(دل کو چھولینے والی تحریر)
حضرت مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اچھرہ، لاہور کے قریب ایک اسلامی قصبہ (جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس وقت اچھرہ کی آبادی لاہور سے بالکل الگ تھی اور بیچ میں لمبے فاصلے تک کھیت تھے) ہے، کئی سال گذرے، اس قصبہ کی جامع مسجد میں نماز مغرب پڑھی جارہی تھی کہ ایک نہایت ہی دبلا پتلا مسافر آیا اور شامل ِنماز ہو"گیا، اگرچہ یہ مسافر محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا، تاہم اس کی صورت بااثر تھی، نماز پڑھی گئی اور نمازی اپنے اپنے گھر چلے گئے، تھوڑے عرصہ بعد ایک مقامی مسلمان کھانا لے کر داخل ِ مسجد ہوا اور اس نووارد سے کہا: "آپ بھوکے ہوں گے، میں کھانا لایا ہوں، براہ ِ کرم تناول فرمالیں، آپ کی بڑی عنایت ہوگی"۔
مسافر نے جواب دیا: "لیکن معاف فرمائیے، مجھے کچھ پرہیز ہے"۔
"حضرت آپ کچھ فکر نہ کیجئے، یہ سادہ سی روٹی ہے، مرچ کم ہے اورگھی بھی بازاری نہیں ہے"۔ مقامی مسلمان نے جواب دیا
"بھائی میرا یہ مطلب نہیں ہے"۔مسافر نے کہا
"پھر کیا مطلب ہے"۔مقامی مسلمان نے پوچھا
مسافر چپ ہوگیا اور مقامی مسلمان اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، چند منٹ بعد مسافر نے زبان کھولی اور کہا:"امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے، مجھے آپ سے کچھ بھی کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی ، لیکن آپ کھانا لے کر آگئے تو مجبوراً مجھے عرض کرنا ضروری ہوگیا ہے، آپ جانتے ہیں کہ شریعت ِ اسلام میں طعامِ حلال، نمازِ پنجگانہ ہی کی طرح فرض ہے، ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کا لقمہ حلال نہ ہوتو اللہ کی بارگاہ میں اس کے نہ فرض قبول ہوتے ہیں اور نہ نفل؛ چونکہ اس انگریزی راج میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ چکی ہے، اس واسطے میں جب تک پوری طرح جان پہچان نہیں کر لیتا، میں کسی بھائی کو بھی کبھی کھانے کی تکلیف نہیں دیتا"۔
"حضرت! آپ نے یہ کیا فرمایا’’، مقامی مسلمان نے کہنا شروع کیا: "معاذ اللہ!میں حرام خور نہیں ہوں، یہ چوری کا مال نہیں ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، میں یہاں منڈی میں آڑھتی ہوں اور بیوپار کرکے اپنی روزی کماتا ہوں، آپ اس کا وہم نہ کیجئے"۔
"تو پھر آپ کی تجارت کے کسی مرحلہ میں سود کا لینا دینا نہیں ہوتا؟" مسافر نے پوچھا۔
"میں یہ تو نہیں کہہ سکتا، کئی مواقع پر ہم کو منڈی سے قرض لینا پڑتا ہے اور مقررہ شرح پر سود بھی دینا پڑتا ہے، اسی طرح تجارتی مال کے ہیر پھیر میں دوسرے سے بھی ہم سود وصول کر لیتے ہیں"۔ مقامی مسلمان نے جواب دیا۔
"تو بہت اچھا، میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو تکلیف ہوئی، احکام ِ قرآن کے مطابق وہ تجارتی منافع جس میں سود کی آمیزش ہو حلال نہیں کہلا سکتا، ممکن ہے آپ تجارتی رسوم یا حکومتی اصرار کے ماتحت مجبور ہوں، لیکن میں مجبور نہیں ہوں، بیشک آپ کو تکلیف ہوئی اور آپ کی دل شکنی بھی ہوئی ہوگی مگر آپ کے اسلامی اخلاق سے امید کرتا ہوں آپ اس کے لئے مجھے معاف فرما دیں گے"۔
اس کے بعد مسافر نے مقامی مسلمان سے رخ پھیر لیا اور قبلے کی طرف منہ کر لیا، اور یادِ خدا میں مشغول ہوگیا ۔
مقامی مسلمان اس آخری جواب سے سخت مضطرب اور پریشان ہوا، اس نے نہایت ندامت سے برتن اٹھائے اور سر جھکا کر واپس چلا آیا، برتن گھر پہنچا کر ہمسایہ کے ہاں پہنچا اور اس سے کہا کہ مسجد میں ایک بزرگ مسافر آئے ہیں،آپ اپنے ہاں سے کھانا لے کر جائیں اور کھلا آئیں، یہ ہمسایہ مقامی ہسپتال میں ڈاکٹری کا کام کرتا تھا، ڈاکٹر صاحب نے کھانا اٹھایا اور مسجد میں جا پہنچے، مسافر نے نہایت نرمی اور خوش خوئی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے تعارف اور جان پہچان کی فرمائش کی، ڈاکٹر صاحب ذرا باتونی بزرگ تھے، انہوں نے کہانی سنانا شروع کی اور فرمایا: "حضرت!مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے، میری ایک سو روپیہ تنخواہ ہے، دوچار روپئے ہر روز اوپر سے بھی آجاتے ہیں، بڑا لڑکا کچہری میں ملازم ہے، وہ ۷۵ روپئے تنخواہ پاتا ہے، اور دو چار روپئے روزانہ وہ بھی لے آتا ہے، زمین بھی ہے، جہاں سے سال کا غلہ آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ"۔
ڈاکٹر صاحب کی کہانی ختم ہوئی تو مسافر نے انہیں نہایت ہی محبت اور شیرینی سے سمجھایا کہ اسلام ِ مقدس کی رو سے رشوت ستانی کس قدر بڑا جرم ہے:اور آخر میں اپنی معذوری ظاہر کرکے کھانا کھانے سے انکار کر دیا، مسافر کی گفتگو اس قدر سنجیدہ اور باوقار تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی ان کے سامنے اپنی گردن خم کردی اور بڑی ندامت کے ساتھ کھانا اٹھا کر گھر واپس چل دئے، یہاں تاجر صاحب پہلے ہی ان کے منتظر تھے، یہ دونوں نہایت ہی درد وندامت کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنا رہے تھے کہ دو چار اور نیک دل مسلمان وہاں جمع ہو گئے، انھوں نے بھی یہ دونوں کہانیاں سنیں اور آناً فاناً یہ بات محلے میں عام ہو گئی ۔
ڈاکٹر صاحب اور تاجر صاحب نے مل کر عرض کیا کہ اب کسی زمیندار کے ہاں سے کھانا بھیجوانا چاہئے، تاکہ اس پر سود یا رشوت کا الزام نہ آسکے، چنانچہ اسی وقت ایک زمیندار کے ہاں سے کھانا بھجوایا گیا۔
مسافر نے ان سے پوچھا :"آپ کے پاس کوئی گروی زمین تو نہیں ہے؟’’
’’جب زمیندار صاحب نے اس کا اقرار کیا تو مسافر نے انہیں پھیر دیا اور کہا کہ جو شخص مسلمان ہو کر زمین گروی رکھتا ہے اس کی کمائی حرام سے خالی نہیں ہوسکتی، اس کے بعد ایک عالم صاحب کو بھیجا گیا، ان میں نقص پایا گیا کہ انھوں نے اپنی بہنوں اور لڑکیوں کو حکم ِ شریعت کے مطابق جائیداد میں حصہ نہیں دیا تھا، اس واسطے مسافر نے ان کا کھانا بھی رَد کر دیا اور فرمایا کہ آپ بہنوں اور لڑکیوں کے حصۂ شرعی کے غاصب ہیں اور آپ کے ہر لقمے میں آدھے سے کم حرام شامل نہیں ہے، نماز ِ مغرب سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور رات کے ۹/بج گئے، متعدد مسلمان کھانا لے کر گئے مگر مسجد سے شرمندہ ونگوں سار ہوکر واپس آئے ۔
مسافر کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباً کی کسوٹی لئے مسجد میں بیٹھا تھا اور ہر ایک مسلمان کو جو کھانا لے کر جاتا تھا، اسی قرآنی کسوٹی پر پر کھتا تھا اور شرمندہ کرکے باہر نکال دیتا تھا، تمام آبادی میں شور برپا ہو گیا، جابجا یہی چرچا تھا، مسلمانوں کو بھوک اور نیند بھول گئی، گھروں میں، بازاروں میں، گلی کوچوں میں جہاں بھی چار آدمی بیٹھے تھے، یہی گفتگو اور ذکر تھا، جب کسی جگہ ایک مسلمان دوسرے کو کہتا تھا کہ:"تم کھانا لے جاؤ تو وہ اسی وقت کانوں پر ہاتھ رکھ دیتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ میں راشی ہوں، کوئی کہتا تھا کہ میں سود خوار ہوں، کوئی کہتا تھا کہ میں کم تولتا ہوں، کوئی کہتا تھا کہ میں نے لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا، کوئی کہتا تھا کہ میرے لڑکوں کی آمدنی میں حرام شامل ہے، مختصر یہ کہ دلوں کے عیوب آج زبانوں پر آگئے تھے اور ان کا برملا اعلان ہو رہا تھا، اگر چہ اچھرہ میں ہزار ہامسلمان آباد تھے، مگر ایک شخص بھی اکل ِ حلال کا مدعی بن کر سامنے نہیں آتا تھا، بزرگان ِ قصبہ کی گرد نیں خم تھیں، بااحساس مسلمان زمین میں غرق ہوئے جاتے تھے کہ آج ہزارہا مسلمانوں میں ایک شخص بھی نہیں ملتا جو ایک ایسے مہمان کو جو اکل ِ حلال کا طالب تھا، ایک ہی وقت کا کھانا کھلا سکے، رات کے دس بج گئے، مگر کسی گھر سے کھانا نہ گیا، اب سوال یہ درپیش تھاکہ کیا یہ مسافر اچھرہ سے بھوکا چلا جائے گا؟کیا رسول ﷺکے امتی حرام کھانے پر مصرر ہیں گے؟ جوں جوں وقت گذرتا جاتا تھا دلوں کا اضطراب بڑھتا جاتا تھا، یہاں تک کہ رات کے گیارہ بج گئے’’۔
آخر مجمع کے اندر امید کی کرن جلوہ گر ہوئی، ایک شخص نے کہا: میں ابھی لڑکیوں کا حصہ دیتا ہوں اور اس نے دے دیا، دوسرے نے کہا: میں گروی زمین چھوڑتا ہوں اور اس نے چھوڑدی، تیسرے شخص نے کہا: میں آج کے بعد کبھی سود نہ لوں گا اوراس نے سود کا کاروبار ترک کر دیا، مختصر یہ کہ آن کی آن میں اچھرہ کے بیشمار مسلمانوں پر توبہ واستغفارکے دروازے کھل گئے، کسی نے رشوت چھوڑدی، کسی نے جھوٹی گواہی کا پیشہ چھوڑ دیا، کسی نے راگ رنگ سے توبہ کر لی، کسی نے یتیموں کا غصب شدہ مال واپس کر دیا، اس کے بعد تائبین کی جماعت کھانا لے کر مسافر کے پاس آئی اور اُسے بتایا گیاکہ اچھرہ کے بیشمار مسلمان اب اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے ہیں، انھوں نے اپنی غلطیوں کو محسوس کرلیا ہے اور اب عملی اصلاح و توبہ کے بعد آپ کے پاس آئے ہیں اور یہ کھانا پیش کرتے ہیں ۔
مسافر نے جب یہ واردات سنی تو سجدے میں گر گیا، اس کے بعد دستر خوان بچھایا گیا جس میں سے مسافر نے چند لقمے کھائے اور اس کے بعد لوگوں کو رخصت کردیا۔
صبح کے وقت اچھرہ کے بیشمار مسلمان جوق درجوق مسجد میں آئے تاکہ باخدانسان کی زیارت کریں جس کے زہد ِبے ریاء نے اپنے صرف ایک ہی عمل سے اچھرہ کے آدھے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں سچا مسلمان بنا دیا تھا، مگر وہ حیرت زدہ رہ گئے جب انہیں بتایا گیا کہ مسافر تہجد کے بعد مسجد سے نکلا تھا اور واپس نہیں آیا۔ یہ ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اہل اللہ کس طرح خلق ِ خدا کی اصلاح کیا کرتے ہیں ؟
مسافر نے کوئی وعظ نہیں کیا، کوئی چلہ نہیں کیا، کوئی کتاب نہیں چھاپی، کوئی درس و تدریس کا نصاب نہیں بنایا وہ مغرب سے تہجد تک صرف چند گھنٹے اچھرہ کی جامع مسجد میں ٹھہرا، مگر جب وہاں سے نکلا تو صدہا مسلمانوں کی اصلاح ہو چکی تھی، بیشمار یتیموں کو اپنا حق مل چکا تھا، بے شمار لڑکیوں کو اپنا شرعی حصہ مل چکا تھا، بہت سے مقروضوں نے اپنا قرضہ وصول کر لیا تھا، بہت سے رشوت خوار رشوت ستانی سے باز آچکے تھے، بہت سے جواری جو اچھوڑ چکے تھے، یہ سب کہ سب لوگ تقریباً وہ تھے جن پر صدہا مرتبہ قرآن پڑھا گیا، جنہیں بیسیوں مرتبہ وعظ سنائے گئے اور جن سے متعدد مرتبہ پنچایتوں نے جمع ہو ہو کراہل ِ حق کے لئے حق کا مطالبہ کیا مگر وہ ظلم وستم سے باز نہ آئے، لیکن اب وہ ایک ہی رات میں اس طرح ازخود گناہوں سے تائب ہو گئے کہ گویا انھوں نے کبھی گناہ نہیں کیا تھا، پھر لطف یہ کہ یہ سارا کام نماز ِ مغرب سے شروع ہوا اور اسی رات گیارہ بجے ختم وہ گیا۔ ایسے ہی باعمل اور باخدا انسان ہیں جن کی نگاہوں سے قوموں اور ملکوں کی تقدیر یں بدل جاتی ہیں،
آؤ اپنے اندر اخلاص اور صداقت پیدا کرو ۔
0 comments:
Post a Comment