کوئی مظلوم گر بولے تو منہ پر ہاتھ رکھ دینا
غموں کی داستاں کھولے تو منہ پر ہاتھ رکھ دینا
یہاں انصاف بے معنی یہاں ظالم پنپتے ہیں
بکاؤ ہیں یہاں منصف سرِ بازار بکتے ہیں
یہاں قاتل کے ہاتھوں میں زمامِ کار ہوتی ہے
یہاں مظلوم کی گردن پہ ہی تلوار ہوتی ہے
یہاں پر عدل کا میزان بھی ظالم پہ جھکتا ہے
سزا مظلوم ہی ظالم کی یاں اکثر بھگتتا ہے
یہاں مظلوم پر ہی سینکڑوں الزام ہوتے ہیں
جو دنیا نے نہیں دیکھے یہاں وہ کام ہوتے ہیں
یہاں پر خون ریزی کا بھی اک کردار ہوتا ہے
جو ہے سب سے بڑا قاتل وہی سردار ہوتا ہے
یہاں مظلوم کی آواز کو اکثر دباتے ہیں
کہیں پر قتل کرتے ہیں کہیں زندہ جلاتے ہیں
یہاں دیدہ وروں کو عقل کے بیمار کہتے ہیں
جو ہوتے ہیں کسی قابل انھیں بیکار کہتے ہیں
یہاں پر اہل سیاست چین سے جینے نہیں دیتے
محبت پیار کی برکھا یہاں گرنے نہیں دیتے
یہ ہم وطنوں کے سینوں میں عداوت روز بھرتے ہیں
زباں ہے اتنی زہریلی کہ کالے ناگ ڈرتے ہیں
یہاں پر اپنا حق بھی مانگنا جرم عدالت ہے
یہاں پیشہ ورانہ جاہلوں کی ہی وکالت ہے
یہاں بہنوں کے آنچل کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
یہاں اب ماؤں کی ممتا کی بھی وقعت نہیں ہوتی
یہاں جمہوریت اکثر غلامی میں بدلتی ہے
یہاں مظلوم پر بے خوف ہو کے گولی چلتی ہے
یہاں ڈاکو بھی دیکھو قوم کے معمار ہوتے ہیں
یہاں وہ بھی لٹیرے ہیں جو پہرے دار ہوتے ہیں
یہاں اکثر یتیموں کے نوالے چھینے جاتے ہیں
گھروں پر مار کر تالا حوالے چھینے جاتے ہیں
یہاں بیواؤں کی مجبوریوں کے دام لگتے ہیں
امیروں کو ہوس کے نام پر انعام ملتے ہیں
یہاں حوا کی بیٹی پر ہوس کے وار ہوتے ہیں
یہاں ناموس کے سودے سر ِ بازار ہوتے ہیں
غریبوں کی یہ حالت ہے کہ روٹی کو ترستے ہیں
یہاں انسان بھوکے ہیں مگر حیوان پُجتے ہیں
حکومت جب غریبوں کی حمایت چھوڑ دیتی ہے
تو پھر انسانیت فٹ پاتھ پر دم توڑ دیتی ہے
یہاں دیر وحرم بھی زیرِ احکام سیاست ہیں
یہاں ریشی منی ملا میں بھی کیا کیا وعداوت ہیں!
یہاں اب کیسے رہنا ہے کوئی آخر یہ بتلا دے ؟
ستم کب تک یہ سہنا ہے کوئی آخر یہ بتلا دے ؟
فضا مسموم ہے شام وسحر کچھ سوچ کر بولو
یہ ہندستان ہے جاناں ثمر کچھ سوچ کر بولو!
______ثمریاب ثمر_____
0 comments:
Post a Comment