آج میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی بات کروں
قومِ مسلم کے جوانوں سے سوالات کروں
تبصرہ میں بھی کوئی برسرِ حالات کروں
کچھ عیاں اپنے بھی جذبات و خیالات کروں
بے حسی دیکھ کے کڑھتا رہوں یا بات کروں
ان سے منہ پھیر لوں یا طنز کی برسات کروں
ائے مسلمان بتا تیری جوانی ہے کہاں
تیری غیرت ہے کہاں آنکھ کا پانی ہے کہاں
انبئیا اور صحابہ کی روایات تو ہیں
انبئیا اور صحابہ کی نشانی ہے کہاں
جو ترے جسم سے آنکھوں سے جھلک جاتی تھی
خون میں دوڑنے والی وہ روانی ہے کہاں
تیرے نعروں سے پلٹ جاتی تھی اغیار کی فوج
وہ شجاعت ہے کہاں شاہ زمانی ہے کہاں
عظمتِ دیں پہ ائے جانوں کو لٹانے والے
غیرتِ قوم پہ سر اپنا کٹانے والے
کم سے کم ہاتھ اٹھا کر ہی اشارہ کر دے
کٹتے ہاتھوں سے علم اونچا اٹھانے والے
دل سے اک نعرہء تکبیر لگا کر تو بتا
تیرے پیارے ہیں محمد کے گھرانے والے
بے حسی اوڑھ کے بیٹھا ہے مکاں میں چھپ کر
تجھ کو تکتے ہیں تعجب سے زمانے والے
تیرا کہنا ہے کہ دنیا تجھے مقصود نہیں
تیرا اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں
لیکن اس غیرتِ ایمانی کا کیوں ذکر بھی ہو
جو ترے جسم تری روح میں موجود نہیں
عصمتِ قومِ مسلماں کو بچانے والے
تیری غیرت ترے گھر تک ہی تو محدود نہیں
جن کے تلوؤں کے نشاں تیری زباں پر ابھریں
کیا یہ حاکم ترے داتا ترے مسجود نہیں؟ ؟؟
اک دفعہ سوچ کہ کب ہوش میں آئے گا تو
اپنے معیار کو کس درجہ گرائے گا تو
کیا فلسطین کے بوڑھے سے ترا رشتہ نہیں
کیا فقط اپنے ہی والد کو بچائے گا تو
تو فلسطین کی بوڑھی سے بھی بے گانہ ہے؟ ؟
کیا فقط اپنی ہی امّاں کو بچائے گا تو
کیا فلسطین کی عورت بھی تری بہن نہیں
آبرو اپنی ہی بہنوں کی بچائے گا تو؟ ؟
دیکھ معصوم سے بچوں کی طرف دیکھ بھی لے
کب تلک ان سے نگاہوں کو چرائے گا تو
دیکھ معصوم فرشتوں کی پڑی لاشوں کو
سچ بتا کیسے انہیں بھولنے پائے گا تو
یاد رکھ بے حسی اچھی نہیں ورنہ اک دن
اپنے ہی بچوں کی لاشوں کو اٹھائے گا تو
تو اگر ان کو وہاں جا کے بچانے سے رہا
کھل کے جذبات کا اظہار تو کر سکتا ہے
بے حسی اوڑھ کے سوئے ہیں جو مسلم حکّام
تو انہیں نیند سے بیدار تو کر سکتا ہے
اپنی تکلیف کا درماں جو ترے بس میں نہیں
اپنی تکلیف کا اظہار تو کر سکتا ہے
میں نے مانا ترے ہتھیار ترے پاس نہیں
اپنی آواز کو ہتھیار تو کر سکتا ہے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
اسی بنیاد پہ للکار تو کر سکتا ہے
0 comments:
Post a Comment