برسوں سے دل اداس ہے او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
میں دور تجھ سے ہوگیا دنیا کی چاہ میں
خود سے لگائی آگ ہے الفت کی راہ میں
پردے سی بن گیا ہوں جو او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
بچپن میں تونے مجھکو سنوارا تھا پیار سے
سہہ کر ستم ہزاروں بچایا تھا خوار سے
کئی بار بھوکی سوگئی او ماں میرے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
نازک قدم زمین پہ چلتا نہیں اگر
انگلی پکڑ کے میرا چلاتی نہ راہ پر
تُتلا کے بات کرتی تھی او ماں مرے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
غمگین تو نہ ہونا بڑھاپے کو سوچ کر
میں آ رہا ہوں تجھکو چلاؤں گا ہر ڈگر
باہیں کھلی ہوئی ہیں او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
ہم نے سفیر دیکھا جہاں تک گئی نظر
ماں کی محبتوں کا محتاج ہے بشر
رحمت مکین دل ہوئی او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے
┄┄┅┅✪❂✵🔵✵❂✪┅┅┄┄
No comments:
Post a Comment