اریخ کے آٸینے میں ایودھیا تنازعہ

ت
1528 میں ایسامانا جاتا ہے کے ایودھیا میں مسجد کی تعمیر مغل شہنشاہ بابر کے گورنر میر تقی نے کرواٸ تھی اس کی وجہ یہ بابری مسجد کے نام سے جانی جاتی تھی 
1853 میں اس تاریخ کا ذکر سپریم کورٹ میں بحث کے  دوران  کیا گیا تھا کہ سب سے پہلے اس متنازع مقام کو لیکر فرقہ وارانہ فسا دات ہوۓ تہے  برطانوی حکمرانوں نے متنازع مقام پر خار بندی کر دی تھی اور احاطے کی اندرو نی حصے میں مسلمانوں کو اور بیرونی حصے میں ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی 
1885 میں نرموہی  اکھاڑے کے مہنت رگھوورداس نے رام چبوترے پر مندر کی تعمیر کی اجازت کے لیے مقدمہ کیا  اور عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ چبوترے پر مندر بنانے کی اجازت دی جاے یہ مطالبہ مسترد ہو گیا تھا 
1946 میں مسجد شیعوں کی یا سنی کی اس بات پر تنازعہ کھڑاہوا بعد میں یہ فیصلہ ہوا کے اگر بابر سنی ہے تو مسجد سنی کا ہے اور اگر شیعہ ہے تو مسجد شیعوں کا ہے 
1949 میں جولاٸ میں ریاستی حکومت نے مسجد کے باہر رام چبوترے پر رام مندر بنانے کے کوشش شروع کی لیکن یہ بھی ناکام رہی 22 یا 23 دسمبر 1949 کی آدھی رات کو مسجد میں رام سیتا اور لکشمن کی مورتیاں رکھ دی گٸیں اس کے بعد 29 دسمبر کو یہ متنازعہ ملکیت فرق کر لی گٸ 
 1950 میں گوپال داس نے 16 جنوری کو عدالت سے رجوع کیا اس کی دلیل تھی کہ مورتیاں وہاں سے نہ ھٹیں اور پوجا بلاروک ٹوک ہو نچلی عدالت نے کہاتھا کے مورتیا نہیں ھٹیں گی لیکن تالا بند رہے گا اور پو جا صرف پوجاری کرے گا عوام باہر سے درشن کرے گی 
1959 میں نرموہی اکھاڑا عدالت پہونچا سیوادار کے ناطے متنازعہ زمین پر اپنا دعوی پیش کیا 
1961 میں سنی سینٹرل وقف بورڈ نے عدالت میں مسجد کا دعوی پیش کیا تھا
1986 میں یکم فروری کو فیض آباد کے ضلع جج نے جنم بھومی کا تالا کھلواکر پو جا کی اجازت دے دی 
1986 میں ہاٸ کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنانے کا فیصلے ہوا تھا 
وشو ہندو پریشد لیڈر یوکے نندن اگروال نے رام للا کی جانب سے مندر کے دعوے کا مقدمہ کیا 
1989نومبر  میں مسجد سے تھوڑی دوری پر رام مندر کا بنیاد رکھا گیا 
 1990 میں 25ستمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینٸر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے ایو دھیا تک کی رتھ یاترا شروع کیا اس سے ایودھیا میں رام مندر بنوانے کو لے کر ایک جذبہ پیدا کیا گیا جس کے نتیجے میں گجرات کرناٹک اتر پر دیش اور آندھرا پر دیش میں فسادات بھڑک گٸے کٸ علاقے کرفیو کی زد میں آگۓ لیکن اڈوانی کو 23 اکتوبر کو بہار کے اس وقت کے وزیراعلی لالو یادو نے گرفتار کروا دیا تھا 
1990. 30 اکتوبر کو ایودھیا میں رام جنم بھومی تحریک  کے لیے پہلی کار سیوا ہوٸ تھی کار سیکوں نے مسجد پر چڑھ کر پر چم لہرایا تھا اس کے بعد فسادات بھڑک گٸۓ  
1991 میں جون عام انتخاب ہوے اور اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بنی تھی 
1992 30, 31 اکتوبر کو دھرم سنسد میں کارسیو کا اعلان ہوا 
1992 نومبر میں ریاست کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ نے عدالت میں مسجد کی حفاظت کرنے کا حلف نامہ داٸر کیا تھا  
1992 .6 دسمبر کو کارسیو کوں نے بابری مسجد مسمار کر دی تھی کار سیوک 11بج کر 50 منٹ مسجد کے گنبد پر چڑھے تقریبا 4 بجکر 30 منٹ پر مسجد کا تیسرا گنبدبھی گر گیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں ہندو مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے .
2002  جنوری میں ایودھیا تنازعہ سلجھانے کےلیے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپٸ نے ایودھیا کمیٹی تشکیل دی وشو ہندو پریشد نے نے 15 مارچ سے رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کرنے کا اعلان کر دیا 
2003 میں الہ باد ہاٸ کورٹ متنازمقام پر کھداٸ کرواٸ تاکے پتہ چل سکے کہ کیا وہاں کوٸ رام مندر تھا جون ماہ تک کھداٸ چلنے کے بعد آٸ رپورٹ میں کہاگیا ہے اس میں مندر سے مشابہت باقیادت ملی ہے 
2003مٸ میں سی بی آٸنے 1992 ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کۓ جانے کے معاملے میں ناٸب وزیر اعظم کرشن اڈوانی سمیت آلوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کیے 
2004 اپریل میں اڈوانی نے ایودھیا میں عارضی رام مندر میں پوجا کی اور کہا کے مندر کی تعمیر ضرور کی جاے گی 
2005جنوری میں لال کرشن اڈوانی کو ایو دھیا میں چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام میں ان کے مبینہ کردار کے معاملے میں طلب کیا گیا اسی برس ایو دھیا کے رام جنم بھومی احاطے میں دہشت گردانہ حملے ہوے جس میں پانچوں دہشت گردوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگیے 
2006 .20. اپریل کو کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے لبراہن کمیشن کے سامنے تحریری بیان میں الزام عاٸد کیا کے بابری مسجد کو مسمار کرنا منصوبہ سازش کا حصہ تھا اور اس میں بی جے پی ،آر ایس ایس بجرنگ دل اور شیو سینا کی ملی بھگت تھی اس وقت حکومت نے ایودھیا میں متنازعہ مقام پر بنے عاضی رام مندر کی حفاظت کے لیے بلٹ پروف کانچ کا گھیرا بناے جانے کی تجویز کی اس تجویز کو مسلم فریق نے یہ کہتے ہوے مخالفت کی کہ ایسا کرنا عدالت کے اس حکم کے خلاف ہے جس میں سابق حالات بر قرار رکھنے کی ہدایت دی گٸ تھی 
2009 .30 .جون کو بابری مسجد منہدم کرنے کے معاملے کی جانچ کے لیے قاٸم لبراہن کمیشن نے 17 برس کے بعد رپورٹ اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو سونپی 
2009 .24 .نومبر کو لبراہن کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی کمیشن نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری اور میڈیا کو مورد الزام ٹھرایا اور سابق وزیراعظم پی وی نرسمہاراٶ کو کلین چٹ دی 
2010 .26 .جولاٸ کو رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعہ پر سماعت پوری ہوٸ  
2010 .30 .ستمبر کو الہ باد ہاٸ کورٹ کی لکھنو پنچ نے ایو دھیا میں متنازعہ اراضی کو رام للا براجمان نرموہی اکھاڑا اور سنی وقف بورڈ میں برابر تقسیم کر نے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف عدالت میں 14 خصوصی عرضیاں داٸر کی گٸیں 
2011 .9 .مٸی کو سپریم کورٹ نے الہ باد ہاٸ کورٹ کے لکھنو پنچ  کے فیصلے پر روک لگائی -
2017 .21 .مارچ  کو رام جنم بھومی بابری مسجد تنازع پر سپریم کورٹ نے ثالثی کی پیشکش کی اس وقت کے چیف جسٹس جے ایس کھیڑا نے کہا کہ اگر دونوں فریق راضی ہوں تو وہ کورٹ کے باہر ثالثی کر نے کو تیار ہیں.
2017 .11 .اگست کو سپریم کورٹ میں معاملے کی سماعت شروع _ 
2018 .8 فروری کو اہم فریقین کو پہلے سنے جانے کا فیصلہ  
2018 .27 ستمبر کو اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے تین رکنی پنچ نے 1..2 .کی اکثریت سے 1994 کے ایک فیصلے میں کیے گٸے تبصرہ کو پانچ ججوں کی پنچ کے پاس از سر نو غور کے لیے مسجد لازمی ہے یا نہیں اسے آٸینی بینچ کے پاس بھیجا جاے یا نہیں 
2019 .26 .فر وری کو سپریم کورٹ نے معاملے میں ثالثی کے ذریعے تنازعہ  حل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر مفاہمت کا ایک فیصد بھی امکان ہے تو ثالثی ہو نی چاہیے 
2019 .6 .مارچ کو مسلم فریق ثالثی کے لیے تیار ہوے ہندو مہاسبھا اور رام للا فریق نے اعتراض درج کرواے 
2019 .8 مارچ کو سپریم کورٹ نے اپنے ریٹائرڈ جج ایف ایم آٸ کلیف اللہکی صدارت میں ثالثی کمیٹی قاٸم کی جس میں آرٹ آف لیونگ کے بانی شری شری روی شنکر اور ثالثی معاملے کی جانے مانے وکیل رام پنچو بھی رکن تھے  
2019 .2 .اگست کو ثالثی کمیٹی نے رپورٹ سونپی اور کہا کے ثالثی بے نتیجہ رہی ہے اس کے بعد سپریم کورٹ نے چھ اگست سے روز مرہ کی بنیاد پر معاملے کی سماعت کا فیصلہ کیا 
 2019 6 .اگست کو سپریم کورٹ میں ایودھیا معاملے کی روزانہ سماعت شروع ہوٸ 
2019 16 .اکتوبر کو چالیس دن تک جاری رہی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا 
2019 .9 .نومبر کو سپریم کورٹ نے سنا یا فیصلہ  
یہ ہے بابری مسجد کی تاریخی واقعات عقل مند دانشور حضرات خود اس کو پڑھ اندازہ لگالے کے کس کے حق میں فیصلہ ہوناچاہیے  اور فیصلہ کیا ہو یہ تو آپ حضرات خوب اچھی طرح سے واقف ہیں ; فقط وا لسلام 
منجانب 
محمد احسان الحق صدیقی الحنفی
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

1 comments:

  1. We are urgently in need of Kidney donors with the sum of $500,000.00 USD,(3 crore) All donors are to reply via Email: healthc976@gmail.com
    Call or whatsapp +91 9945317569

    ReplyDelete