ایک محفل میں بحث ہو رہی تھی کہ فلاں صاحب کے لڑکے نے ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلی اور لڑکی اپنے مذہب پر ہی قائم ہے ۔ایک دوسرے صاحب نے کہا اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لڑکی اہل کتاب میں سے ہے اور قرآن نے ان کی بیٹیوں سے نکاح جائز قرار دیا ہے ۔کچھ لوگ ہم سے کہنے لگے کہ آپکی کیا رائے ہے ؟ ہم نےکہا آپ اھل کتاب میں شادی اور نکاح کی بات کررہے ہیں جبکہ خود مسلمانوں کے آپس میں ہی شادی اور نکاحِ کرنا اس لئے بہت آسان نہیں رہا کیوں کہ ان میں حسب نسب ذات برادری اور مسلک کے نام پر اشرف اور ارزل کا اختلاف اتنا شدید ہے کہ محمود و ایاز صرف رسماً ایک امام کے پیچھےایک صف میں نماز کیلئے کھڑے تو ہوتے ہیں باقی عام معاشرتی زندگی میں بندے اور بندے نواز کا فرق وہی مشرکانہ ہے اور اس بدعت کی نشوونما میں کیا اہل قرآن کیا اہل حدیث کیا دیوبندی اور بریلوی سب کی حصے داری یکساں ہے ۔اس طرح جب اہل ایمان نے آپس میں ہی نکاح کو حرام کرلیا ہے تو اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح کی بحث کے کیا معنی؟
جنوبی ہند کے مسلمانوں میں تو ذات برادری کا معاملہ بہت سنجیدہ نہیں ہے لیکن شمالی ہند کے مسلمانوں میں مسلکی شدت پسندی کے علاوہ کوئی ذات سے فقیر ہے انصاری ہے دھنیاہے بھانٹ ہے مہتر ہےکہ منصوری ہےکہ راعین دھوبی کجڑا خان داؤدی شیخ سید سادات اور پتہ نہیں کیا کیا ہے اور پتہ نہیں اور کتنی برادریوں میں منقسم ہے۔اہل فرقان اس پیشہ وارانہ فرق کی وجہ سے ہی آپس میں شادی اور نکاح کے بندھن میں نہیں بندھتے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں اسلامی نظام اور خلافت نہ ہو وہاں مسلمانوں کیلئے اہل کتاب کی لڑکیوں سے بھی نکاح ایک فتنہ ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ بچے ماں کا مذہب اختیار کرلیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے اپنے دور میں یہ دیکھا کہ مسلمان کثرت کے ساتھ یہود و نصاریٰ کی لڑکیوں سے شادی کررہے ہیں اپنے ایک گورنر کو خط لکھا کہ مسلمانوں کو یہودی اور عیسائی لڑکیوں سے شادی پر پابندی لگا دیں اور جس یہودی لڑکی سے انہوں نے خود شادی کی ہے اسے طلاق دے دیں ۔گورنر نے جواب دیا کہ امیر المومنین آپ اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح حرام قرار دے رہےہیں جبکہ قرآن نے اسے حلال کیا ہے ۔امیرالمومنین نے کہا کہ نہیں میں نے حرام نہیں کیا ہے مگر اندیشہ ہے کہ لوگ بدکار عورتوں سے شادی نہ کر بیٹھیں اور ہماری نسل خراب ہونا شروع ہوجائے ۔ بعد کے دور میں عبداللہ بن عمرؑ اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح اسی طرح ناجائز سمجھتے تھے جیسے کہ قرآن میں مشرکین کیلئے حکم ہے ۔غور کیا جائے تو اسپین میں مسلم سلطنتوں کے زوال کی وجہ بھی یہی رہی ہے کہ اسپینی ریاستوں کے گورنر اور حکمرانوں کے حرم میں اہل کتاب کی لڑکیاں کثرت سے داخل ہوچکی تھیں اور انہوں نے اسپینی حکمرانوں کو ناہل بنانے میں وہ کام کیا جو کسی ملک کی فوجی طاقت سے بھی ممکن نہیں تھا۔موجودہ عرب حکمرانوں کی ناہلی کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے پھر بھی عرب کے مسلمانوں کو نام نہاد خلافت بھی میسر ہے ممکن ہے کوئی بہار کا موسم اس گلشن حجاز کو پھر سے معطر کردے لیکن برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں میں مسلک اور ذات برادری کے جس فتنے کو انگریزوں نے ہمارے ہی علماء کے ذریعے ہوا دی اب اس فتنے پر کوئی صالحین کی حکومت ہی قابو پاسکتی ہے۔
کل کی بات ہے ایک صاحب نے کہا کہ بھائی وہ جو ایک لڑکا آپ کے یہاں کام سیکھنے آتا ہے سنا ہے انجینئر ہے اور بستی کے علاقے سے تعلق رکھتا ہے وہ کون سی ذات ہے ۔میں نےکہا چودھری ہے ۔انہوں نےکہا میں بھی خان ہوں میری دو جڑواں لڑکیاں ہیں اور ایم ایس سی کر رہی ہیں اگر مناسب سمجھیں تو اس کے گھر والوں سے رشتے کی بات چلائیں ۔میں نے اس لڑکے کو جو میرے یہاں کام سیکھ کر اب کسی بڑی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے فون کرکے پوچھا کہ بھئی اگر تمہاری شادی کی بات کرنا ہو تو کس سے بات کرنا چاہیے ۔اس نے کہا سر ابھی تو میرے بڑے بھائی کے رشتہ کی تلاش ہے اور آپ کو تو میں بتا چکا ہوں کہ ابا کے انتقال کے بعد ہمارے گھر کا فیصلہ بڑے والد ہی کرتے ہیں ۔انہوں نے بھائی کیلئے جو بارہویں پاس ہے پانچ لاکھ اور میرے لئے پندرہ لاکھ کی ڈیمانڈ رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی لڑکیوں کی شادی میں دس لاکھ کیش دیا ہے تو اپنےبچوں کی مفت میں کیوں کریں ۔میں نے لڑکی کے باپ سے فون پر ہی اس کی گفتگو سنا دی۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ بات کروائیں میں تیار ہوں ۔میں نے اسی وقت اپنے ایک جاننے والے کو فون لگایا اور کہا کہ بھائی ساکی ناکہ میں ایک صاحب ہیں جو لوہے کا کاروبار کرتے ہیں اور فلاں اہل حدیث مسجد کے ذمدار بھی ہیں سنا ہے آپ کے ان سے اچھےکاروباری تعلقات ہیں ان سے ایک رشتے کی بات کرنی ہے ۔ابھی وہ کچھ جواب دیتے لڑکی کا باپ جو گفتگو سن رہا تھا اس نےکہا بھائی میں سنی ہوں اہل حدیث میں رشتہ نہیں کرسکتا !
اسی طرح کچھہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے ایک صاحب جن سے مسجد میں نماز کے دوران تعلقات ہوگئے تھے بہت غریب تھے ان کی تین لڑکیاں تھیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ بھائی بچیوں کیلئے کوئ رشتہ بتائیں لیکن میں جہیز نہیں دے پاؤنگا۔میں نے اپنے ایک بہت ہی خاص غیر شادی شدہ سنی دوست جو اپنا خود کا کاروبار کرتا تھا اور اتفاق سے متشدد اہل حدیث بن چکا تھا اس سے کہا کہ ایک لڑکی جس کا باپ بہت غریب ہے جہیز نہیں دے سکتا اگر شادی کرنا ہے تو اپنی امی کو ان کے یہاں بھیج دو ۔امی کو لڑکی پسند آگئی۔بات آگے بڑھانے کیلئے میں نے لڑکی کے والد سے بات کیا تو وہ کہنے لگے کہ عمر بھائی میں نے پتہ لگایا وہ لوگ تو فقیر ہیں اور ہم لوگ خان ۔میں نےکہا لیکن لڑکا بہت شریف ہے اور مہینے کی تقریباً تیس پینتیس ہزار کی انکم ہے اور وہ بہت ہی سادگی سے مسجد میں نکاح کرلے گا ۔لڑکی کے باپ نےکہا نہیں مشکل ہے اگر وہ انصاری بھی ہوتا تو کرلیتا فقیر میں رشتہ نہیں ہوپائے گا ۔
ہندوستانی مسلمانوں کے یہ بھی ایک مسائل ہیں اور مسلمان ان مسائل پر اسی
وقت قابو پاسکتا ہے جبکہ وہ ایک اسلامی نظام ہی کے ماتحت ہو اور حکومت جہالت کی تمام رسموں کو بزور قوت اسی طرح روند دے جیسا کہ حجة الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں جہالت کی تمام رسموں کے روندے جانے کا اعلان کیا تھا ۔
تاریخ میں آتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے کسی دور میں جب لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور یہ اندیشہ ہوا کہ لڑکیاں کنواری رہ جائیں گی حکومت نے قانون بنایا کہ جو صاحب ثروت ہے وہ نکاح ثانی کریں یا نہیں کرسکتے تو حکومت کو اضافی ٹیکس دیں تاکہ حکومت دوسرے مردوں سے ایسی لڑکیوں کی شادی کا نظم کرواسکے ۔آج بغیر کسی حاکم اور حکومت کی طاقت کے داعیان اسلام لاکھ فیس بک سوشل میڈیا اخبارات,تبلیغی اجتماعات اور مسجد و خطبات وغیرہ کے ذریعے اپنوں اور غیروں میں اسلام پہچانے کیلئے اچھل کود کرلیں لٹریچر اور نصیحت سے اچھے اور برے عمل کو تازہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن جس معاشرتی بدعت کا تذکرہ ہم نے کیا ہے اس کے خاتمے کا حل وہی ہے جو اقبال نے بتایا ہے کہ
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
0 comments:
Post a Comment