سعودی لیڈی ڈاکٹر قصہ سناتی ہیں کہ وہ رات گئے کا وقت تھا، شہر سارا نیند کی آغوش میں تھا۔ اس رات ایمرجنسی میں میری ڈیوٹی تھی ایک تیس سالہ خوبرو جوان ایک عمر رسیدہ خاتون کو پیٹھ میں اٹھائے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ میں اپنی کرسی سے اٹھ گئی، اس بزرگ خاتون کو کرسی میں بٹھانے میں اس جوان کی مدد کی۔ وہ عمر رسیدہ خاتون کرسی پر بیٹھتے ہی اس نوجوان پر چیخنے لگی، اپنی چادر کے پلوں سے اسے مارنے لگی، اس کے
چہرے پر تھوکنے لگی پھر خود ہی روتے ہوئے اسے پکڑ کر
اپنے سینے سے لگایا اور دیر تک پکڑے رکھا۔ میں نے حیرت کے عالم میں اس جوان سے پوچھا کہ :
" یہ ماجرہ کیا ہے... ؟ "
وہ کہنے لگا کہ :
" یہ میری ماں جی ہیں ان کا شوگر لیول بہت ہائی ہوا ہے یہ بہت تکلیف میں ہے ... "
میں اسے چیک کرنے لگی اس خاتون نے دوبارہ وہی حرکتیں شروع کر دی، گالیاں، چیخنا اور جوان کے چہرے پر تھوکنا۔ وہ جوان مسکراتے ہوئے اس کے لئے دعائیں کرتا رہا۔۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا کہ :
" آپ مجھے بتائیں کہ آخر قصہ کیا ہے ؟ "
کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ گویا ہوا کہ :
" میرے والد نے کئی شادیاں کیں لیکن اولاد انہیں نصیب نہ ہوئی، حالت یہ تھی کہ مزید کوئی عورت میرے والد سے شادی کے لئے راضی نہ تھی۔ میرے دادے کی نظر میری والدہ پر پڑی جو کہ پیدائشی طور پر عقل کی نعمت سے محروم تھی۔ دادا اور والد نے مشورہ کیا کہ شاید اس خاتون سے اولاد ہو، چنانچہ طے یہ ہوا کہ بیٹا یا بیٹی ہونے کے بعد میرا والد اس پاگل عورت کو طلاق دے گا۔ شادی کے پہلے سال ہی میری ولادت ہوئی اور سال کے اندر ہی میری والدہ کو طلاق۔ دس سال کی عمر تک میں والدہ کے بغیر پروش پاتا رہا، گھر میں دولت کی ریل پیل تھی لیکن میں پل پل ممتا کے لئے ترس رہا تھا پھر ایک دن مجھے والدہ کا پتا مل گیا تب سے اب تک بیس سال گزر گئے، میں ایک گمنام قصبے میں اپنی ماں کے ہمراہ زندگی گزار رہا ہوں، بےنامی اور گمنامی کی زندگی۔ رات کو سوتے وقت میں ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دے کر سوتا ہوں کہ کہیں یہ اٹھ کر دور کہیں نہ نکل جائے۔ یہ مجھ پر چیختی بھی ہے، غصہ بھی ہوتی ہے، اور جو چیز ہاتھ لگے اسے اٹھا کر مجھے مارتی بھی ہے اور پھر مجھے سینے سے لگا کر دیر تک پیار بھی کرتی ہے ... "
میں نے اس جوان سے پوچھا کہ :
“ کیا یہ جانتی ہے کہ آپ اس کے بیٹے ہو ...؟ "
جوان کہنے لگا :
" نہیں! لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ یہ میری ماں ہے، ان کا غصہ ان کا مار ان کی ڈانٹ اب ان چیزوں کو ہی میں ماں کا پیار سمجھتا ہوں ان کے قریب رہ کر میری ساری تھکن اتر جاتی ہے ... "
عزیز قارئین کرام! مقصود یہ کہ کیا مجھ گناہ گار و بےعمل کمال
سمیت ہم تمام لوگ بھی اپنی اپنی ماں کا عزت و تکریم اور عاجزی و انکساری سے حق (بلکہ بحثیت اولاد و بنات اپنا فرض) نبھا رہے ہیں ...؟
میرے پیارو! اس سوال کا جواب ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرتے ہوئے تنہائی میں خود کو دینا چاہیے ...
اللہ تعالٰی مجھ ناعاقبت اندیش سمیت ہم تمام کو اپنے والدین کا فرمانبردار و تابعدار بتاتے ہوئے تاعمر ان کی خدمت کی سعادت عطا فرماتے ہوئے تاحیات عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے آمین ثمہ آمیــــــــــــــن یارب العالمین ...
0 comments:
Post a Comment