خلفاء بنو عباس میں سے ایک خلیفہ نے اپنے زمانہ کے بعض علماء سے یہ خواہش کی کہ آپ کچھ ایسے اہم اور موثر واقعات لکھ بھیجئے جنہیں آپ نے خود دیکھا ہو یا سنا یا پڑھا ہو۔ اس خواہش کی تکمیل میں ایک عمر رسیدہ عالم نے لکھا کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو دیکھا ہے۔ جب یہ مرض موت میں مبتلا تھے تو کسی نے کہا امیر المومنین آپ نے اس مال کو اپنے بیٹوں سے دور رکھا ہے، یہ فقیر و بے نوا ہیں، کچھ تو ان کے لیے چھوڑنا چاہئے تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹوں کو بلایا جن کی تعداد دس تھی، جب یہ حاضر ہوئےتو رونے لگے پھر مخاطب ہو کر فرمایا میرے بیٹو! جو تمہارا حق تھا وہ میں نے تم کو پورا پورا دے دیا ہے کسی کو محروم نہیں رکھا اور لوگوں کا مال تم کو دے نہیں سکتا، تم میں سے ہر ایک کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ صالح ہوگا تو اللہ تعالی صالح بندوں کا والی اور مددگار ہے، یا غیر صالح ہوگا اور غیر صالح کے لیے میں کچھ چھوڑنا نہیں چاہتا کہ وہ اس مال کے ذریعہ اللہ تعالی کی معصیت میں مبتلا ہوگا۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا قوموا عني (بس تم سب جاو اتنا ہی کہنا چاہتا تھا)۔
عالم نے لکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بڑے فرماں روا اور ایک وسیع مملکت کے مالک تھے، اس کے با وجود ان کی اولاد کو ان کے ترکہ میں سے بیس بیس درہم سے بھی کم ملے لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ ان کے یہ لڑکے سو سو گھوڑے فی سبیل اللہ دیتے تھے تاکہ مجاہدین اسلام ان پر سوار ہوکر جہاد کریں۔ عالم نے اس کے بعد لکھا کہ میں نے اس کے بر عکس بعض ایسے فرماں رواوں کو بھی دیکھا ہے کہ جنہوں نے اپنا ترکہ اتنا چھوڑا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد جب لڑکوں نے باہم تقسیم کیا تو ہر ایک حصہ میں چھ چھ کروڑ اشرفیاں آئی تھیں لیکن میں نے ان لڑکوں میں سے بعض کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لوگوں کے سامنے بھیک مانگا کرتے تھے۔
یہ ایک نہایت سبق آموز واقعہ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ والدین کے لیے اولاد کے سلسلہ میں نہایت مالدار یا غیر مالدار بنانے کا اہم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں صالح بنایا جائے، صالح بندوں کی امداد اور حمایت کا وعدہ خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے لڑکوں کو والد کے ترکہ (میراث) سے صرف بیس بیس درہم ہاتھ لگے تھے لیکن چونکہ لڑکے صالح تھے، اللہ نے ان کو بہت کچھ عطا فرمایا اور وہ بھی اللہ کے راستہ میں جی کھول کر دینے لگے۔ دوسری طرف بعض خلفاء عباسیہ چھ چھ کروڑ اشرفیاں اپنے لڑکوں کے لیے ترکہ میں چھوڑ گئے تھے لیکن بد عملی کی پاداش میں انہیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھانی پڑی۔
پس کتنے والدین ہیں جو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور ان کے سامنے اہم مسئلہ اولاد کو صالح بنانے کا ہو اور اس سلسلہ میں وہ سارے جتن کرتے ہوں جو انہیں کرنے چاہئیں۔
Pages
▼
No comments:
Post a Comment