سارے دن کی آوارہ گردی کے بعد رات بستر پر گرتے ہی اسے نیند آ جانی چاہیے تھی پر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اس نے جیب سے پرس نکالا اور اسکی تصویر کو دیکھے چلا گیا، اسکی تصویر سے باتیں کیے بنا اسے نیند کیسے آ سکتی تھی.....
اسے دیکھے برسوں بیت گئے تھے جانے اب وہ کیسی ہو گی، اس نے افسردگی سے سوچا.
آنسو اسکے رخساروں پہ بہہ نکلے...... نیلم خدا تم سے میرے اک اک آنسو کا حساب لے گا، تم نے میری جان کو مجھ سے جدا کیا ہے...... میں اسکے لیے جتنا تڑپا ہوں تمہیں اسکا حساب دینا ہو گا، روتے روتے سسکیاں بھرتے آخر وہ نیند کی وادی میں اتر گیا....
ایسا ہر رات ہوتا تھا.
صبح آنکھ دس بجے کھلی تو نماز چھوٹ جانے کا بے حد رنج ہوا....
کمرے سے باہر نکلا تو ہو کا عالم تھا اب تو اس تنہائی کی عادت سی ہو گئی تھی.... اس ویرانے میں اسے وہ ہر سو کھیلتی کودتی نظر آتی.... کبھی ماں کو ستاتی تو کبھی بابا.... بابا پکارتی اسکی ٹانگوں سے چمٹ جاتی.....
دروازے پر بیل ہو جاتی تو اسکے یہ سہانے منظر غائب ہو جاتے...... وہ حیرت سے چار سو دیکھتا پھر افسردہ ہو کر دروازے کی طرف چل پڑتا.
دل ہر خواہش، ہر خوشی سے عاری ہو چکا تھا بس اک خواہش تھی اسکی آخری خواہش.......
مرتے سمے وہ اسکے سامنے ہو، جب دم نکلے تو سر اسکی گود میں ہو.....
کبھی کبھی وہ اپنی اس خواہش پر بہت ہنستا کہ میں بھی کتنا پاگل ہوں جو ایسا سوچا کرتا ہوں..... بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے، وہ تو مجھ سے شدید نفرت کرتی ہے.... وہ مجھ سے کبھی نہیں ملے گی......
پھر ہنستے ہنستے وہ رو پڑتا..... اور پھر گھنٹوں بلک بلک کر روتا اور اسے چپ کروانے والا کوئی نہ ہوتا.....
کتنی خوبصورت زندگی جی رہا تھا، اس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسے حالات بھی دیکھنے پڑیں گے.
نیلم اسکے ماں باپ کی پسند تھی... پر اسے بھی پہلی نظر میں ہی اچھی لگی....
جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا، نیلم کے آ جانے سے گھر میں رونق ہو گئ تھی سب کچھ ویسا ہی تھا پر جانے کیوں سب بدلا بدلا اور خوبصورت دکھائی دینے لگا تھا.
وہ اکلوتا تھا، ماں باپ کو اسکے ڈھیر سارے بچوں کی خواہش تھی. ماں دن رات اسکے لئے دعائیں کرتی.
اللہ نے جلد اسے بیٹی سے نوازا.... وہ تو خوش تھا ہی پر دادا دادی کی خوشی دیدنی تھی.... زندگی میں جو بہار نیلم کے آنے سے آئی تھی وہ حنا کے آنے سے دوبالا ہو گئی تھی.
نیلم کے بھائی کی شادی تھی وہ کچھ دنوں کے لیے میکے چلی گئی، ماں تو تھی نہیں سو سارے ذمہ داریاں اسی کو نبھانی تھی..... اسکے بنا گھر سنسان ہو گیا تھا، سب اسے بہت مس کر رہے تھے.
شادی کے بعد وہ واپس آئی تو بہاریں بھی لوٹ آئیں, خزاں کے بادل چھٹ گئے.
وقت بہت مستانی چال چلتے گزر رہا تھا..... دیکھتے ہی دیکھتے چار سال گزر گئے، اس دوران نیلم کئی بار باپ کے گھر رہنے گئی...... ایک بار گئی تو واپسی پر اپنے قہقہے اپنی مسکراہٹیں وہیں بھول آئی، وہ بہت گم سم سی رہنے لگی تھی، بہت پوچھا کہ کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے تو شیئر کرو پر وہ ہر بار مسکرا کر ٹال دیتی، اس نے محسوس کیا کہ نیلم چھپ چھپ کر روتی ہے، وہ بھی پریشان رہنے لگا.
ایک رات اسکے باپ کا فون آیا وہ فون سن کر بہت افسردہ ہو گئی وہ رات اس نے کروٹیں بدلتے گزاری، صبح ہوتے ہی میکے جانے کی فرمائش کر ڈالی، ابھی کچھ ہی دن پہلے تو رہ کر آئی ہو وہ گلہ کرنا چاہتا تھا، پر اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر خاموشی سے چھوڑ آیا.
اسے گئے دس دن ہو چلے تھے ماں بابا کافی اداس ہو گئے اور وہ خود بھی بہت تنہائی محسوس کر رہا تھا کمرہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا. وہ اسے واپس لانا چاہتا تھا، اسکے فون کا انتظار کر رہا تھا. وہ پہلے جب بھی جاتی، ایک ہفتے سے پہلے ہی اسکا فون آ جاتا کہ آ کر لے جاؤ پر اس بار اسکی طرف سے مکمل خاموشی تھی اس نے حال چال پوچھنے کے لیے بھی فون نہیں کیا تھا.......
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ خود ہی اسے لینے چلا گیا.
اسے دیکھ کر نیلم نے کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی اور حنا کو لے کر کمرے میں چلی گئی، اسکے باپ نے کہا کہ نیلم اب اس گھر میں نہیں جائے گی، اگر تمہیں اسکا ساتھ چاہیے تو میرے گھر میں چلے آؤ...... کمرے سے حنا کے رونے کی آواز مسلسل آ رہی تھی وہ اپنی بچی کو لگے لگا کر پیار کرنا چاہتا تھا، نیلم سے باتیں کرنا چاہتا تھا، پر یہاں کے تو حالات ہی بدل گئے تھے.... وہ ہونقوں بیٹھا سسر کی باتیں سنتا رہا، وجہ بھی نہ پوچھ پایا.
وہ اب کھویا کھویا رہنے لگا،ماں روز کہتی بہو کو لے آ، حنا بہت یاد آ رہی ہے، اسکی سمجھ میں نہ آتا کہ ان کو کیسے بتائے کہ نیلم اب اس گھر میں نہیں آنا چاہتی.... وہ نیلم سے بہت پیار کرتا تھا پر اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا انہیں تنہا چھوڑ کر بیوی کے پاس نہیں جا سکتا تھا،
دن رات سوچوں میں ڈوبا رہتا کہ کیا کرے اس مسئلے کا کیا حل نکالے
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment