Pages

Wednesday, 29 May 2019

برسوں سے دل اداس ہے او ماں ترے لیے

برسوں سے دل اداس ہے او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

میں دور تجھ سے ہوگیا دنیا کی چاہ میں
خود سے لگائی آگ ہے الفت کی راہ میں
پردے سی بن گیا ہوں جو او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

بچپن میں تونے مجھکو سنوارا تھا پیار سے
سہہ کر ستم ہزاروں بچایا تھا خوار سے
کئی بار بھوکی سوگئی او ماں میرے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

نازک قدم زمین پہ چلتا نہیں اگر
انگلی پکڑ کے میرا چلاتی نہ راہ پر
تُتلا کے بات کرتی تھی او ماں مرے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

غمگین تو نہ ہونا بڑھاپے کو سوچ کر
میں آ رہا ہوں تجھکو چلاؤں گا ہر ڈگر
باہیں کھلی ہوئی ہیں او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

ہم نے سفیر دیکھا جہاں تک گئی نظر
ماں کی محبتوں کا محتاج ہے بشر
رحمت مکین دل ہوئی او ماں ترے لیے
آنکھیں ترس گئی ہیں او ماں ترے لیے

┄┄┅┅✪❂✵🔵✵❂✪┅┅┄┄

No comments:

Post a Comment