Pages

Tuesday, 23 July 2019

زانی کیلئے پتھر ہیں ) بہترین تحریر

نازیہ کا باپ ایک کامیاب وکیل تھا ،، ایل ایل بی کے ساتھ اس نے اسلامیات میں ماسٹر بھی کیا تھا اور عملی زندگی میں بھی ایک نیک اور اچھا انسان سمجھا جاتا تھا ، محلے کی مسجد میں امام صاحب جب بھی چھٹی پہ جاتے تو امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں نازیہ کے والد ھی ادا کرتے تھے ،، نازیہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ،نہایت نیک فطرت اور باحیا بچی تھی تربیت بھی اچھی تھی وہ ابھی میٹرک میں تھی کہ والد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئے، ان کی شہادت پہ سارے بڑے بڑے مذہبی علمائ‘وکلاءتنظیموں اور مذھبی پارٹیوں کےسربراہان نے تعزیتی بیانات دیئے اور پھر بس‘ کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس گھرانے کا گزارہ کیسے چلتا ہے‘ زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چل رہی تھی‘ نازیہ بی اے میں تھی اور روزانہ ویگن سے ہی یونیورسٹی جاتی تھی،ایک دن ہڑتال کی کال تھی ، والدہ نازیہ کو روک رہی تھی کہ وہ یونیورسٹی نہ جائے اس کا دل ھول رہا تھا کہ وہ سارا دن اس ٹینشن میں کیسے گزارے گی ؟ مگر نازیہ کا اصرار تھا کہ آج بہت اہم پیریڈ ہے اور اسے ہر حال میں جاناہے، ایسے میں شومئی قسمت کہ نازیہ کی امی کو نازیہ کے پھوپھی زاد ذوہیب کا خیال آ گیا ‘ذوہیب کا آفس بھی یونیورسٹی کی طرف تھا ‘، تعلقات میں سرد مہری کے باوجود اس نے ذوہیب کی ماں سے کہا کہ وہ ذوہیب سے کہے کہ جاتے ہوئے نازیہ کو لے جائے اور واپسی پر ڈراپ کر دے اگرچہ نازیہ نے ماں کو منع کیا کہ وہ ان لوگوں کا احسان نہ لے مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ، ذوہیب نے نازیہ کو گھر سے اٹھایا اور پھر اسے اپنے آفس ہی لے گیا کہ کچھ پیپر وھاں سے لینے ہیں پھر لے کر چلتے ہیںمگر ذوہیب اس دن پھوپھی زاد نہیں ایک شیطان کا روپ دھار چکا تھا ، لٹی پٹی نازیہ کو گھر کے پاس ڈراپ کر کے وہ بھاگ نکلا ،،، نازیہ جونہی گھر میں داخل ھوئی ماں کو دیکھتے ھی اس پر ھیسٹیریا کا شدید دورہ پڑا ،، وہ اپنی ماں کے بال کھینچ رھی تھی تو کبھی اپنا سر دیوار سے ٹکرا رہی تھی ‘پھر وہ غشی میں چلی گئی‘، نازیہ کی ماں نے نند کے گھر فون کیا کہ کیا ذوہیب واپس آیا ہے‘اس نے جواب دیا کہ اس کا آفس تو شام 5 بجے بند ہوتاہے، نازیہ کی ماں نے پڑوس سے ایک نرس کو بلایا جو آغا خان اسپتال میں سروس کرتی تھی ، اس نے نازیہ کا معائینہ کیا اور جتن کے ساتھ اسے ہوش میں لائی ، ساریصورتحال علم میں آنے کے بعد نازیہ کی ماں خود بھی ڈیپریشن کا شکار ہو گئی، نند کو فون کیا تو اس نے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیا ،میرا بیٹا تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا ،ہم نے اسے حلال کا لقمہ کھلایا ہے ،تم لوگ رشتہ دینے کے لئے ہمیں بلیک میل کرنا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ !!اس دن کے بعد نازیہ نے یونیورسٹی کا منہ تک نہ دیکھا اور گھر کی ہو کر رہ گئی،دو ماہ کے بعد نازیہ میں زندگی کے آثار واضح ہو چکے تھے ، گویا یہ ایک اور قیامت تھی کہ جس سے ماں بیٹی کو دوبارہ گزرنا تھا ، یا تو بچے کا ابارشن کرا دیا جائے یا پھر جھٹ سے نازیہ کی شادی کر کے اسے کسی کے سر منڈھ دیا جائے ، اسی پہ رات دن ڈسکشن چلتی ، آخر نازیہ کی والدہ نے اپنی بہن سے رابطہ کیا اور اس کو صورتحال بتائے بغیر اس سے نازیہ کے رشتے کی بات کی ، نازیہ کا خالہ زاد ثاقب صدیقی نہایت شریف دیندار اور کامیاب بزنس مین تھا ، اگرچہ والد اس کے بھی فوت ہو چکے تھے اور وہ بھی اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا !شادی طے ہو گئی ، ڈولی کیا اٹھی جنازہ تھا جو روتے دھوتے اٹھایا گیا اور ایک غیر یقینی مستقبل کے حوالے کر دیا گیا ، رخصتی کے وقت تو ہر دلہن روتی ہے مگر سسرال جا کر بھی جو دھاڑیں نازیہ نے ماریں وہ عرش ھلا دینے والی تھیں،ان میں کسی کے لئے بدعائیں تو کسی سے التجائیں تھیں ، پہلے ہی دن نازیہ کی نظر جب ثاقب پہ پڑی تو اس نے طے کر لیا کہ وہ اس شریف انسان کو دھوکہ نہیں دے گی ، وہ کسی اور کے جرم کی سزا کسی معصوم کو دینے سے ڈرتی تھی ، قتل کے مقابلے میں وہ دھوکہ دینا ایک چھوٹا گناہ سمجھتی تھی مگر جس کو دھوکہ دینا تھا وہ جب سامنے آیا تو اسے دھوکہ دینا اسے قتل سے بھی بڑا گناہ لگا ،ماں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا‘ پہلے دن کھٹ بٹ ہو ہی جاتی ہے ،بچی مانوس نہیں ہے ، بس بس امی پلیز بس کر دیں ،ایسا نہیں ہے ، امی جان! نازیہ ذوہیب کے بچے کی ماں بننے والی ہے‘ ثاقب نے گویا گولہ فائر کر دیا، اس کی ماں کو ایک دفعہ چکر آگئے ‘ دھوکہ اور بہن کے ساتھ ؟ یہ میری نمازی تہجدگزار بہن کا تحفہ ہے، وہ بڑبڑا رہی تھی پھر وہ ثاقب کو انتظار کا کہہ کر نیچے اپنی بڑی بہن کے پاس چلی گءی! جونہی وہ واپس کمرے میں داخل ہوئی آگے بہن تیار کھڑی تھی‘ اس نے اوپر کی کھسر پھسر کو سن لیا تھا ، ثاقب کی امی نے ابھی بات شروع کی تھی کہ بہن نے دوپٹہ اتار کر اپنی چھوٹی بہن کے قدموں میں ڈال دیا، میں ، میرا مرحوم شوہر اور میری بیٹی ہم سب بدنام ہو جائیں گے ! ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے ،آپ بچے کی پیدائش کے بعد بے شک میری بیٹی کو طلاق دے دیجئے گا اور نئی شادی کر لیجئے گا ، ہم بچے کو پال لیں گے مگر بس ایک نام کا سوال ہے تا کہ بچہ معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے ! ثاقب کی ماں کو چپ لگ گئی ،یہ بڑی بہن تھی جس نے اسے ماں کا پیار دیا تھااور اس نے اسے ماں ہی کی جگہ سمجھا تھا آج وہ سر ننگا کیئے اس کے سامنے کھڑی تھی ، وہ بہن جو اس کا سر دہوتی ،جوئیں نکالتی تھی ، اسے سختی کے ساتھ سر ڈھانپنے کو کہا کرتی تھی آج تقدیر نے اسی بہن کو سر ننگا کر کے اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا ،اس نے دوپٹہ اٹھا کر بہن کے سر پہ رکھا اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگ گئی!اوپر جا کر اس نے ثاقب کے سامنے یہی تجویز رکھی کہ وہ فی الحال صبر کر لے اور بچے کی پیدائش کے بعد نازیہ کو فارغ کر دے ، یوں پورے خاندان کا پردہ رہ جائے گا ! مگر ثاقب آج پہلی بار ماں کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا، ایسا کسی صورت نہیں ہو سکتا‘ میں ایک حرام کے بچے کو اپنا نام ہر گز نہیں دے سکتا ‘ وہ غصے سے پلٹا‘میں اس کو ابھی فارغ کر کے ماں کے ساتھ بھیجتا ہوں مگر ثاقب کی امی نے اس کا رستہ روک لیا اور کچھ کہے بغیر اپنا دوپٹہ اتار کر بیٹے کے قدموں پر ڈال دیا‘ لگتا تھا وہ دوپٹہ نہیں سانپ تھا، ثاقب تڑپ کر پیچھے ھٹا اور ماں کے دوپٹے کو اٹھا کر ماں کے سر پر رکھا ،ماں کا سر چوما اور گھر سے باہر نکل گیا !ثاقب صدیقی گھر سے نکل کر ساتھ کی مسجد میں چلا گیا ، اس نے اشراق پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے مگر کیا مانگے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی‘ ہاتھ مہندی سے رنگے تھے مگر وہ رنگ اسے اب ارمانوں کا خون لگتا تھا ، وہ سسکتا رہا مگر کچھ بھی نہ مانگ سکا ،، صرف ھاتھوں کا کشکول پھیلا کر رہ گیا ،، اسے سسکتا دیکھ کر امام مسجد صاحب بچوں کو قرآن پڑھتا چھوڑ کر اس کے پاس چلے آئے ،، کیاہھوا بیٹا ؟ کل کے دولہے کو سسکتے دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے تھے ،، وہ اسے اٹھا کر حجرے میں لائے ،، حجرے میں ثاقب نے ان سے ساری بات کھول کر بیان کر دی ، امام صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے ، دیکھ بیٹا اللہ پاک جب کسی کا امتحان لیتا ہے تو اس آدمی کی استطاعت دیکھ کر لیتاہے ، اللہ نے تجھے بہت بڑے کام کے لئے چنا ہے اور میرا ایمان کہتا ہے کہ اس کا انعام بھی بہت ہی بڑا ہو گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں ، یہ شرعاً تیرا بچہ ہو گا ،بیٹی ہو یا بیٹا ، اس کو نام تیرا ہی ملے گا ، جو اللہ جانتا ہے وہ تم نہیں جانتے شاید اللہ نے اس بچے میں ہی تیری خیر رکھی ہے ، دیکھ وہ بچی مظلوم ہے اور تم بھی مظلوم ہو اور وہ بچہ معصوم ہے اور اللہ تم لوگوں کے ساتھ ہے ،، امام صاحب اسے کافی دیر سمجھاتے رہے ، وہ واپس گھر کی طرف چلا تو اس کا دل کافی ہلکا ہو چکا تھا،سات ماہ لوگوں کے لئے تو پل جھپکتے گزرے ہونگے مگر نازیہ ، ثاقب اور گھر والوں کے لئے وہ سات سال کے برابر تھے ،، نازیہ نے اپنا آپ بھلا دیا تھا وہ مٹی کے ساتھ ہو کر رہ گئی تھی ،گھر والوں کی تو جو خدمت اس نے کی وہ ایک الگ کہانی ہے ، اس نے اس گھر کو بھی شیشہ بنا کر رکھ دیا ،، رات کو اپنی خالہ کے قدم دباتے دباتے وہ وہیں ان کے پاس سو جاتی ،کبھی کبھار گزرتے ثاقب کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو پوچھ لیتا ، ورنہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی خاص انٹر ایکشن نہیں تھا ! سات ماہ بعد اللہ پاک نے نازیہ کو بچے سے نوازا اور یہاں بھی نازیہ کا پردہ رہ گیا ،بچہ نازیہ کی کلرڈ کاپی تھا ، باپ کی کوئی جھلک اس میں نہیں پائی جاتی تھی ، نازیہ نے سکھ کا سانس لیا ، وہ یہی سوچ سوچ کر پاگل ہوئی جا رہی تھی کہ اگر بچی بچہ ذوہیب پہ چلا گیا تو کیاہو گا !بچے کی پیدائش کے دو چار ماہ بعد دونوں میاں بیوی کی ہیلو ہیلو شروع ہو گئی تھی جو آہستہ آہستہ قربت میں تبدیل ہوتی چلی گئی، ادھر بچہ سال کا وو گیا تھا ،وہ جب ثاقب کی گود میں آ کر بیٹھتا تو ثاقب کے چہرے پہ ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا ، نازیہ جھٹ سے بچہ اس کی گود سے اٹھا لیتی مگر وہ روتا اور لپکتا تھا ثاقب کی طرف،، کھڑی ماں کے ھاتھوں سے وہ ثاقب کی طرف لٹکتا اور اس کی طرف فریادی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اسے ماں سے لے لے ،، پھر اس نے اسے پاپا پاپا کہنا شروع کیا تو ثاقب کی اذیت مین مزید اضافہ ھو گیا ، بچہ جس کا نام احسان اللہ رکھا گیا تھا ،، رات کو ضد کرتا کہ وہ پاپا کے پاس سوئے گا ،،مگر ماں اس روتے دھوتے کو اٹھا کر اپنے پاس سلا لیتی ، بعض دفعہ بچے کی آنکھ کھلتی تو وہ ماں کے پاس سے اتر کر ثاقب کے بیڈ پہ چلا جاتا اور اس کے سینے پہ ھاتھ رکھ کر سو جاتا ،، ایک دن ثاقب پھر امام صاحب کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنی اس اذیت کا ذکر کیا کہ بچہ جب مجھے پاپا کہتا ھے تو میرے سینے پہ چھری چل جاتی ہے، اس پہ امام صاحب نے اسے سمجھایا کہ شریعت جب اسے اس کا پاپا تسلیم کرتی ہے تو اسے اتنی زیادہ ٹینشن نہیں لینی چاہیے ،دو سال گزر گئے تھے مگر ثاقب کے گھر کوئی نءامید نہیں لگی تھآخر اس نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا ،جس نے اسے بتایا کہ نازیہ کے ٹیسٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں البتہ وہ اپنا ٹیسٹ کرا لے، ٹیسٹ کے لئے سمپل دے کر ثاقب گھر آ گیا ،،تیسرے دن وہ فالو اپ کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر کے چہرے کی پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ! صدیقی صاحب آپ نے اس سے قبل کبھی یہ ٹیسٹ کرایا تھا ؟ جی نہیں ثاقب نے روانی میں جواب دیا ، ویسے انسان کو شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ ضرور کر لینا چاہئے تا کہ کسی کی بچی برباد نہ ہو، صدیقی صاحب ابھی کبھی بھی باپ بننے کے قابل نہیں ہیں ، ڈاکٹر صاحب بول رہے تھے اور ثاقب کا سر گھوم رہا تھا ، بیٹا مستقبل کو اللہ جانتا ہے ہم نہیں جانتے ، اس کی تقدیر کے پیچھے اس کی بڑی حکمتیں چھپی ہوتی ہیں ، اس کے کانوں میں مولوی صاحب کے الفاظ گونج رہے تھے !وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح واپس لوٹا تھا اور پھر اس نے تقدیر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ‘ اس نے احسان اللہ کو اللہ کا احسان سمجھ کر قبول کر لیا اور ٹوٹ کر اسے پیار کرنے لگا ،نازیہ بڑی حیرت کے ساتھ اس تبدیلی کو دیکھ رہی تھی مگر اس نے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی ثاقب نے اسے وجہ بتانے کی زحمت کی ! احسان اللہ کو مسجد میں مولوی صاحب کے پاس حفظ مین بٹھا دیا گیا ،بچہ بہت ذھین تھا ،، گھر والدہ اس کو اسکول کی تیاری بھی کراتی تھی ،حفظ مکمل کر کے احسان اللہ کو براہ راست پانچویں کلاس میں ڈال دیا گیا تھا !!دوسری جانب ذوھیب کی شادی بھی نازیہ کی شادی کے پندرہ دن بعد کر دی گئی تھی ، اور اللہ نے اسے بھی بیٹے سے نوازا تھا ، بیتا ذہین تو تھا مگر لاڈ پیار نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا تھا‘ ،وہ بچپن سے ہی ضدی تھا جوں جوں بڑا ہو رہا تھا اس کی ضد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہو رہا تھا ، احسان اللہ نے جس دن ایم بی بی ایس مکمل کیا تھا، نازیہ اور ثاقب کے پاو¿ں زمین پر نہیں لگتے تھے ،، اللہ پاک نے آج ان کے صبر کا پھل دے دیا تھا ‘ اگلے دن پتہ چلا کہ ذوہیب نے بیٹے کو رات نشے میں لیٹ نائٹ واپس آنے پر ڈانٹا جس پر بیٹے نے اینٹ باپ کے سر میں مار کر اس کا سر کھول دیا‘ بیہوشی کی حالت میں ذوہیب کو اسپتال داخل کر دیا گیا ،مگر بقول ڈاکٹر ذوہیب کی یاد داشت اور نظر دونوں کو خطرہ تھا ، ایک دو آپریشز کے بعد نظر کا مسئلہ تو تقریباً حل ھو گیامگر ذوہیب کی یاد داشت جواب دے گئی تھی اور اب وہ ایک خالی الذہن پاگل تھا ! وہ گھر سے باہر نکل جاتا ،کاروبار تباہ ہو گیا ،ذوہیب کو کبھی کسی درگاہ سے واپس لایا جاتا تو کبھی کسی نشہ خانے سے ، وہ چرس اور ہیروئین کے نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا ، ایک دن ثاقب ،نازیہ اور احسان اللہ شاپنگ کر کے گاڑی میں واپس آ رہے تھے کہ ایک جگہ ان کی گاڑی رش میں پھنس گئی ، اچانک ایک فقیر نے گاڑی کی ڈرائیور والی کھڑکی پر آ کر شیشہ بجایا ،، احسان اللہ نے جو کہ گاڑی چلا رہا تھا جونہی گا ڑی کا شیشہ بھیک دینے کے لئے کھولا ،کسی بچے نے اچانک اس فقیر کو دور سے پتھر دے مارا ، فقیر کے سر سے خون بہنے لگا جو سیدھا احسان اللہ کے ہاتھ پہ گرا، اس نے جھٹ سے گھبرا کر شیشہ بند کر دیا، گاڑی آگے چلی تو نازیہ نے اہئستہ سے ثاقب سے پوچھا‘ آپ نے فقیر کو پہچانا ؟نہیں ثاقب نے جواب دیا ، یہ ذوہیب تھا ،نازیہ نے جھرجھری لے کر کہا ! ثاقب نے چونک کر نازیہ کی طرف دیکھا اور اس کے کانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول گونجا جو اس کو امام صاحب نے بتایا تھا ،بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں‘احسان اللہ نے پریکٹس کرنے کی بجائے سی ایس پی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ڈائریکٹ اے ایس پی بھرتی ہو گیا، ابھی ٹریننگ مکمل کی تھی کہ بوسنیا کی جنگ میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کو تحقیقات کے لئے پاکستان سے 25 پولیس افسروں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے احسان اللہ کا انتخاب ہوا ، 6 فٹ دو انچ کا احسان اللہ اپنے گورے رنگ اور انگلش کی وجہ سے انگریز ہی لگتا تھا ،سارے افسر ڈیپوٹیشن سے واپس آ گئے مگر احسان اللہ کو اقوام متحدہ نے ریلیز کرنے سے انکار کر دیا ، بوسنیا کے بعد روانڈا کے جنگی جرائم کی تحقیق بھی احسان اللہ کے ذمے تھی ، نازیہ اور ثاقب بھی نیویارک میں اپنی بہو کے پاس ہیں ، اس دوران ذوہیب کو مردہ حالت میں کہیں سے اٹھا کر ایدھی والوں نے دفنا دیا تھا ،گھر والوں کو بعد میں خبر ملی تھی وہ ایدھی سنٹر گئے تو انہیں ذوہیب کے خون آلود کپڑے ، سگریٹ ،ماچس اور 50 روپے پکڑا دیئے گئے۔

No comments:

Post a Comment