ہاں میں امیر معاویہ ہوں ۔۔۔


✍ نازش ہما قاسمی

ہاں میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہوں، جی امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی، معتمد رسول اکرمﷺ ہوں۔ ہاں میں عظیم سیاست داں، فاتح شام ودمشق اور سب سے پہلے بحری لشکر کی کمان سنبھالنے والا عظیم رہنما ہوں۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میری بہن ام حبیبہ ؓ حضور اقدس ﷺ کی نکاح میں تھیں۔ میری کنیت ابو عبدالرحمن ہے اور رشتہ نبوت سے منسلک ہونے کی وجہ سے مجھے احتراماً خال المومنین کہاجاتا ہے۔ میں اسلام لانے سے قبل اسلام اور اہل اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا؛ لیکن دامن اسلام تھامنے کے بعد میں نے اسلامی کی نشرواشاعت  اور مسلمانوں کی فلاح وبہبودی میں پوری زندگی صرف کردی۔ میں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر دامن اسلام کو تھاما اور فتح مکہ کے وقت اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا۔میری والدہ ہند بن عتبہ اور والد حضرت سفیان بن حرب بھی فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوگئے اور صحابی رسول قرار پائے۔ میری پیدائش بعثت نبوی سے پانچ برس قبل ہوئی۔ میرا خاندانی تعلق حضور اقدس ﷺ اور دیگر خاندان بنی ہاشم کے ساتھ انتہائی قریبی رہا ہے، دونوں خاندانوں میں آپسی رشتے استوار ہوئے اور دونوں ہمیشہ مربوط اور ایک دوسرے سے انتہائی قریب رہے ہیں۔ میں نے فتح مکہ کے بعد حضور اقدس ﷺ کے شانہ بشانہ غزوہ حنین، غزوہ طائف میں شرکت کی۔ میرا شمار اہل مکہ کے پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتاتھا؛ اس لیے حضور اقدس ﷺ نے میرے ایمان لانے کے بعد مجھے کتابت وحی کے عظیم منصب کو سنبھالنے کی ذمہ داری مجھے سونپی، آپ ﷺ کو وحی کے علاوہ بھی کوئی چیز تحریر کرانے کی ضرورت پیش آتی تو مجھے طلب کرکے تحریر کرایا کرتےتھے۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں حضور اکرم کا حاضر باش خادم تھا اور پہلوئے نبوت میں بیٹھنے کا اکثر وبیشتر موقع مجھے ملا۔ حضور اقدس ﷺ کی جانب سے بادشاہوں کو خطوط بھی لکھا کرتا تھا اور ان کے مراسلات کے جوابات بھی بحکم رسولﷺ دیا کرتا تھا۔ مجھے حضور اقدسﷺ کا موئے مبارک تراشنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ ہاں میں وہی امیر معاویہ بن سفیان ہوں جسے زبان نبوت سے بارہا دعائیں ملیں۔ ہاں میں وہی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں جس کے لیے حضور اقدس ﷺ نے یہ دعا مانگی ’’اے اللہ معاویہ کو ہادی بنا، مہدی بنااور اس سے دوسروں کو ہدایت دے‘‘۔ میرے ہی لیے حضور اقدس ﷺ نے یہ بھی دعا مانگی ’’اے اللہ معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عنایت فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما‘‘۔ میں وہی امیر معاویہ ہوں جسے خلیفہ دوم عمر فاروق ؓ نے حمص کے علاقہ پر عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے منصب سے ہٹا کر مجھے وہاں کا حاکم بنایا تو لوگوں نے اس تبدیلی پر اعتراض کیا، اس موقع پر حضرت عمیر بن سعد نے فرمایا کہ ’’معاویہ کا تذکرہ خیرو خوبی کے سوا مت کرو؛ کیوں کہ میں نے آنجناب ﷺ سے سنا ہے کہ آپ معاویہ کے حق میں فرماتے تھے کہ ’’اے اللہ انہیں ہدایت نصیب فرما‘‘۔ ہاں میں وہی امیر معاویہ ہوں جس کے بارے میں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ ’’رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں امیر معاویہ سے زیادہ صاحب سیادت وحکمرانی کے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔  ہاں میں وہی معاویہ بن سفیان ہوں جس کے لیے جبرئیل امین نے حضور ﷺ سے درخواست کی کہ ’’حضرت معاویہؓ کے حق میں وصیت فرمائیے، (کیونکہ) یہ الله کی کتاب کے امین ہیں اور عمدہ امین ہیں‘‘۔ ہاں میں وہی معاویہ ہوں جس کی خلافت کی پیشین گوئی حضور اقدس ﷺ نے دی اور ارشاد فرمایا تھا کہ اے معاویہ جب تجھے اقتدار اور جہاں بانی نصیب ہوتو رعایا سے بہتر معاملہ کرنا‘‘ تاریخ شاہد ہے کہ جب مجھے خلافت وملوکیت عطا ہوئی میں نے رعایا کے ساتھ خیر وصلاح کا معاملہ کیا اور اپنی زندگی کو بھلائی کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے رہا ۔ ہاں میرے ہی بحری بیڑے کے تعلق سے حضور اقدس ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اول جیش من امتی یغزوالبحر فقد اوجبوا۔ (ترجمہ ؛ میری امت کا وہ پہلا لشکر جو بحری جنگ لڑے گا ، اس پہ جنت واجب کردی گئی‘‘۔ میں نے دور صدیق اکبر ، دور عمر فاروق ، دور عثمان غنی اور دور علی کرم اللہ وجہہ میں اسلامی لشکر کی کمان سنبھالی اور اسلام کو مدینہ ومکہ سے نکال کر قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،سندھ، جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ تک اسلام کو پہنچادیا۔حضرت عثمان غنی کی شہادت کا بدلہ لینے کےلیے سبائیوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے حضرت علی سے جنگ صفین ہوئی۔ اس میں دونوں جماعت حق پر تھیں، دونوں صحابہ کی جماعت تھی؛ لیکن سبائیوں کے جال میں پھنس کر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوگئے۔ جب میرے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان جنگ جھرے جاری تھی تو ان دنوں شاہ روم نے اہل اسلام پر حملہ کردینے کی تیاری کی اور موقع کو غنمیت سمجھ کر مسلمانوں پر حملہ کےلیے ایک عظیم لشکر جمع کیا، جب مجھے شاہ روم کے اس مقصد کا علم ہوا تو میں نے شاہ روم کو ایک خط بھیجا ’’اللہ کی قسم اگر تو اس ا قدام سے باز نہیں آئے گا اور اپنے بلاد کی طرف واپس نہیں لوٹے گا تو اے لعین ! میں اور میرے چچا کے بیٹے (علی بن طالب ؓ) تیری مخالفت میں باہم صلح کرلیں گے اور میں تجھے تیری آبادیوں سے نکال چھوڑ وں گا اور زمین کے فراخ ہونے کے باوجود ا سے تجھ پر تنگ کردوں گا ‘‘۔ اس خط کے بعد شاہ روم اپنے ارادے سے باز آیا اور ہم سے صلح کا خواستگار ہوا۔ میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے دست برداری کے بعد 661ءمیں خلیفہ بنا۔ اور میری خلافت کم وبیش ۲۰ سال تک رہی۔اپنے دور خلافت میں میں نے دمشق میں دنیا کا سب سے پہلا اقامتی اسپتال قائم کیا۔ زراعت کو فروغ بخشا، تمام قدیم مساجد کی از سر نو مرمت وتوسیع کی جس میں بیت اللہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ خط دیوانی ایجاد کرایا، ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا، عدلیہ کے نظام میں اصطلاحات کیں، علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام کیا، سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں ، امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کے طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔ہاں میں وہی امیر معاویہ ہوں جس کے بیٹے یزید کے اعمال کو لے کر مجھ پر طعن وتشنیع کیاجاتا ہے، پہلے تو صرف ایک جماعت مجھ پر سب وشتم کے تیر برساتی تھی؛ اور اب ان ہی کی دیکھا دیکھی ۱۴؍ سو سال بعد جبہ وقبا میں ملبوس خود کو بڑا عالم دین سمجھنے والا اور بزعم خود ہندوستانی مسلمانوں کا نام نہاد قائد ورہبر بھی مجھ پر لعن طعن کررہا ہے ۔ وہ میرے درجہ صحابیت پر انگلی اُٹھا رہا ہے۔ میرے ذریعے کیے گئے فیصلے پرنکتہ چینی کررہا ہے۔ جنگ صفین میں حضرت عمار بن یاسر کی شہادت کا الزام مجھ پر عائد کررہا ہے ، میرے بیٹے کے ذریعے کئے گئے غلط کاموں کا سہرا میرے سر باندھ رہا ہے۔ حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ میں معتمد رسول ہوں ﷺ اور خدا کی طرف سے میری بخشش کا پروانہ جاری ہوچکا ہے، جتنی زندگی میں نے گھوڑوں پر چڑھ کر اسلام کی خاطر جہاد کیا ہے، ان گھوڑوں کی ناک میں جو ریت پڑی ہے مجھ پر اعتراض کرنے والا اس ریت کے مقابل بھی نہیں، میرے گھوڑے کے لید کے مقابل بھی نہیں۔ میں ایک صحابی رسولﷺ ہوں اور درجہ صحابیت پر فائز رہ کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوا ۔ وہ میری غلطیاں مجھے گنواتا ہے ۔ امت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اگر اسے اتنا بھی علم ہوتا تو قرآن کےفیصلے پر آمنا وصدقنا کہتا کہ میں صحابی رسول ہوں اور مجھ سے رضا مندی کا اظہار قرآن میں خدائے تعالیٰ نے کیا ہے۔ لیکن شاید مت ماری گئی ہے اس لیے وہ صحابی رسول ﷺ سے امت کے طبقے کو گمراہ کرناچاہتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے جس نے بھی صحابی رسول کو سب وشتم کا نشانہ بنایا دنیا نے دیکھا ہے کہ وہ نشان عبرت بنا ہے۔ اللہ اسے سمجھ عطا کرے اور اپنے قول سے رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا وآخرت میں مزید ذلت سے بچا لے۔ آمین۔ میراانتقال ۶۸۰ میں دمشق میں ہوا۔میری وصیت کے مطابق میری تجہیز وتکفین رسول اللہ ﷺ کا کرتا مبارک پہناکر کی گئی اور میں اپنے شہر مکہ سے دور اسلام کی خدمت کرتے ہوئے وہیں دفن ہوگیا۔۔۔

(نشرِ مکرر برائے #عشرہ_مدح_سیدناامیرمعاویہؓ ، محمد رشیدی)

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment