دوسری قسط۔۔۔۔ایسے تھے مولانا


ایم ودودساجد

مولانااسرارالحق قاسمی مرحوم ایک بہت ہی پسماندہ اور ضروری سہولیات سے محروم گاؤں کے باسی تھے۔ان کے دل میں ہمیشہ یہی تڑپ رہتی تھی کہ وہ اپنے علاقہ کے لئے کچھ تعلیمی کام کریں۔انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں ایسے علاقہ سے آتا ہوں جہاں دور دراز گاؤوں میں ایسے بھی لوگ آبادہیں کہ جنہیں علم وتہذیب نے چھوکر بھی نہیں دیکھا اور جو درختوں کے پتے کھاکر بھی گزارا کرلیتے ہیں۔مولانا کو بچیوں اور خواتین کے حقوق کی بڑی فکر ستاتی تھی۔اکثر ذکر کرتے تھے کہ مسلمان عام طورپراپنی بیویوں‘بہنوں اور رشتہ کی دوسری عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔وہ تاریخ اسلام سے وابستہ خواتین کے اوصاف سے بہت متاثر تھے اور چاہتے تھے کہ ہر مسلمان بچی اسی تاریخ سے سبق لے کر آگے بڑھے۔..وہ اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے وہ واقعات ضرور سناتے تھے جن میں انہوں نے نبوت ملنے کے بعد مشکل وقت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس بندھائی تھی۔۔مولانا کو تاریخ اسلام میں حضرت بریرہ کا کردار بھی بہت پسند تھا۔۔وہ ان کی زیرک مندی اور شجاعت سے بھی بہت متاثر تھے اور بہت احترام کے جذبہ کے ساتھ ان کا ذکر کرتے تھے۔۔انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کا نام بھی بریرہ رکھا تھا۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے انہیں جب 2010 میں رحیمیہ پبلک اسکول کے سالانہ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلایا تھا تو وہ اسکولی بچیوں کے ذریعہ بنائے گئے پروگراموں سے بہت خوش ہوئے تھے۔اس موقع پر انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر ایک بہت جامع تقریر کی تھی۔اس تقریر میں انہوں نے تاریخ اسلام کا ایک ایسا ورق پلٹ کر دکھایا تھا کہ جس پر اکثر علماء بہت کم یا بالکل ہی نہیں بولتے۔انہوں نے بتایا تھا کہ تاریخ اسلام میں 8 ہزار سے زائد ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے کہ جو اپنے وقت کی فقیہ ‘مفتی ‘ محدث ‘متقی اور ولی ہوئی ہیں۔اس موضوع پر انہوں نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں 35 منٹ تک گفتگو کی تھی۔اس تقریر کے بعد بچیوں کی ماؤں نے مولانا کا کھڑے ہوکر استقبال کیا تھا۔انہیں علم ہوا کہ عورتیں بھی کتنے اعلی مقام پر پہنچیں۔۔۔انہیں خود کے عورت ہونے پر فخر کا احساس ہوا۔۔۔انہیں یہ تحریک ہوئی کہ وہ اپنی بچیوں کو بھی اسی طرز پر ڈھالیں۔اس کا اندازہ مجھے اپنی پرنسپل کی اس رپورٹ سے ہوا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ مولانا کی تقریر سے متاثر ہوکر کئی والدین اسکول آئے اور یہ جاننا چاہا کہ ہم ان کی بچیوں کی تعلیم کے علاوہ ان کی تربیت کس طرز پر کر رہے ہیں۔یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دہلی کے قصاب پورہ علاقہ میں سراج الدین قریشی نے 2009 میں ایک خستہ حال اسکول گود لیا تھا۔یہ اسکول اب میری نگرانی میں چلتا ہے۔جب ہم نے اس کا انتظام سنبھالا تو معلوم ہوا کہ سو سوا سو بچیاں ہی آتی ہیں۔اور ماں باپ پانچویں کلاس کے بعد اپنی بچیوں کو یہ کہہ کر اٹھالیتے ہیں کہ اب ہمیں شادی کرنی ہے۔۔۔

اس سلسلہ میں ہم نے ایک مہم چلائی اور قصاب پورہ کے والدین کو اس پر راضی کرلیا کہ وہ اپنی بچیوں کو پانچویں کے بعد نہیں اٹھائیں گے۔بلکہ کم سے کم دسویں تک پڑھائیں گے۔اب صورت حال یہ ہے کہ اس اسکول میں چھ سو سے زیادہ بچیاں پڑھ رہی ہیں۔۔کئی معاملات میں ماں باپ نے کانونٹ اسکولوں سے اٹھاکر اپنی بچیوں کا داخلہ اس اسکول میں کرادیا ہے۔۔۔اسکول کا ماحول خالص دینی اور اسلامی ہے لیکن میڈیم انگریزی ہے۔۔۔اسکول کا میڈیم بدلنے میں ہمیں والدین کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔۔۔گالیاں بھی کھانی پڑیں لیکن ہم نے ٹھہر کر نہیں دیکھا۔۔ہمارے یہاں کی بچیاں اگر ایک طرف اردو میڈیم اسکولوں کی بچیوں سے تقریری مقابلے جیت کر آرہی ہیں تو دوسری طرف وہ اب انگریزی زبان پر عبور کے معاملہ میں ماڈرن اسکول اور ڈی پی ایس کے اسٹوڈنٹس کا مقابلہ کر رہی ہیں۔اس موقع پر ایک واقعہ کا ذکر مناسب رہے گا۔۔۔دہلی میں ایک مشہور شخصیت کے نام پر ایک رننگ ٹرافی پچھلے کئی برسوں سے دہلی کے چند انگلش میڈیم اسکولوں کے ہی درمیان گھوم رہی تھی۔ایک بار ہماری بچیوں کو بھی موقع مل گیا۔دو حقیقی بہنوں نے ایک ہی موضوع پر مخالفت اور موافقت میں تقریریں کیں۔دونوں مخالفت اور موافقت میں پہلا انعام تو لے کر آئیں ہی ساتھ ہی وہ رننگ ٹرافی بھی رحیمیہ اسکول کے نام لے کر آگئیں جس کا چند اسکول برسوں سے آپس میں ہی لین دین کر رہے تھے۔۔۔ان اسکولوں کو فکر لاحق ہوئی اور ایک ٹیم اس اسکول کا معائنہ کرنے پہنچی۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں تقریریں ایک ہی ٹیچر نے لکھی تھیں ۔۔۔۔

اب یہاں سے فارغ بچیاں اپنی دینی وضع قطع کے ساتھ مرانڈا ہاؤس جیسے کالجوں میں جارہی ہیں اور عزت کمارہی ہیں۔مولانا نے 19دسمبر2017 کے سالانہ پروگرام میں بھی شرکت کی تھی۔اس موقع پر اسکول سے فارغ بچیوں کا ایک گروپ بھی آیا تھا۔ان میں سے چند بچیوں نے اس موقع پر جو تقریریں کیں مولانا انہیں سن کر آبدیدہ ہوگئے تھے۔ان بچیوں نے بتایا کہ ہم جس کالج میں زیر تعلیم ہیں وہاں ہم رحیمیہ گروپ کے نام سے مشہور ہیں اور کوئی پروگرام ہماری موجودگی کے بغیر نہیں ہوتا۔دسمبر 2017 کے پروگرام کے آخر میں رحیمیہ اسکول کی دو درجن طالبات نے مسلمانوں کی حب الوطنی اور شرپسندوں کی شرارتوں پر مبنی میرے لکھے ہوئے ایک ڈرامہ کو جب فلم بند کیا تو آخری منظر پر پورا ہال بلک بلک کر روپڑا۔۔۔۔مولانا اس روز بہت عجلت میں تھے۔پارلیمنٹ جاری تھی۔لیکن میں نے مولانا کو روکے رکھا۔ایک مقام پر تو خود سراج الدین قریشی مولانا کی بے چینی کو دیکھ کر بے چین ہوگئے اور مجھ سے انہیں جانے دینے کے لئے کہنے لگے۔لیکن جب میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کو جس پروگرام کے لئے روکا ہے اگر وہ آپ نے نہ دیکھا تو بعد میں آپ کو قلق ہوگا تو مولانا خندہ پیشانی کے ساتھ رک گئے ۔۔۔مولانا نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر رُندھی ہوئی آواز میں کہاکہ اگر میں یہ آخری پروگرام دیکھ کر نہ جاتا تو میں بہت کچھ کھودیتا۔مولانانے رحیمیہ اسکول کی ان بچیوں کو کشن گنج اپنے اسکول میں آکر ان کی بچیوں کے ساتھ انٹر ایکشن کی دعوت دی تھی۔۔۔

میں نے مولانا کو بتایا تھا کہ جب ہم نے یہ اسکول سنبھالا تھا تو استانیوں کو بہت ذلت آمیز اور انتہائی حقیر تنخواہیں دی جاتی تھیں۔میں نے سب سے پہلے ان استانیوں کی تنخواہوں میں دوسو اور تین سو فیصد کا اضافہ کیا۔پھر انگلش میڈیم کی ضرورت کے حساب سے ان کی درجہ بدرجہ بہترین تربیت کا انتظام کیا جس کی کمان حرا اسکول کے سابق پرنسپل ابصار احمد علوی کو سونپی۔۔۔خدا کاشکر ہے کہ 2009 میں ایک استانی کو جو تنخواہ ملتی تھی آج نو سال بعدہماری استانیاں اس تنخواہ کا دس گنا حاصل کر رہی ہیں۔۔۔اور جو کچھ انہیں نقد مل رہا ہے وہی کاغذ پر لکھا جارہا ہے۔اس وقت جو پرنسپل ہیں وہ گزشتہ 39 سال سے اس اسکول سے وابستہ ہیں۔آندھی ہو یا طوفان وہ دہلی کے دور افتادہ مقام سے تین بسیں بدل کر چپراسی کے آنے سے بھی پہلے آجاتی ہیں۔میں نے جب تنخواہیں بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تو استانیوں کی ان چھٹیوں کے پیسے بھی دینے شروع کئے جو  استعمال کرنے سے رہ جاتی ہیں۔۔۔معلوم ہوا کہ چھٹیوں کے سب سے زیادہ پیسے ہماری پرنسپل کے بنتے ہیں۔اب صورت یہ ہے کہ تمام استانیاں پابندی کے ساتھ آتی ہیں۔ظہر کی نماز بڑی بچیوں کو اسکول میں باجماعت پڑھائی جاتی ہے۔دینی نصاب میں نے خود ترتیب دیا ہے۔سال میں ایک بار چالیس دن کے لئے ان بچیوں اور استانیوں کے لئے قرآن ورکشاپ بھی منعقد کی جاتی ہے۔۔۔جس کے لئے حیدر آباد سے مولانا شہباز راہی مظاہری کی قیادت میں کئی قابل اساتذہ آتے ہیں ۔۔۔سراج الدین قریشی ہر سالانہ پروگرام کے بعد مجھ سے حیرت سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بچیاں واقعی ہمارے اسکول کی ہیں اور کیا واقعی یہ سب قریشی ہیں ۔۔؟ ان کا خیال ہے کہ قریش برادری کی تاریخ میں یہ ایک بے مثال انقلاب سے کم نہیں ہے۔۔۔

ہماری بچیاں حدر‘ترتیل اور تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھتی ہیں ۔انہیں بہت سی ان سورتوں کا ترجمہ معلوم ہے جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔انہیں عربی زبان کے قواعد یعنی صَرف اور نحو کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔۔۔چالیس دن کی تربیت کے بعد جب یہ بچیاں اختتامی تقریب میں فن تجوید کا مظاہرہ کرتی ہیں اور مشکل سوالات کا روانی کے ساتھ جواب دیتی ہیں تو سامعین حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔۔مولانا اس طرح کی تقریبات میں دو مرتبہ آئے۔۔قرآنی علوم پر انہیں کمال کی دسترس حاصل تھی۔۔۔ہمارے اساتذہ' طلبہ اور ان کے والدین ان کی آمد سے نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ ان کو مدعو کرنے کی سفارش کرتے تھے۔۔

مولانا کے تعلق سے جاری مضمون میں ایک غیر متعلق موضوع پر لکھنے کا بظاہر کوئی جواز نہیں تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اسکول کے تعلق سے جتنی تفصیلات پڑھی ہیں وہ سب مولانا کی خواہش اور تحریک کی مرہون منت ہیں۔ہم نے قصاب پورہ کے قریشی حضرات کے اندر جو جذبہ بیدارکردیا ہے انشاء اللہ اب وہ جذبہ خواب غفلت کا شکار نہیں ہوگا۔ کیا عجب کہ خواتین کے حوالہ سے نئی ہندوستانی تاریخ اسلام انہی بچیوں میں سے کچھ کے نام لکھی جائے۔ مولانا کہتے تھے کہ اُس گھر کا مرد بے نمازی نہیں رہ سکتا جس گھر کی عورتیں نمازی ہوں۔۔۔وہ بچیوں کے اندر اسلام کی رمق پیدا کرنا چاہتے تھے۔۔۔اسی جذبہ کے تحت انہوں نے اپنے بے آب و گیاہ علاقہ میں لڑکیوں کا اسکول قائم کیا تھا۔۔۔وہ جب بھی گھر آتے اپنے اسکول کے واقعات و تفصیلات بچوں کی طرح خوش ہو ہوکر بتاتے تھے۔۔۔

مولانا کو اپنے لوگوں کی تعلیمی بدحالی کا علم بھی تھا اور وہ اس کا درد بھی رکھتے تھے۔لہذا جب انہیں کچھ عطیہ دہندگان ملے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے گاؤں میں ہی لڑکیوں کا اسکول قائم کیا۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ مولانا کے علاوہ ان کے دو بھائیوں حاجی معراج الحق اور زاہدالرحمن نے بھی اپنے حصہ کی آبائی زمین فاؤنڈیشن کے حوالہ کردی تھی جس پر انہوں نے لڑکیوں کا ایک شاندار رہائشی اسکول قائم کیا۔۔۔اس کے بعد اس گاؤں کا نام تعلیم آباد ٹپو رکھ دیا۔2005 میں مجھے بھی وہاں ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا۔اس وقت میں ہفت روزہ ’ویوز ٹائمز‘اردو / ہندی کا چیف ایڈیٹر تھا۔واپسی پر میں نے رنگین صفحات پر اسکول کے بارے میں ایک مضمون لکھا اور اس کا عنوان۔۔۔۔۔۔"بے آب وگیاہ صحرا میں تعلیمی جہاد"۔۔۔۔۔رکھا۔۔۔ مولانااس اسکول کے تعلق سے بات کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے تھے۔اب تو حکومت بہار نے بھی اس اسکول میں کچھ کورسز کو منظوری دیدی ہے۔سی بی ایس ای نے تو پہلے ہی منظوری دیدی تھی۔۔

مولانا نے کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹر کے لئے جو جدوجہد کی وہ مثالی تھی۔میں تو اس کوشش میں بالواسطہ طورپر ان کے ساتھ شامل تھا۔وہ اے ایم یو کورٹ کے بھی ممبر تھے۔اس وقت کے وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز (کیرالہ) مولانا کی بہت عزت کرتے تھے۔لیکن مشکل یہ تھی کہ مولانا ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور وہ مولانا کی زبان سمجھنے سے قاصر تھے۔میں نے انہی دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کادورہ کرکے وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تھا۔شرپسندوں نے پی کے عبدالعزیز کا جینا حرام کر رکھا تھا۔انہوں نے برسوں سے مختلف ہاسٹلوں میں پڑے ہوئے ’غنڈوں‘کو نکال باہر کیا تھا۔لہذا میری ان سے دید شنید ہوگئی تھی۔تو یوں ہوتا تھا کہ مولانا کو جب وائس چانسلر سے بات کرنی ہوتی تھی تو وہ میرے پاس آتے تھے ‘میں وی سی کو فون ملاتا تھا اور دونوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ایک بار اس سلسلہ میں مولانا کے ساتھ علی گڑھ جانا بھی ہوا۔۔پی کے عبدالعزیز نے جس جاں بازی اور جانفشانی سے مولانا کاساتھ دیا اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔۔۔کشن گنج کے ہی کچھ سیاسی بازیگر مولانا کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔۔۔وہ مولانا سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے تھے۔۔۔انہیں مسلمانوں کی فلاح سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔۔۔مولانا تہجد میں گڑگڑا کر روتے تھے کہ انہی کے لوگ ان کا وہ راستہ روکنے کی سازش کر رہے تھے جو راستہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا تھا۔۔۔

خدا کاشکر ہے کہ مولانا کی کوششیں بار آورہوئیں۔وہ اس سلسلہ میں صدر جمہوریہ (پرنب مکھرجی) وزیر اعظم (منموہن سنگھ)اور یوپی اے کی چیر پرسن سونیا گاندھی سے کئی بار ملے۔ادھر انہوں نے نتیش کمار سے بھی ملاقاتیں کیں اور حکومت بہار زمین دینے پر راضی ہوگئی۔مولانا کی سبھی سیاسی پارٹیاں قدر کرتی تھیں اور سبھی چاہتی تھیں کہ مولانا اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔ ۔۔ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ مولانا کے علاقہ (کشن گنج‘بہار)میں رہنے والے آر ایس ایس اور دوسری ہندو جماعتوں کے لیڈر بھی مولانا کا احترام کرتے تھے۔انہوں نے کبھی ہندو مسلم کی بنیاد پر علاقہ کے باشندگان سے امتیاز نہیں برتا۔۔۔۔(جاری)

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment