*امریکہ طالبان اور مستقبل کی دنیا*


خراسان کا لشکر؟؟؟
2023 کی دنیا کا نیا نقشہ؟؟؟
  _اسماعیل کرخی_

یہ ایک معلوماتی اور تجزیاتی نگارش ہے اس سے کسی طبقہ کو نیچا دکھانا یا کسی کی بڑائی مقصود نہیں اور نہ ہی اسے کسی نظریہ کے تحت لکھا جارہا ہے، بلکہ یہ تاریخی کڑیوں سے ملتے ملاتے حالات حاضرہ تک کی رپورٹ ہے جس کے تحت مستقبل میں درپیش واقعات کا نی نشاندہی کی جاسکتی ہے، ہر شخص کو حق ہے کہ اس تحریر اور اس میں شامل اجزا سے اتفاق یا اختلاف راے کرے، تاہم راقم کی نظر میں بہتر یہ ہے کہ کچھ لکھنے سے قبل اپنے مضمون کو چند سوالات اور نکات کے ذریعہ شروع کرے تاکہ قارئین سہولت کے ساتھ مضمون کی تکمیل کرسکیں.

* طالبان امریکہ جنگ سے قبل  ایک منظر
* طالبان کون ہیں؟
* طالبان کی حکومت افغانستان پر
* طالبان سے امریکہ کی لڑائی کب سے اور کیوں؟
* جنگی اخراجات اور اموات
* طالبان عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں
* طالبان کی کی لڑائی ملکی یا عالمی؟
* جب امریکہ جنگ ہارنے لگا.
* امریکی فوجیوں کا انخلا.
* صلح کی میز پر
* سعودی عرب اور پاکستان کا مستقبل
* اسرائیلی ایجنڈا
* مستقبل کے حالات
.......................

* طالبان امریکہ جنگ سے قبل ایک منظر

انقلاب ثور کے بعد 27 ﺍﭘﺮﯾﻞ 1978 افغانستان باقاعدہ سرحدی طور پر تسلیم کیا گیا، اور اس انقلاب کا سبب سویت یونین کا پھیلاؤ تھا، لہذا افغانستان میں بھی سویت یونین کے اثرات ظاہر ہوے، جس سے امریکی حکام نے اپنے لئے خطرہ محسوس کیا چونکہ روس کی تجارتی یا معاشی سرگرمیاں اور اسکے تسلط کا پھیلاؤ امریکہ کو سپر پاور بننے سے روک سکتا تھا یا وسطی ایشیا میں اسکے لئے خطرہ بن سکتا تھا، دوسری طرف افغانستان میں مذہبی ذہنیت کے حاملین کو روس سے سخت نفرت پیدا ہوئی، موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوے امریکہ کی خفیہ تنظیم سی آئی اے، نے افغان شہریوں کو تربیت دینی شروع کی، چونکہ روس نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور عسکری لحاظ سے بھی افغانستان پر قابو پاچکا تھا لہذا افغان فوج جو در اصل روس کی پروردہ تھی(جس طرح ابھی امریکہ کے زیر سایہ ہے) اور وہاں کے مقامی طبقات کے مابین نفرتیں بڑھنے لگیں اور معاملہ ہاتھا پائی اور جھڑپوں سے بڑھ کر جنگ کی صورت اختیار کرگیا، چنانچہ روس کی جانب سے افغانستان پر فوجی چڑھائی بھی کی گئی جس کی مخالفت کرتے ہوے 34 اسلامی ممالک نے افغانستان کے حق میں روسی جارحیت کے خلاف قراردادیں پاس کیں اور اسے غیر انسانی عمل بتایا، اور پھر عالمی پیمانے پر افغانی عوام کی مدد کی گئی جس میں امریکہ سمیت سعودی عرب، پاکستان اور چین نے کھل کر زبانی بیان جاری کیا مزید امریکی و پاکستانی خفیہ اداروں (سی آئی اے اور آئی ایس آئی) نے مدد فراہم کی اگرچہ یہ امداد فوج کے ذریعے نہیں تھی لیکن انکی حمایت اور مالی امداد کے علاوہ انکی جسمانی تربیت بھی تھی، چونکہ لڑنے والوں کی اکثریت مذہبی تھی لہذا انہیں مجاہدین کہا گیا اور ساری دنیا نے انہیں جانباز اور جرأت مند کا لقب دیا، دراصل انہوں نے 9 سال مسلسل لڑائی لڑی جس سے روس کی کمر ٹوٹ گئی اور سویت یونین کی ہوا ساری دنیا سے نکل گئی، جبکہ روس کے زیر اثر کئی مسلم اکثریتی علاقے آزاد ہوئے جن میں قازقستان، ازبکستان، تاجسکتان اور کرغزستان کے علاوہ کئی مسلم ممالک شامل ہیں، کہا جاتا ہے کہ افغان مجاہدین نے تقریباً 20 کروڑ انسانوں کو روس سے آزاد کروایا. یاد رہے سویت اتحاد دو کروڑ جوبیس لاکھ مربع کلو میٹر پر اپنا اثر رکھنے کے ساتھ ساتھ سپر پاور بھی تھا، جو 1989 میں افعان مجاہدین کے سامنے بکھر گیا. لہذا عالمی منظر نامے پر امریکہ واحد سپر پاور کی شکل میں سامنے آیا...

* طالبان کون ہیں؟
جنگ تو مجاہدین نے جیت لی لیکن اب یہاں حکومت کی دوڑ شروع ہوئی چونکہ اس جنگ میں تمام مجاہدین (سنی و شیعہ) مذہبی اور غیر مذہبی سب ساتھ تھے لہذا ہر کسی کو یہ گمان تھا کہ حکومت کا مستحق اسی کا گروہ ہے، چنانچہ جس اتحادی جماعت کے پاس صرف 100 مجاہد تھے وہ بھی اس دوڑ میں کود پڑی لہذا ہر طرف خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی لیکن 1990 سے 1994 تک کی جد و جہد کے بعد افغان مجاہدین کی سب سے بڑی، متحد اور منظم جماعت ابھر کر سامنے آئی جسنے غلبہ حاصل کرلیا، اور تحریک اسلامی طالبان کے نام سے مشہور ہوئی، یوں بھی یہ افغان جہاد میں کلیدی کردار ادا کرچکے تھی لیکن حقیقتاً اس تحریک کے افراد طلبہء مدارس تھے جن کے استاذ ملا عمر تھے، جنہوں نے خانہ جنگی کو روکنے کے لئے مدارس کے طلبہ کو متحد کیا، اور انہیں تربیت دی، ملا عمر کا ماننا تھا کہ ملک میں امن کی پہلی شرط اتحاد ہے لہذا متحد ہوکر انکے خلاف لڑا جاے جو خانہ جنگی کو فروغ دیتے ہیں، ملا عمر کی دعوت پر پہلے سات طلبہ نے لبیک کہا پھر دھیرے دھیرے اکثر مجاہدین ان کے اتحادی بن گئے امریکی اخبار council foreign relation کے مطابق "90  فیصد سے زیادہ زمین ان کے قبضہ میں آگئی اور 1995 کے أواخر میں انہوں نے باقاعدہ اسلامی شریعت کی بنیادوں پر اپنی حکومت قائم کرلی جسے امارت اسلامیہ افغانستان کا نام دیا گیا اور بطور خلفیہ عظیم کمانڈر ملا محمد عمر کا انتخاب کیا گیا."

* طالبان کی حکومت افغانستان پر
طالبان نے 1995 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی، اس ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺮﯾﻒ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق "ﺍﮔﺮ افغانستان کو ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﯽ ﺑﺮﻭﻗﺖ ﻓﺮﺍﮨﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺍﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻟﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ حکومت ﻋﻼﻗﻮﮞ کی ﺷﺎﮨﺮﺍﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﻮﺳﺖ (منشیات) ﮐﯽ ﮐﺎﺷﺖ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ جبکہ ﺗﻤﺎﻡ ﻏﯿﺮ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﭨﯿﮑﺲ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﮕﯿﺎﮞ اور بھتے ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩیئے گئے ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺁﻣﺪﺭﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ،. ﯾﻮﻭﻭﻥ ﺭﮈﻟﮯ ﻧﺎﻣﯽ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺻﺤﺎﻓﯽ جو ایک مدت تک طالبان کی قید میں رہیں ان سے  اسقدر متأثر ہوئیں کہ اسلام قبول کرلیا اور ہر موقع پر طالبان کی پرزور حمایت کی اور عالمی میڈیا کے سامنے انکا دفاع کیا، جبکہ اکثر یوری صحافیوں کے مطابق طالبان عورتوں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتے تھے، یہ حقیقت ہے کہ اب بھی طالبان غیر مشروط مخلوط تعلیمی نظام کو سختی سے رد کرتے ہیں اور گھر سے بلاضرورت یا بے پردہ خواتین کا نکلنا برا سمجھتے ہیں جسے یورپ اور امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک جیسے روس چین اور ہند و پاک مین بھی حقوق انسانی کے خلاف تصور کیا جاتا ہے.

* طالبان سے امریکہ کی لڑائی کب سے اور کیوں؟
ابھی طالبان اپنے ملک کو منظم کرنے اور اسے ترقی دینے کی راہیں ہموار کر رہے تھے اور امریکہ کے علاوہ اپنے پڑوسی ملکوں سے معاہدات کرنے میں لگے تھے کہ اچانک 1998 میں مشرقی افریقہ میں قائم امریکی سفارت خانے پر حملے کی واردات کا معاملہ میڈیا پر دکھائی دینے لگا جس کا الزام القاعدہ نامی جماعت پر ڈالا گیا اور چند ویڈیوز بھی منظر عام پر لاے گئے، چنانچہ امریکی تحقیقاتی ادارہ Federal Bureau of Investigation نے کہا کہ طالبان القاعدہ پر پابندی عائد کریں اور بن لادین کو جانچ پڑتال کے لئے ہمارے حوالے کریں جسے ملا عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ FBJ کی جانب سے پیش کردہ شواہد دنیا کی کسی بھی عدالت کے لئے ناکافی ہیں اور انکو حجت ماننا انصاف کے خلاف ہے لہذا معاملہ کی حقیقت جانے بغیر صرف الزام کے تحت کسی شہری کو ایک حکومت دوسری حکومت کے حوالے نہیں کرسکتی، درحقیقت القاعدہ طالبان کا مضبوط بازو اور اسکی حلیف جماعت تھی جس کے قائد اسامہ بن لادین تھے. لیکن طالبان کے اس جواب سے معاملہ سنگین ہوگیا اور افغانستان پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی گئیں جبکہ امریکی اتحادی ملکوں نے افغانستان سے اپنے تمام تر تعلقات منقطع کرلئے، پھر کچھ ہی سالوں کے بعد 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور ﭘﯿﻨﭩﺎﮔﻮﻥ پر دہشتگردانہ حملے ہوے جبکہ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہی ایک اغوا طیارے کو مار گرایا گیا جسکا مقصد وائٹ ہاوس پر حملہ کرنا تھا، ایک ہی دن میں سپر پاور ملک پر اتنے شدید حملے سے ساری دنیا پر خوف و ہراس کا بادل چھا گیا، امریکی حکومت اور عالمی میڈیا نے اس کا الزام اسامہ بن لادین کی جماعت القاعدہ پر عائد کیا اور 1998 کے بعد دوبارہ القاعدہ پر پابندی اور اسامہ بن لادین کی مانگ کی گئی اسامہ بن لادین سعودی شہریت کے حامل تھے جو حادثہ کے بعد ختم کردی گئی لیکن طالبان نے ایک بار پھر اسے سازش بتا کر رد کردیا، اور تمام امریکی مطالبات کو بے بنیاد قرار دیا،  چنانچہ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮨﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﻦ ﺻﺪﺭ ﺟﺎﺭﺝ ﺑﺶ ﻧﮯ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻨﮓ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ کردیا اور پوری دنیا نے امریکہ سے اظہار یکجہتی کی اور افغان طالبان کو دہشتگردوں کو پناہ دینے کے جرم میں کچل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ دنیا سے دہشتگردی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکے، یہ پہلا موقع تھا جب دنیا نے طالبان کے نام کے ساتھ دہشتگرد تنظیم کا لاحقہ پہلی مرتبہ سنا تھا جبکہ اسلامی دہشتگرد جیسے الفاظ کا استعمال عالمی ذرائع ابلاغ نے پوری شدت کے ساتھ کیا اور دوسرے ہی دن سے ساری دنیا نے افغان طالبان کو کلعدم تنظیم قرار دے دیا، پھر افغانستان پر امریکہ نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا تاکہ طالبان کا خاتمہ کیا جاسکے، حملہ اسقدر شدید تھا کہ کچھ ہی مہینوں میں خبریں آنے لگیں کہ طالبان جنگ ہار گئے مگر امریکی اتحادی بن لادین کو پکڑنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے جنگ طویل تر ہوتی چلی گئی.

* جنگی اخراجات اور اموات
اس جنگ میں تقریباً 16 سے 18 لاکھ افغان شہریوں کی جان چلی گئی چونکہ امریکہ نے فضائی حملوں کا راستہ اپنایا تھا، بی بی سی کے مطابق ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻋﺪﺍﺩ ﻭ ﺷﻤﺎﺭ سے پتا چلتا ہے کہ ﺳﻨﮧ 2011 ﺳﮯ ﺳﻨﮧ 2012 ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﻮﺟﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺧﺮﭺ 100 ﺍﺭﺏ ﮈﺍﻟﺮ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔ پھر بعد میں امریکہ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﺭﺣﺎﻧﮧ ﺁﭘﺮﯾﺸﻨﺰ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﻓﻐﺎﻥ ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﭘﺮ ﻣﺮﮐﻮﺯ ﮐﯽ (تاکہ امریکہ کے جانے کے بعد افغان فوجی طالبان سے جنگ جاری رکھ سکیں) ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮧ 2016 ﺍﻭﺭ 2018 ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺧﺮﭺ 40 ﺍﺭﺏ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ہو ﮔﯿﺎ۔ امریکی خبرراساں ایجنسی The Balance  کے سروے کے مطابق تقریباً 975 بلین (975،000،000)  امریکی ڈالر صرف افغان امریکہ جنگ میں خرچ ہوے اس کے علاوہ کئی ارب ڈالر افغان سیاسی تنظیموں پر بھی خرچ کئے گئے، تاہم اس 19 سالہ طویل اور خوں ریز جنگ میں وکی پیڈیا کے مطابق 69500 امریکی اتحادی فوجیوں کی ہلاکت جبکہ 65000 طالبانی جنگجوؤں کی موت کا دعوی کیا جاتا ہے، اس جنگ میں ناٹو پر خرچ ہونے والی رقم کا بھی اندازہ لگانا  مشکل ہے چونکہ ناٹو 42 عیسائی ملکوں کی متحدہ فوج ہے جسمیں صرف ترکی ایک مسلم ملک ہے جو 1950 سے ہی انکا اتحادی تھا البتہ افغان جنگ میں ترکی کا کوئی واضح کردار سامنے نہیں رہا ہے.

* طالبان عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں
* طالبان کی کی لڑائی ملکی یا عالمی؟

یہ بات ظاہر ہے کہ جب طالبان نے ایک سپر پاور کو شکست دینے کے بعد فوراً ہی دوسری سپر پاور سے دشمنی مول لی تو ساری دنیا نے طالبان کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کو ترجیح دیا، لہذا میدانی جنگ کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی طالبان کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور فلم انڈسٹری سے لیکر تعلیمی اور تجارتی اداروں نے بھی ان کے خلاف مورچے کھولے عالمی پیمانے پر ہزاروں فلموں اور ڈراموں میں طالبان کو درندہ صفت انسان دکھایا گیا اور اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ سے مورچے نکلواے گئے جبکہ عوامی جسلہ جلوس اور احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوا، تجارتی کمپنیوں نے طالبان سے ہر قسم کی تجارت کو روک لیا نیز ہر میدان میں طالبان کو یہ یاد دلایا گیا کہ تم درندے اور انسانیت دشمن صفت رکھنے والے ملا ہو اور تمہیں ساری دنیا مٹا کر ہی دم لے گی.

* جب امریکہ جنگ ہارنے لگا.
اس طویل جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا بلکہ امریکی معیشت پر ایک بڑا بوجھ اور فوجیوں کی جان کے مسئلہ نے امریکی اور یورپی عوام کو غم و غصہ میں مبتلا کردیا تب امریکی سابق صدر اوباما نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا بتدریج سلسلہ شروع کیا لیکن موجودہ صدر ٹرمپ نے 2017 ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻓﻐﺎﻥ ﭘﺎﻟﯿﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺘﻨﮯ ﮐﮯ ﻋﺰﻡ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ جو کہ اب ناممکن ثابت ہوچکا ہے البتہ 19 سالہ طویل جنگ میں ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺗﺤﺎﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﻨﮉﺭ میں تبدیل کردیا، لیکن طالبان کو مٹانے کا خواب امریکہ کے لئے ایک سراب ہی رہا جو شاید اب امریکہ خود بھی سمجھ چکا ہے.

* امریکی فوجیوں کا انخلا اور صلح کی میز پر
حالیہ مذاکرات سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ امریکہ بہر صورت اپنی بچی کچی عزت بچا کر نکلنا چاہتا ہے، چونکہ امریکہ نے تقریباً افغانستان کو تباہ کردیا ہے، لیکن طالبان کی طاقت کو مٹانے میں کامیاب نہ ہوسکا بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم پوری طرح افغانستان سے اپنے فوجیوں کا عمل دخل ختم نہیں کریں گے جس پر طالبان نے جواب دیا کہ پھر ہم اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی امریکی فوجی ہماری سر زمین پر ہوگا، امریکہ کا زور اس بات پر تھا کہ افغانستان پر جمہوری طرز پر حکومت قائم ہو لیکن طالبان نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور اسے اپنا ملکی معاملہ بتایا مزید یہ کہ جن علاقوں پر افغان صدر اشرف غنی ہیں اور جن علاقوں پر امریکی تربیت یافتہ افغان فوجی ہیں انہیں باقی رکھے جانے کی مانگ بھی امریکہ نے کی جس پر طالبان نے انکار کردیا کیونکہ طالبان ان فوجیوں اور سیاسی رہنماؤں کو امریکہ کا غلام تصور کرتے ہیں لہذا اعلانیہ طور پر انہوں نے کہا کہ فوجیوں سے ہم نمٹ لیں گے، کیونکہ ہم(طالبان) اپنی فوج رکھتے ہیں، امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ جنگ بندی معاہدے پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد فوراً ہو جانی چاہئے. لیکن طالبان نے جارحانہ طور پر اپنا موقف رکھا کہ جب تک ہماری سر زمین پر امریکی فوجی ہیں ہم جنگ بندی کا اعلان نہیں کرسکتے. امریکہ نے طالبان سے القاعدہ پر پابندی کی مانگ بھی کی لیکن طالبان نے انہیں اپنا اتحادی بتا کر مطالبہ پورا کرنے سے انکار کردیا. جبکہ داعش کے معاملہ پر طالبان کا کہنا تھا کہ ہمارا انسے کوئی رشتہ نہیں، انکی مدد خود امریکہ اور افغان فوجی کرتے ہیں اگر ہمارا ساتھ دیا جاے تو ہم داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں، مزید یہ کہ جنگ بندی کے بعد طالبان نے امن کی یقین دہانی کرائی کہ امریکہ یا اسکے دوست ممالک کے ساتھ ہم کسی بھی قسم کا اقدام نہیں کریں گے اور نہ ہی انکے تجارتی معاملوں میں دخل اندازی کریں گے.
ان شرائط کو ایک عام انسان بھی سن کر بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ امریکہ کو صرف افغانستان سے نکلنا ہے کیونکہ جنگ بندی ہی مقصد ہوتا تو امریکہ یہی کام 2001 میں بھی کرسکتا تھا کہ طالبان یقین دہانی کرادیں کہ اب کبھی بھی القاعدہ ہماری زمین پر حملہ آور نہیں ہونگے، چونکہ اس طویل مدتی جنگ میں نہ ہی طالبان کی طاقت کم ہوئی اور نہ ہی القاعدہ کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکا.

* سعودی عرب اور پاکستان کا مستقبل
* اسرائیلی ایجنڈا
* مستقبل کے حالات

امریکہ اور طالبان جنگ کے خاتمہ کے بعد کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر اس ذہن میں آتا ہے جو عالمی سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے، راقم نے بھی اس پر اپنی معلومات کے مطابق غور کیا تو مندرجہ ذیل باتیں سامنے آئیں.
1) امریکہ افغان فوج کو اچھی خاصی تربیت دے چکا ہے لہذا وہ طالبان سے حکومت چھینے کی کوشش کریں گے چونکہ اب بھی افغانستان کی اکثریت طالبان کو اپنے اور ملک کے تئیں مخلص مانتی ہے  لہذا عوام اور افغان فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہونگی اور طالبان افغان فوج کو کچلنے کی پوری کوشش کریں گے.

2) افغانستان کی خانہ جنگی سے پاکستان بھی متاثر ہوگا لہذا امریکہ کی ایماء پر یا پھر اپنے تحفظات کی خاطر ایک مرتبہ پھر پاکستان طالبان سے الجھے گا چونکہ اس وقت پاکستان سے چین کے مفادات جڑے ہوئے ہیں تو ممکن ہے کہ چین بھی کسی طرح اس میں شامل ہو.
3) چین کی شمولیت امریکہ کی مانند نہیں ہوگی لہذا طالبان پاکستان پر بھاری پڑسکتے ہیں اور ممکن ہے جنگ کی شدت پاکستان کے ٹکڑے بھی کردے جس پر  طالبان حاکم بن جائیں.
4) اس جنگ سے ایران بھی متاثر ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی طالبان اور ایران کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے لہذا ایران افغانستان کے عدم استحکام سے فائدہ حاصل کرنا چاہے گا جو ایران کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے.
5) طالبان سے دشمنی لینا اس لئے بھی خطرناک ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ان سے زیادہ تربیت یافتہ اور لڑاکا جنگجو کسی ملک کے پاس نہیں ہیں کیونکہ وہ مسلسل 40 سال سے جنگ کی حالت میں ہیں اور  دو سپر پاور سے پنچہ آزمائی کرچکے ہیں جس سے انہیں جنگ کے تمام حربوں کا بخوبی علم ہے، وہ دنیا کے 42 طاقتور ترین ملک سے جنگ لڑ چکے ہیں لہذا اب ان کے لئے کسی بھی ملک کے فوجیوں سے لڑنا نہایت آسان ہوگا.
6) سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی تجارت اور ان پر امریکہ کا کنٹرول کمزور ہوگا لہذا امریکہ ان پر دباؤ بناے گا جبکہ اسرائیل کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہوگا جب وہ گریٹر اسرائیل قائم کرلے جسکا منصوبہ وہ بہت پہلے بنا چکا ہے چونکہ اس حالت میں سعودی حکمرانوں کی مدد کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھ سکے گا.
7) مشرق وسطیٰ میں بد امنی کی وجہ سے طالبان مسلسل اپنی حکومت کو پھیلانا چاہیں گے جسکا اثر مشرقی ایشیا کے دور دراز ملکوں پر پڑے گا.
8) گریٹر اسرائیل بننے کی صورت میں طالبان کی توجہ کا مرکز عرب کی جانب ہوگا البتہ ممکن ہے کہ وہ پہلے اپنی توجہ شام پر کریں کیونکہ شام میں انہیں حمایت حاصل ہوسکتی ہے چونکہ حکومت کے خلاف وہاں کے عوام کے غم و غصہ کو ایک نکتہ پر جمع کرنا اور انہیں متحد کرنا یا اپنا حلیف بنانا آسان ہوگا.

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ طالبان اپنی لڑائی کب تک اور کہاں تک لڑیں گے کیونکہ اس کا تعلق عالمی سیاست سے، چونکہ طالبان اپنے ایک ایسی طاقت بنے گی جسے اپنے انجام کا کوئی خطرہ نہیں ستاتا جب کہ دنیا کے دیگر ممالک ملکی ترقی اور استحکام کی فکر میں ہیں لہذا یہ فکر ہی طالبان کو مزید طاقتور بناے گی.
(یہ 8 نکات محض مفروضات ہیں ممکن ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو، البتہ حالات اس طرف بھی متوجہ کرتے ہیں)

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment