ابھی کوئی فیصلہ کرنے نہ پایا تھا کہ عدالت کی طرف سے خُلع کا نوٹس آ گیا.... وہ لفافہ ہاتھ میں لئے بت بن گیا کہ نیلم اس حد تک کیوں چلی گئی، آخر میں نے یا میرے ماں باپ نے اسے ایسی کونسی تنگی دے ڈالی جو وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئی ہے.
اگلے روز ہی وہ نیلم سے ملنے پہنچ گیا، آج وہ اس سے سب کچھ صاف صاف پوچھنا چاہتا تھا، وہ سب مسئلے ایک دوسرے کے سامنے گھر بیٹھ کر حل کرنا چاہتا تھا ناکہ عدالت میں بھری دنیا کے سامنے.....
نیلم کے باپ نے اسے باہر سے ہی جواب دے دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہے حالانکہ وہ اسے دروازے کی اوٹ سے دیکھ چکا تھا، وہ خاموشی سے لوٹ آیا سمجھ چکا تھا یہاں دال نہیں گلنے والی.....
اب وہ ماں باپ سے کچھ نہیں چھپا سکتا تھا، حالات اب سدھرتے نظر نہیں آ رہے تھے.
ماں تو یہ سن کر بے سدھ ہو گئی بہت مشکل اسے سنبھالا.... دونوں کو چپ سی لگ گئی تھی. ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر روتے، حنا سب کی جان تھی اسے بھلانا کہاں ممکن تھا.....
اگلے ہفتے اسے عدالت میں طلب کر لیا گیا، وہاں نیلم سے سامنا ہوا وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا پر اسکی بے نیازی دیکھ کر جرات نہ کر سکا،
اس نے جج صاحب سے صرف یہی کہا کہ وہ اب اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی، کوئی وجہ نہیں بتائی..... وہ وجہ جاننا چاہتا تھا پر اس نے مزید کوئی بات کرنے سے سختی سے منع کر دیا.
جج صاحب نے پھر بھی اسے سوچنے کا وقت دیا کہ کہیں جذبات میں کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے.
اگلی پیشی پر بھی اسکا طلاق کا مطالبہ جوں کا توں ہی تھا، لہجہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت تھا، وہ ایک بار اس سے تنہائی میں ملنا چاہتا تھا پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا، پھر وہ ہو گیا جو وہ نہیں چاہتا تھا جو اس نے کبھی بھولے سے بھی نہ سوچا تھا اس نے نیلم کو کھو دیا، اک ہی لمحے میں وہ اسکے لئے نا محرم ہو گئی.
وہ جیسے تیسے گھر پہنچا اور آتے ہی باپ سے لپٹ گیا اس وقت اسے رونے کے لیے کندھے کی ضرورت تھی، رات بھر ماں کی گود میں سر رکھے روتا رہا، یوں رونا ایک مرد کی شان کے خلاف تھا پر وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا .
اسکی دنیا ویران ہو گئی گھر میں اداسی نے ڈیرے ڈال لئے، متاع حیات لٹ جانے کے بعد جینے کی امنگ ہی ختم ہو گئی، ایک دوست نے مشورہ دیا کہ کیس کر کے اپنی بیٹی واپس لے لو، سو فورا اس مشورے پر عمل کیا گیا.
عدالت نے بچی مکمل طور پر اس کے حوالے نہ کی پر یہ رعایت دی کہ بچی کیونکہ سکول جاتی ہے سو ویک اینڈ باپ کے ساتھ گزارے،
اب اس میں زندگی کی نئی لہر دوڑنے لگی، وہ بچی کو ہر ویک اینڈ پر لے آتا وہ سارا دن باپ کے ساتھ کھیلتی اور دادا دادی کے ساتھ لاڈ کرتی، وہ دن سب کے لیے عید کا دن ہوتا، اس روز طرح طرح کے پکوان پکتے، سیروتفریح کے پروگرام بنائے جاتے، ہوٹلنگ کی جاتی، غرض کہ وہ اس دن پورے ہفتے کی زندگی جی لیتے تھے. وہ دن اپنے اختتام پر سب کو اداس کر دیا کرتا پھر سے دن گنے جانے لگتے.....
ایک دن دوست سے ملنے گیا تو جواب ملا کہ وہ گھر پر نہیں ہے، واپس پلٹا تو اک آواز نے اسے روک لیا، یہ دوست کی بہن تھی، رکئے آپ سے کچھ کہنا ہے، وہ ہکا بکا اسے دیکھنے لگا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا..... وہ لڑکی کچھ دیر سر جھکائے کھڑی رہی جیسے اپنی بات کہنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی ہو.......
پلیز منیر بھائی آپ نیلم کو کبھی غلط مت سمجھئے گا، اس پگلی نے باپ کی محبت میں اپنا گھر اجاڑ لیا ہے..... اس رات اسکے باپ نے اسے اطلاع دی تھی کہ اسکی بھابھی اسکے بھائی کو لے کر چلی گئی ہے اور بوڑھے باپ کو اس عمر میں تنہا چھوڑ گئے ہیں...... نیلم نہیں چاہتی کہ اسکا باپ جو کہ دل کا مریض ہے اس عمر میں تنہا رہے، اس نے باپ کو منانے کی بہت کوشش کی کہ وہ بیٹی کے ساتھ اسکے سسرال میں رہے اسنے باپ کو یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ اسکے سسرال والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا پر اسکے باپ کی انا کو یہ گوارا نہیں کہ وہ بیٹی کے سسرال میں رہے، اس نے بیٹی کا گھر اجاڑنے کو ترجیح دی، اس خودغرض باپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ آج وہ مر جائے تو اسکی بیٹی کو سہارا کون دے گا، تباہ کر دی اسنے میری دوست کی زندگی اور میری سہیلی جیسا احمق بھی کوئی نہ ہوگا جس نے خوبصورت اور خوشحال زندگی کو یوں ٹھوکر مار دی.......... اس لڑکی نے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اور دروازہ بند کر دیا.
نیلم کو علط تو اس نے کبھی نہیں کہا تھا پر اس سے کچھ شکوے تھے اور آج پرانے سب شکووں نے دم توڑ دیا تھا اور ایک افسوس ایک پچھتاوا جنم لے گیا کاش نیلم نے اسے اپنا سمجھ کر اپنی پرابلم اس سے شئر کی ہوتی، وہ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکال لیتا....... دل پہ اک بوجھ آن پڑا تھا، نیلم اسکی زندگی کا وہ باب تھی جسے وہ پس پشت ڈال سکتا تھا پر کبھی بھلا نہیں سکتا تھا.
نیلم کو گئے دو سال بیت چکے تھے وہ اسکی یادوں کے سہارے جیتے جیتے تھک گیا.
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment