں بھی محبت کرتا ہوتا تو پھر بھی میں پھُپھُو کے بیٹے سے شادی کے لیے کبھی رضامند نہ ہوتی۔‘
وہ دوبارہ لمبی تان کے لیٹ گئی اور آنسو بہانے لگی۔
’تم بے وقوفی کر رہی ہو علیشبہ۔ زیبی بھائی کی نہ صرف شاندار پرسنلٹی ہے بلکہ شاندار جاب بھی ہے۔ خاندان کی سبھی لڑکیاں اُن پہ مرتی ہیں۔ لیکن ایک تمہاری ہی عقل گھاس چڑنے گئی ہو ئی ہے ۔ تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ ہو گا کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہے ہیں ۔ کمپنی اُن کی اچھی پرفارمینس دیکھتے ہوئے اُنہیں اپنی اٹلی والی برانچ میں بھیجنا چاہ رہی ہے۔ اس لیے پھُپھُو چاہ رہی ہیں کہ اُن کی شادی کر دی جائے۔ تا کہ وہ اپنی دولہن کو بھی ساتھ لے کے جائیں ۔ اگر فیس بُک کی باتیں سچ ہوتیں تو پھر پھُپھُو اُن کی دولہن کو ادھر ہی رکھتیں تا کہ اُن کے گھر کا کام کاج کر سکے۔ لیکن اُنہوں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے زیبی بھائی سے کہ اگر جانا ہے تو پھر اپنی دولہن کو بھی ساتھ لے کے جانا ہے۔‘
علینہ کی یہ باتیں سُننے کے باوجود اُس کے رونے میں کوئی کمی نہ آئی ۔علینہ نے جب دیکھا کہ اُسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ اُسے اُس کے حال پہ چھوڑ کے ٹرے اُٹھا کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ امی نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا۔
’کیا ہوا نہیں کھایا پھر اُس نے کھانا۔‘
اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’کیا کروں میں اس لڑکی کا۔ اتنی چاہت سے تمہارے پھُپھُو نے رشتہ مانگا ہے۔ اُس نے تو مجھے پہلے بھی کتنی دفعہ اشاروں کنایوں میں کہا تھا۔ لیکن اب جب زوہیب نے اس کا نام لیا تو پھر اُس نے کھُل کے بات کی ہے۔لیکن یہ کم عقل لڑکی نا شکری کر رہی ہے۔ ‘
’رہنے دیں امی۔ آپ نہ پریشان ہوں۔ یہ بس وقتی جذباتیت ہے اس کی۔ فیس بُک پہ پھُپُھو کے خلاف پوسٹ دیکھ دیکھ کے اسے اپنی پھُپھُو میں بھی وہیں خامیاں نظر آنے لگ گئیں ۔ اسے پھرپھُپھُو کی مثبت بات بھی منفی لگنے لگی۔اور اس نے بھی پھر پھُپھُو کے خلاف ایسے ہی پوسٹ کرنا شروع کر دیا۔ایویں بس حقیقت سے نظریں چُرا کے فیس بُک کی فیک دُنیا کی فیک باتوں کو سچ سمجھ رہی ہے۔‘
’اب اس کا کوئی حل ہے ؟‘
’جی ہاں ہے لیکن نہ آپ کے پاس نہ میرے پاس۔‘
’تو پھر کس کے پاس؟‘
’زیبی بھائی کے۔‘
’ارے اُس بچے کو کیوں اس مصیبت میں گھسیٹ رہی ہو۔‘
’امی اُنہوں نے خود ہی اس مصیبت میں سر دیا ہے اب بھُگتیں بھی اس مہا رانی کو۔‘
’اگر وہ پھر بھی نہ مانی تو۔۔۔؟‘
’مانے یا نہ مانے اس کی فکر فی الحال آپ چھوڑ دیں ۔ یہ اب ہماری نہیں زیبی بھائی کی فکر ہے۔ ‘
اُس نے اپنی بات کے آخر میں امی کو آنکھ مار دی۔ بس وہیں امی نے اُسے اپنا ہاتھ مار دیا۔ہاتھ سے اپنا بازو سہلاتے ہوئی بولی۔
’اوئی ماں ۔ ہاتھ ہے آپ کا یا ہتھوڑا۔‘
’ہزار دفعہ منع کیا ہے کہ یہ بے غیرتوں والی حرکتیں نہ کیا کرو۔لیکن مجال ہے جو کسی کو میری بات کا ذرا سا بھی اثر ہو جائے۔‘
’کیا امی اب تو ہماری شادی کی عمریں ہو گئی ہیں ۔ پھر بھی آپ اپنے ہاتھ اور جوتے ہم پہ چلانے سے باز نہیں آئیں ۔ اگر کوئی دیکھ لے تو کیا سوچے۔‘
’یہ تو تم لوگوں کو ایسی حرکتیں کرنے سے پہلے سوچنا چاہئیے۔‘
وہ کچن سے نکلنے لگی تو امی نے اُسے کہا۔
’بات سُنو ۔ جا کہاں رہی ہو؟‘
’کیوں آپ نے ابھی اور مارنا ہے؟‘
’انہیں حرکتوں کی وجہ سے تو تم دونوں میرا ہاتھ اُٹھواتی ہو۔ جو پوچھا جائے انسانوں کی طرح صرف اُس کا جواب دیا کرو۔ اگلے گھروں میں جانا ہے تم لوگوں نے۔ سوال کے بدلے میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں ۔‘
’زیبی بھائی کو فون کرنے جا رہی تھی۔‘
’وہ بعد میں کر لینا ۔پہلے میرے اور اپنے ابو کے لیے چائے بنا کے کمرے میں دے جاؤ۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہ پہر کا وقت تھا جب دروازہ پہ دستک کی آواز سُن کے امی کے ساتھ سبزی بناتی علینہ اُٹھتے ہوئے دروازہ کی طرف بڑھ گئی۔کی ہول سے دیکھا تو سامنے زیبی بھائی کھڑے تھے۔ اُس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔اُنہوں نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
’السلامُ علیکم ۔‘
اُس نے اور سامنے اپنے تخت پہ بیٹھیں امی نے ایک ساتھ اُس کے سلام کا جواب دیا۔وہ امی کے تخت کی طرف جاتے علینہ کی طرف دیکھ کے بولے۔
’کیسی ہو گُڑیا؟‘
’میں تو الحمدُ اللہ بالکل ٹھیک ہوں بھائی۔ اس لیے آپ کو میرا نہیں کسی اور کا حال پوچھنے کی ضرورت ہے۔‘
اُس کی بات پہ مُسکراتے ہوئے اُنہوں نے اپنا سر امی کے آگے کر دیا۔امی نے پیار دیتے ہوئے کہا۔
’جیتے رہو۔ لمبی عمر پاؤ۔ سدا سُکھی رہو۔‘
دُعائیں لینے کے بعد ابھی اُنہوں نے سر اُٹھایا ہی تھا کہ علینہ بولی۔
’وہ اوپر ہے۔‘
امی نے علینہ کو ٹوکا۔
’ارے اُسے بیٹھ کے سانس تو لینے دو۔‘
’نہیں مامی اب ایک دفعہ ہی سانس لوں گا۔ ‘
اُس کی بات پہ امی اور علینہ دونوں مُسکرانے لگیں ۔علینہ اُس کے ساتھ ساتھ قدم اُٹھاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگی۔
’ویسے زیبی بھائی مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ میری ایک ہی کال پہ یوں اُس کے لیے بھاگے آئیں گے۔‘
’جب دل کا معاملہ ہو تو بھاگنا تو پڑتا ہی ہے۔‘
’واہ واہ۔۔ کیا جواب دیا ہے۔ ‘
’نوازش۔اُس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں ؟‘
’نہ جی۔ کل سے آج تک کچھ نہیں کھایا۔ بس رو رو کے اپنی آنکھوں کا ستیا ناس کر لیا ہے۔ میری مانیں تو اُس کے چہرے کی طرف دیکھنے سے گُریز کیجئیے گا۔ یہ نہ ہو اُس کی یہ والی شکل دیکھتے ہی آپ اپنا شادی کا ارادہ بدل لیں ۔‘
’مہربانی کہ پہلے ہی بتا دیا ہے اب جاؤ اُس کے کھانے کے لیے کچھ تیار کرو۔ میں اُسے لے کے آتا ہوں ۔‘
’ٹھیک ہے جائیے ۔ اللہ آپ کو عشق کے امتحان میں کامیاب کریں ۔‘
’آمین۔‘
وہ سیڑھیاں پھلانگ کے اوپر آ گیا۔ وہ سامنے فرش پہ ہی دونوں ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے دیوار سے سر ٹکائے ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ اُسے پہ نظر پڑتے ہی اُس نے غصے سے اپنی نظریں پھیر لیں ۔وہ بھی اُس کے ساتھ جا کے اُسی کے انداز میں بیٹھ گیا۔پھر دھیرے سے اُسے پُکارا۔
’علیشبے۔۔۔؟‘
اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ غصے سے بولا۔
’ادھر دیکھو میری طرف۔ ‘
غصے نے کام کر دکھایا۔ اور وہ اُس کی طرف دیکھنے لگی۔
’دیکھو علیشبہ تمہاری مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مجھے بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟ کیا تمہیں لگتا ہے میں تمہیں خوش نہیں رکھ پاؤں گا؟ یا میں تمہارے معیار کے مطابق خوبصورت نہیں ہوں ؟یا تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟‘
’نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ۔‘
رونے سے نہ صرف اُس کی آنکھیں خراب ہوئی تھیں ۔ بلکہ آواز بھی خراب ہو گئی تھی۔
’ایسی بات نہیں تو پھر مجھ سے رشتے کی بات سُن کے اتنا روئی کیوں ہو کہ آواز تک خراب ہو گئی ہے؟‘
’ وہ میں ۔۔۔یہ شادی نہیں کرنا چاہتی اس لیے۔‘
’تو سیدھی طرح پھر مجھ سے کہہ دو کہ تم مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتی۔‘
’نہیں ایسی بات نہیں ہے۔‘
’رہنے دو علیشبہ پتہ چل گیا ہے مجھے یہی بات ہے۔تم بے فکر رہو میں امی کو منع کر دیتا ہوں ۔‘
یہ کہہ کے وہ اُٹھ کے جانے لگا لیکن بے اختیار ہی علیشبہ نے اُٹھتے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔اپنے ہونٹوں پہ مچلنے کے لیے بے تاب ہوتی مُسکراہٹ کو اُس نے روکا۔ سیریس ہوتے ہوئے پلٹ کے اُس کی طرف دیکھا۔
’اب کیا ہے؟‘
’آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔‘
یہ کہتے ہوئے آنسو پھر اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
’یہ رونا بند کرو۔ کہا تو ہے میں نے کہ تمہاری مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔فی الحال تم نیچے آؤ۔ اپنے کمرے میں جا کے پانچ منٹ میں اپنا حُلیہ ٹھیک کرو۔ اُس کے بعد انسانوں کی طرح کھانا کھاؤ۔ ‘
وہ کچھ نہ بولی ۔ تووہ اُس کا وہی ہاتھ پکڑ کے نیچے لے گیا۔ امی اور علینہ اُسے دیکھ کے ہنسنے لگیں ۔ اُس کی آنکھوں میں پھر پانی بھر آیا۔ جسے دیکھتے ہی زوہیب نے غصے سے کہا۔
’تمہیں سُنائی نہیں دیا جو میں نے کہا ہے اب مجھے تم روتی ہوئی نظر نہ آؤ۔ اور جاؤ وہ کرو جو میں نے کہا ہے۔‘
وہ اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔اور وہ مُسکراتے ہوئے تخت کے سامنے رکھی کُرسی پہ جا کے بیٹھ گیا۔
’واہ بھائی کیا غصہ ہے آپ کا۔ میں نے تو آج پہلی دفعہ آپ کے غصے سے بڑے بڑے لوگوں کو ڈرتے دیکھا ہے۔‘
’باتیں بعد میں کر لینا ۔ پہلے اُسے کچھ پینے کے لیے تو لا کے دو۔‘
وہ کچن سے جا کے شیک کا جگ اور دو گلاس ٹرے میں رکھ کے لائی۔ اور اُسے میز پہ رکھ کے اُس کے لیے گلاس میں انڈیلتے ہوئے بولی۔
’زیبی بھائی چائے تو آپ پیتے نہیں ۔ اس لیے میں نے آپ کے لیے سپیشل شیک بنایا ہے۔‘
’بہت شُکریہ۔اب جا کے اُسے دو کچھ کھانے کو۔ ‘
’ٹھیک ہے۔ جا رہی ہوں ۔‘
اُس کے جانے کے بعد امی نے اُس سے پوچھا۔
’کیا کہتی ہے؟ بد تمیزی تو نہیں کی۔‘
’نہیں مامی۔ وہ کیوں بدتمیزی کرے گی۔‘
’تو پھر کاہے کو ہنگامہ کر رہی ہے؟‘
’ایویں فضول خرافات پالی ہوئی ہیں اس نے اپنے دماغ میں ۔ اور کوئی وجہ نہیں ۔ ‘
’ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اس لڑکی نے اپنا اوڑھنا بچھونا ہی فیس بُک کو بنایا ہوا ۔ فیس بُک پہ جو لکھا ہے وہ گویا سو ٹکا سچ ہے۔ ارے موت پڑے ان لوگوں کوجو اپنی سگی پھُپھُو کے خلاف الا بلا پوسٹ کرتے رہتے ہیں ۔‘
اُ ن کی اس بات پہ اُس کے چہرے پہ مُسکراہٹ دور گئی۔ جسے چھُپانے کے لیے اُس نے گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔ اب وہ اُن کو کیا بتاتا کہ اُن لوگوں میں اُن کی بیٹی بھی شامل ہے۔ مانا کہ وہ اُس سے کئی سالوں سے غافل ہے لیکن وہ تو نہیں نا۔
’مامی میں اُسے دیکھ لوں اُس نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں ۔‘
’ہاں جاؤ بیٹا دیکھ لو۔ نخرے تو اُس میں ویسے بھی لاکھوں ہیں ۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُسے اپنے کمرے میں قدم رکھتے دیکھ کے اُس نے فوراً ٹرے سے سبزی والے پلاؤ کی پلیٹ اُٹھا لی۔علینہ نے حیران ہوتے ہوئے اُسے دیکھا۔ وہ کب سے اُس کے ترلے کر رہی تھی لیکن اُس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا اب یوں اچانک کھانے لگ گئی تھی۔ زوہیب پہ نظر پڑتے ہی اُسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ وہ بیڈ سے اُٹھتے ہوئے بولی۔
’شُکر ہے بھائی آپ آئے ہیں ۔ میری تو بس ہو گئی تھی اس کے ترلے کر کر کے۔میں رات کے لیے کھانا بنا لوں ۔ ‘
اُس کے جاتے ہی وہ صوفے پہ بیٹھ گیا۔ صوفے کی پُشت پہ سر ٹکاتے وہ اُسے بغور دیکھنے لگا۔
کپڑے بدل کے بکھرے بالوں کو پونی میں مقید کر لیا گیا تھا ۔ چہرہ دھونے سے وہ کچھ کچھ اپنی اصلی حالت میں آ چُکا تھا۔ کانچ جیسی آنکھوں پہ پلکوں کی چادر بار بار گر اُٹھ رہی تھی۔دُنیا بھر کی ناراضگی گویا اُس نے اپنے چہرے پہ سجھائی ہوئی تھی۔
آدھی پلیٹ کھانے کے بعد وہ پلیٹ رکھنے لگی تو اُس نے ٹوکا۔
’اونہوں ۔ ختم کرو اسے۔‘
چارو نا چار اُسے ختم کرنا ہی پڑا۔پلیٹ واپس ٹرے میں رکھتے ہوئے اُس نے یوں اُس کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو اب میرے لیے کیا حُکم ہے۔
’اچھا تو اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی کہ میں غلط سمجھ رہا ہوں۔‘
’جی۔‘
’تو پھر جو ٹھیک ہے وہ سمجھا دو۔‘
وہ کچھ نہ بولی تو وہ خود ہی اُسے سمجھانے لگا۔
’علیشبے تم کیا سمجھتی ہو کہ امی کی محبت تمہارے لیے دکھاوا ہے؟ تم لوگ اُن کے بھائی کی اولاد ہو۔ عورتوں کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ اپنے بھائی کی اولادسے محبت ہوتی ہے۔ یہ تو جان بوجھ کے کچھ لوگوں نے پھُپھُو لفظ کو فیس بُک پہ یوں بدنام کر دیا ہے کہ تمہاری طرح اور بھی نجانے کتنی لڑکیاں میرے خیال سے اسی وجہ سے خاندان میں رشتے سے انکار کرتی ہوں گی۔ خاص طور پر پھُپھُو کے بیٹے سے۔ چاہے وہ میری طرح کتنا ہی ہینڈسم کیوں نہ ہو۔‘
اُس کی آخری بات پر علیشبہ نے پلکوں کی چادر اُٹھا کے یوں اُس کی طرف دیکھا کہ وہ دونوں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے بولا۔
’اچھا بابا نہیں ہوں ہینڈسم۔‘
پھر مُسکراتے ہوئے دوبارہ بات شروع کی۔
’یاد کرو علیشبے چھوٹے ہوتے جب تم میری جھوٹی شکایتیں امی کو لگایا کرتی تھی۔ امی یہ بھی جانتی ہوتی تھیں کہ تم جھوٹ بول رہی ہو لیکن پھر بھی وہ تمہاری بات کا یقین کرتے ہوئے مجھے دو لگا دیا کرتی تھیں ۔اور وہ دو تم مجھے اکثر لگواتی تھی۔اسی بات سے اندازہ کر لو تم اپنے لیے امی کی محبت کا۔‘
اُس کی بات پہ اُس کی نظروں میں وہ سارے لمحے گھوم گئے۔اور اُس کے لبوں پہ نہ چاہنے کے باوجود بھی شرمندہ شرمندہ سی مُسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے کن اکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا ۔ اُس کی اس حرکت پر زوہیب کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔
’تم جانتی ہو میرا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا ایک سال اٹلی میں جاب کر نے کے بعد دوبارہ ادھر کی برانچ میں شفٹ کروا لوں گا۔تب ہی شادی کروں گا۔ لیکن اٹلی کا نام سُنتے ہی امی کو تمہاری وہ بات یاد آ گئی جب ایک دفعہ تم نے اُنہیں شہرِ روم کی تصویریں دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ پھُپھُو میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسی جگہ پہ جا کے رہوں ۔ بس پھر امی نے کہا شادی کر کے تمہیں بھی ساتھ لے کے جاؤں ۔‘
اُس کی بات سے اُسے وہ لمحہ بھی یاد آ گیا جب اُس نے پھُپھُو کو ایسا کہا تھا۔اُسے ڈھیروں شرمندگی نے آ گھیرا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے کیوں کہ جس وقت اُس نے یہ بات پھُپھُو کو کہی تھی تب وہ اور پھُپھُو وہاں اکیلی ہی تھیں ۔
وہ جان بوجھ کے بولا۔
’چلو ٹھیک ہے میں امی کو بتا دیتا ہوں کہ رہنے دیں ماموں سے تمہارا ہاتھ مانگنے نہ آئیں ۔ کیوں کہ تم راضی نہیں ہو۔ مجھے اُمید ہے تمہاری محبت میں وہ تمہاری یہ بات بھی ضرور مان لیں گے۔‘
اُس نے فوراً کہا۔
’نہیں ۔‘
انجان بنتے ہوئے پوچھا ۔
’کیا نہیں ؟‘
’آپ پھُپھُو کو ایسا نہیں کہیں گے؟‘
’کیوں تمہیں ہی تو اعتراض ہے۔‘
’نہیں ہے۔‘
’کیا کہا؟ پھر کہنا سُنائی نہیں دیا۔‘
’ایک شرط پہ کہوں گی۔‘
’کون سی شرط؟‘
’خبر دار آئیندہ مجھ سے کبھی غصے سے بات کی۔‘
اُس کی بات پہ ہنستے ہوئے وہ صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولا۔
’اور کسی سے تو ڈرتی نہیں ہو۔ ایک میرے غصے سے ہی تو ڈرتی ہو۔ اس لیے تم سے کوئی بات منوانے کے لیے مجھے آ گے کیا جاتا ہے۔ سو۔۔۔ سوری میں ایسا کوئی وعدہ نہیں کروں گا۔ ‘
اُس کے اچانک یوں پینترا بدلنے پر کُشن اُٹھا کے اُس کی طرف پھینکا۔ جسے اُس نے بہت خوبصورتی سے کیچ کر لیا۔تبھی علینہ اندر داخل ہوئی اور زوہیب کو ہنستے ہوئے دیکھ کے کہنے لگی۔
’کوئی حال نہیں میں انتظار کر رہی ہوں کہ کب خوشی کی خبر سُننے کو ملی تو ہم شہنائیاں بجوائیں ۔ لیکن ادھر ہی علیشبہ مہارانی کے پھُپھُو کے بیٹے سے شادی کے لیے راضی ہوجانے کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں ۔‘
’یہ تو چاہ رہی تھی میں اس کے پاس بیٹھ کے باتیں کرتا رہوں ۔ لیکن مجھے میری گُڑیا کو خوشخبری سُنانے کا خیال تھا اس لیے ہی اُٹھ گیا۔‘
علیشبہ نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا۔
’ایویں جھوٹ میں کب ایسا چاہ رہی تھی۔‘
’اچھا قسم اُٹھا کے کہو کہ نہیں ایسا چاہ رہی تھی۔‘
’جب میں ایسا چاہ ہی نہیں رہی تھی تو میں کیوں قسم اُٹھاؤں؟‘
’اچھا نہ اُٹھاؤ۔ یہ بتاؤ کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟‘
’ظاہر ہے علینہ نے بتا دیا ہو گا سب۔ ‘
وہ صاف مُکر گیا۔
’جی نہیں ‘
’تو پھر؟‘
’آ ج مجھے ایک لڑکی کا میسیج آیا۔‘
’اچھا کیا کہہ رہی تھی؟‘
’وہ کہہ رہی تھی کہ کیا آپ علیشبہ کی پھُپھُو کے بیٹے ہیں ؟‘
اُس نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’تو پھر آپ نے کیا کہا؟‘
’میں نے کہا ہاں ۔ تو کہنے لگی خیریت ہے دو دن ہو گئے ہیں علیشبہ نے پھُپھُو کے خلاف کوئی پوسٹ نہیں کی۔ اُس کی بات سے میں بہت حیران ہوا۔ مجھے تو لگا اب تک پھُپھُو کے خلاف ایک محاذ کھُل چُکا ہو گا۔ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو چُکا ہو گا۔ جس کی شعلہ باری ہمارے گھر
تک آ رہی ہو گی۔ لیکن جب اپنے گھر تک شعلہ باری آتے نہ دیکھی تو اسی لیے یہاں تمہاری خبر لینے آ گیا۔‘
اُس کی بات ختم ہوتے ہی علینہ کا ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا۔اور علیشبہ نے ساری بات سمجھتے ہوئے یوں آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔
ایک دفعہ نکاح ہونے دو
پھر تمہاری طبیعت بناؤں گی۔
زوہیب نے فوراً اپنے دونوں کان ہاتھ میں پکڑ لیے اور معصوم سی شکل بنا کے بولا۔
’سوری۔‘
اُس کے اس انداز پہ وہ بھی ہنسنے لگ گئی۔
’علیشبے۔۔۔؟‘
اپنے نام کی آواز اُسے ماضی سے حال میں لے آئی۔اُس نے اپنے شوہر کے بازو سے سے سر اُٹھاتے ہوئے اُس کی طرف دیکھ کے کہا۔
’سُن لی کال؟‘
’ہاں ۔ یہ بتاؤ خیریت ہے آج بہت مُسکرایا جا رہا ہے۔‘
’ہاں بس وہ دن یاد آ گیا تھا جس دن آپ پھُپھُو کے بارے میں میری غلط فہمیاں دور کرنے آئے تھے۔‘
’اوہ ہاں سچ میں تو بھول ہی گیا تھا اب کبھی تمہاری فیس بُک پہ پھُپھُو کے خلاف کوئی پوسٹ نہیں دیکھی۔‘

__________

’آپ اب کبھی دیکھیں کے بھی نہیں ؟‘
’کیوں بھئی اب وہ تمہاری ساس بن گئی ہیں ؟‘
’جی نہیں ۔ وہ میری ساس کبھی بنی ہی نہیں ۔ ماں سے ذیادہ اُنہوں نے مجھے پیار دیا ہے تو میں پھر کیوں اُن کے خلاف کوئی پوسٹ کروں گی؟‘
’ماں سے ذیادہ پیار تو اُنہوں نے تمہیں بچپن سے ہی دیا ہے۔ البتہ تمہیں خیال بہت جلدآ گیا ہے۔‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اُن کے دونوں بچوں نے اُن کا ایک ایک ہاتھ پکڑ کے اُنہیں اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’ماما ۔۔۔ بابا۔۔۔ آپ بھی آئیں نا۔ اتنا مزہ آ رہا ہے پانی میں ۔‘ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہنے لگی۔
’نہ بیٹا جی مجھے معاف ہی رکھو جنوری کی سردی اور سمندر کا یخ پانی۔ آپ لوگوں کو بھی اپنے بابا کی طرح سردی تو لگتی نہیں اس لیے باہر نکل آؤ بس بہت ہو گیا۔‘
اشعر نے اصرار کیا۔
’پلیز ماما کچھ دیر اور۔۔۔‘
’نہیں بالکل بھی نہیں بیمار ہو جاؤ گے اور دادو امی بھی گھر میں انتظار کر رہی ہیں ۔‘ بسمہ نے بات مانتے ہوئے کہا۔
’ٹھیک ہے ماما ۔ آؤ اشعر جا کے دادو سے کہانی سُنیں گے۔‘ زوہیب نے بسمہ کو اُٹھا کے اُس کا گال چومتے ہوئے کہا۔
’یہ میری اچھی بیٹی ہے۔‘ اشعر ناراضگی سے گاڑی کی طرف جاتے ہوئے بولا۔
’بابا میں آپ کی دادو کو شکایت لگاؤں گا کہ آپ بسمہ سے ذیادہ پیار کرتے ہیں ۔‘ بسمہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’ہاں بیٹا ضرور لگانا۔‘
زوہیب نے مصنوعی خفگی سے اُسے گھورا۔ وہ کھلکھلا کے ہنس دی۔
نئے سال کا پہلا چاند اب آسما ن پر اپنی چھپ دکھا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شُد!

No comments:

Post a Comment