سپین کے ایک شہر کے سمندر کے نزدیک واقع دکان پر ایک جرمن معمر جوڑا جو چھٹیاں گزارنے اس جزیرہ پر آیا ہوا تھا،،کچھ خریداری کے لیئے میرے پاس آیا ۔انکے ساتھ 14،15 سال کی ایک بچی بھی تھی۔ان بزرگوں نے اپنے لیئے تو کچھ نہ خریدا لیکن بچی کو وہ مختلف چیزیں دکھاتے رہے ۔میں نے سوچا کہ چند منٹ ان کو خود تسلی آرام سے سوچنے اور فیصلہ کا موقع دوں تا کہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ کچھ دیر بعد میں نے ان سے خریداری کے سلسلے میں ان کی مدد کرنے کا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی اس پوتی کے لیئے پرس خریدنا ہے۔بچی کو چند پرس دکھائے۔
بالآخر بچی نے اپنے لیئے ایک پرس پسند کیا۔۔۔۔
اکثریت جرمن لوگ اپنی زبان میں گفتگو کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔حالانکہ ماسوائے 10 فیصد کے سب انگلش سمجھتے بھی ہیں اور بہت مجبوری میں بول بھی لیتے ہیں۔چونکہ مجھے جرمن کے 2۔۔4 الفاظ کے علاوہ جرمن زبان نہیں آتی لہذا میں انگلش میں ہی سیاحوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ میں نے ان سے چند رسمی کاروباری جملے بولے۔جرمن جوڑا تو انگلش اچھی سمجھتے بولتے تھے لیکن بچی سے وہ جرمن زبان میں کچھ پوچھ کر مجھے ترجمہ کر کے بتاتے۔میں نے دریافت کیا کہ آپ تو بہت اچھی انگلش جانتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ بچی نہیں جانتی؟
انھوں نے بتایا کہ اگر آپ عربی بول سکتے ہیں تو آپ اس سے
عربی میں بات کر سکتے ہیں۔مجھے بہت حیرانی ہوئی۔پوچھا آپ جرمن اور اس بچی کو اپ نے انگلش کے بجائے عربی سکھائی؟کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔(چونکہ میں تو اس بچی کو ان کی پوتی سمجھ رہا تھا )
ایسا لگ رہا تھا کہ میرا سوال ان کے لیئے بھی مشکل تھا۔دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا اورکچھ ہچکچاہٹ کے بعد مجھے جواب دیا۔۔
جو جواب انھوں نے دیا۔اس نے مجھے حیران بھی کیا اور ان کے لیئے میرے دل میں عزت تکریم میں بھی اضافہ ہوا۔
انکے جزبہ انسانیت سے متاثر ہو کر ان کی مرضی سے انکی تصویر لی اور پھر اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے کی بھی اجازت حاصل کی۔۔
انکا جواب تھا۔۔یہ بچی مسلمان اور شامی ہے۔۔شام کے اپنے ملک سے ہزاروں دربدر خاندانوں میں سے ایک خاندان کی یہ بھی بچی ہے اور ہم نے اسکو اسکی مصیبت پریشانی میں مدد کے نکتہ نظر سے Adopt کیا ہے یعنی اب اسکی پرورش تعلیم اور ضروریات زندگی کی ذمہ داری مستقل طور پر ہمارے ذمہ ہے۔اور ہم اسکے ساتھ بہت خوش اور مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں آنے کا کچھ فائدہ ہوا یا ہماری قیمتی خوبصورت زندگی کا ایک قرض ادا ہو گیا (اور آپ شائد جانتے ہوں کہ جرمن پوری دنیا میں واحد ملک ہے یا شائد واحد غیر مسلم ملک جس نے بہت بڑی تعداد میں شامیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔)
صرف یہ اس ایک جوڑے کی بات نہیں جرمنی میں لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے شامی مہاجرین کے لیئے کھول دیئے ۔
یہاں مجھے جرمن چانسلر انجیلا مارکل کی وہ بات شدت سے یاد آ رہی ہے جو اس نے سعودی بادشاہ کے اس بیان کے جواب میں کہی جس میں "عالی جاہ " نے فرمایا کہ ہم شامی مسلمانوں کو جرمنی میں 200 مساجد بناکر دیں گے۔انجیلا کا جواب تاریخ کی کتابوں کے۔نمایاں باب میں درج ہو گا۔۔اس نے جواب میں کہا:
"سعودیہ شامیوں کے لیئے جرمنی سے زیادہ نزدیک تھا۔شامیوں کو مشکل وقت میں مساجد کی نہیں ہمدردی پناہ اور خوراک کی ضرورت تھی جرمنی نے شامیوں کے لیئے بانہیں پھیلائیں۔اگر جرمنی انکی خوراک رہائش
تعلیم صحت کی سہولیات کا بندوبست کر سکتا ہے تو مستقبل میں مساجد بنانا بھی کوئی مشکل نہیں
انسانیت کا درد رکھ کر جئیں۔اور اپنے آس پاس رنگ و نسل قوم اور مذہب مسلک کی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر ضرورتمند کے لیئے جتنا آپ کے اختیار میں ہے وہ ضرور کریں
تحریر ولائیت حسین اعوان بارسلونا سپین۔
0 comments:
Post a Comment