میری اپنی گاڑی کا ہارن خراب تھا لہذا میں نے Uber کیب منگوائی۔۔۔میں نے ڈرائیور کے برابر والی نشست پر بیٹھتے ہی پوچھا: ".... کیوں میاں آکاش تمہاری عمر کیا ہے؟"
اس نے بہت ہی انکساری کے ساتھ جواب دیا:سر21۔
میں نے کہا کہ 21؟اور پڑھنے کی بجائے گاڑی چلاتے ہو؟۔۔۔۔آکاش نے اس انداز سے اگلا جواب دیا کہ میں نے اندازہ لگالیا کہ یہ کسی پریشان گھرانہ کا بچہ لگتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہو‘یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باپ بیمار ہوگیا ہو۔اورگھر چلانے کے لئے کالج جانے کی بجائے یہ بچہ اب گاڑی چلارہا ہو۔
میں نے پوچھا کہ پھر پڑھائی کا کیا ہوگا؟اس نے کہا کہ سروہ تو میں اب بھی کر رہا ہوں۔بی بی اے کر رہاہوں پنجاب سے سر!
کورسپینڈنس کے ذریعہ؟
جی سر‘آکاش نے جواب دیا۔سر بی بی اے کرنے کے بعد دہلی سے ریگولر ایم بی اے کروں گا۔پاپا کے کام میں ہاتھ بٹاؤں گا۔۔۔
آکاش کا بڑا بھائی سافٹ ویر انجینئر ہے۔اور نوئیڈا کی ایک بڑی کمپنی میں معقول تنخواہ پر برسرکار ہے۔اس کے والد پنجاب کے لدھیانہ میں ایک بڑے کامیاب بلڈر ہیں۔آکاش کا کہنا ہے کہ وہ وہاں بڑی بڑی کوٹھیاں بناکر بیچتے ہیں۔۔۔یہ خاندان دہلی کے قریب اترپردیش کے نوئیڈا میں رہتا ہے۔۔۔
۔۔۔تو آکاش تم گھر سے تو کھاتے پیتے ہو‘پیسے کی نہ تو کوئی کمی ہوگی اور نہ ہی ضرورت؟
جی سر!
تو یار پھر کیوں Uberکیب چلاتے ہو؟
آکاش نے جو جواب دیا اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔اس نے کہا کہ سر‘پاپا نے میرے نام پر پانچ کاریں خرید کر انہیں Uber میں چلا رکھا ہے۔میں گھر پر پڑھائی کے بعدکچھ گھنٹوں کے لئے اپنی گاڑی خود بھی چلاتا ہوں۔۔۔۔۔سر! آپ تو جانتے ہی ہو کہ دہلی اور نوئیڈا کا ماحول بہت خراب ہے۔کچھ کام نہیں کروں گا تو بری سنگت میں پڑسکتا ہوں۔اس سے بچنے کے لئے میں خود کو Busy کرلیتا ہوں۔
آکاش بہت کم بولتا ہے۔بہت عاجزی کے ساتھ جواب دیتا ہے۔۔۔آنکھیں نیچی رکھتا ہے۔۔۔کم سے کم سامنے والے سے بات کرتے ہوئے تو اس طرح کرتا ہے جیسے مدرسے کا کوئی طالب علم اپنے استاد کے سامنے ادب واحترام کا مظاہرہ کر رہا ہو۔۔۔
فوٹو کھینچنے کے لئے آکاش سے اجازت لیتا ہوں تو وہ تیار ہوجاتا ہے مگرانکساری کے ساتھ فوٹو کھنچواتا ہے۔اسی دوران آکاش کا فون بج اٹھتا ہے۔۔۔
"...ہیلو ممی میں کار ڈرائیو کر رہا ہوں ۔۔۔سر کو چھوڑ کر فون کروں گا۔۔۔"میں نے کہا کہ کار ڈرائیو کررہا ہوں' کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ڈرائیو کر رہا ہوں' کہہ دینا کافی ہوتا ہے۔۔۔آکاش نے بڑی لجاجت کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: سر میری ممی کہتی ہے کہ کوئی ایک شبد (لفظ) بھی بتادے تو وہ گرو ہوتا ہے۔۔۔
اسی دوران میری منزل آجاتی ہے۔کتنے پیسے ہوئے آکاش؟جی سر128روپیہ۔میں نے مودی کا بنوایا ہوا نیا200کا نوٹ دیا۔میں جلد اترنا چاہتا تھا۔آکاش کو معمولی سی دیر ہوگئی۔۔۔۔جیب میں‘ڈیش بورڈ میں اور اِدھر اُدھرکچھ تلاش کر رہا ہے۔۔۔۔میں نے کہا کہ چلو 50کا نوٹ ہی دیدو۔اس نے کہا کہ سرمیں آپ کو پورے 72روپیہ دوں گا۔70 روپیہ تو ہوگئے ہیں‘دوروپیہ ڈھونڈ رہا ہوں۔لیجئے سر‘مل گئے۔سر میری ممی کہتی ہے کہ اپنے پانچ روپیہ چھوڑ دینا مگر کسٹمر کے دوروپیہ مت رکھنا۔۔۔اس دوران مجھے احمد آباد کے سدی سید مسجد کے مسلم علاقہ کا وہ 17 سالہ قریشی بچہ یاد آگیا جو 12 لاکھ کی ہارلے ڈیوڈسن بائیک شوں شاں کرتے ہوئے چلاتا پھر رہاتھا۔۔۔۔
میں نے کہا کہ آکاش تم واقعی بچے نہیں ہو۔میں تو تمہیں اب تک بچہ ہی سمجھ کر بات کرتا رہا۔تم تو بڑے بڑوں سے بھی بڑے نکلے۔جیتے رہو۔میں آخری جملہ کہتے ہوئے گاڑی سے اترکرچلنے لگا۔آکاش کی آواز آئی۔سر‘ایک بات پوچھ سکتا ہوں۔۔۔؟۔ہاں ضرور۔۔۔۔سرGPSپرآپ کی لوکیشن تو ایک کلو میٹر اندرکی آرہی تھی‘مگر آپ نے مجھے باہر بلایا۔۔۔۔ میں نے کہا کہ اندربہت بھیڑ رہتی ہے۔میں جب OLA یا Uber بلاتا ہوں تو خود ہی باہر آجاتا ہوں۔ڈرائیور کو اندر بہت پریشانی ہوتی ہے۔اتنا کہہ کر میں چلنے لگا۔
اچانک ایک بچہ میرے آگے آیا اور ہاتھ جوڑ کرپاؤں پکڑنے لگا۔میں نے بمشکل اس کا سراوپر اٹھایا۔کہنے لگا کہ سر‘مجھے اکثر اسی علاقے میں ڈیوٹی ملتی ہے۔۔۔نوئیڈا سے نکلتے ہی گوگل مجھے اوکھلا' ذاکر نگر اور بٹلہ ہاؤس کے کسٹمر ہی کیچ کراتا ہے۔۔۔سر لوگ اپنے دروازہ تک ہی بلاتے ہیں۔۔۔کتنی ہی بھیڑ ہو اور کتنا ہی جام ہو۔۔۔آپ جیسے تو بہت کم ہیں سر۔۔۔ سر کبھی کبھی تو بہت غصہ آتا ہے۔۔۔لوگ برا بھلا کہتے ہیں ۔۔۔چھوٹا دیکھ کر ابے تبے سے بات کرتے ہیں ۔۔۔
میں چپ رہا۔۔۔بولنے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں ۔۔۔شب وروز جو کچھ دیکھتا ہوں وہ اُس سے بھی زیادہ ہے جو آکاش نے بتایا تھا۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment