(اخلاص کا ایک پہلو جو نگاہ سے اوجھل رہتا ہے)
*محی الدین غازی*
آج کل عربی سوشل میڈیا میں لیبیا کے عظیم مرد مجاہد اور بڑے مفتی شیخ صادق غریانی کا فتوی موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں فتوی دیا ہے کہ جو لوگ ایک بار حج کرکے حج کا فرض ادا کرچکے ہیں، اور ایک بار عمرہ کرکے عمرے کی سنت ادا کرچکے ہیں، انہیں بار بار حج اور عمرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ حالیہ سعودی حکومت حج اور عمرے سے حاصل ہونے والی بہت بڑی آمدنی یمن، لیبیا اور دوسرے مسلم ملکوں میں مسلمانوں کا خون بہانے اور عالم اسلام میں فتنہ پھیلانے پر صرف کررہی ہے۔ اس کے علاوہ حج اور عمرے سے حاصل ہونے والی رقم کا خطیر حصہ سعودی حکومت اسلام دشمن امریکہ کو دے دیتی ہے۔ ان حقائق کو جانتے بوجھتے ایک بار سے زیادہ حج اور عمرہ کرنا قاتلوں اور ظالموں کی مدد کرنے میں شمار ہوسکتا ہے۔
اس فتوے نے یاد دلایا کہ علامہ یوسف قرضاوی بھی اس سے پہلے فتوی دے چکے ہیں کہ بار بار حج اور عمرہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کو چاہئے کہ یہ بڑی رقومات دین کی خدمت ونصرت کے اہم کاموں میں صرف کریں۔
ماضی میں عظیم اکابر تربیت کا مشورہ بھی یہ رہا ہے کہ بار بار حج اور عمرہ کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنی دولت سے اپنے علاقے کے غریبوں اور تنگ دستوں کی ضرورتیں پوری کرے۔ امام غزالی نے اپنی بے مثال کتاب احیاء علوم الدین میں ایک باب باندھا ہے ان لوگوں کے سلسلے میں جو دین پسند بھی ہیں، مال دار بھی ہیں، مگر دھوکے کا شکار ہیں۔ ان لوگوں میں انہوں نے ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جو بار بار حج کرنے جاتے ہیں، اور ان کے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں۔ امام غزالی نے اپنی بات کی تائید میں حضرت ابن مسعود کا قول بھی نقل کیا ہے۔
اسی حوالے سے امام غزالی نے زاہد زمانہ حضرت بشر(Bishr) الحافی کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جس کی غیر معمولی تربیتی اہمیت ہے۔
ابو نصر تمار کہتے ہیں، کہ ایک آدمی بشر بن حارث کے پاس آیا اور کہا میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا ہے، آپ کو وہاں سے کچھ چاہئے ہو تو حکم فرمائیں۔ بشر نے کہا تم نے اخراجات کے لئے کتنی رقم اکٹھا کی ہے، اس نے کہا دو ہزار درہم (چاندی کے سکے)۔ بشر نے پوچھا حج کرنے کا تمہارا محرک کیا ہے، آیا دنیا سے بے رغبتی ہے، یا خانہ کعبہ کا اشتیاق ہے، یا اللہ کی رضا چاہتے ہو؟ اس نے کہا اللہ کی رضا مطلوب ہے۔ انہوں نے کہا: اچھا اگر ایسا ہوجائے کہ تم اپنے گھر میں رہتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کرلو، اور دو ہزار درہم اس یقین کے ساتھ خرچ کرلو کہ تمہیں اللہ کی رضا مل جائے گی، تو کیا تم ایسا کرو گے؟ اس نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا: تو جاؤ یہ سارے درہم دس لوگوں میں تقسیم کردو۔ ان سے کسی قرض دار کا قرضہ اتر جائے، کسی تنگ دست کی حالت سدھر جائے، کسی صاحب عیال غریب کی مدد ہوجائے، کسی یتیم کے چہرے پر خوشی دوڑ جائے۔ اور اگر تمہارے دل میں اتنی قوت ہو کہ یہ سارے درہم کسی ایک کو دے سکو تو دے دو۔ جان لو کہ اگر تم مسلمان کے دل میں خوشی داخل کردیتے ہو، مصیبت زدہ کو بچالیتے ہو، تکلیف کو دور کردیتے ہو، کمزور کی مدد کردیتے ہو، تو یہ فرض حج ادا کرلینے کے بعد سو بار حج کرنے سے بہتر ہے۔ جاؤ ہم نے جیسے کہا ہے، ویسے خرچ کرو، ورنہ بتاؤ تمہارے دل میں کیا ہے۔
اس نے کہا: یہ سفر میرے دل میں زور پکڑے ہوئے ہے۔ اس پر بشر مسکرائے،
*اس کی طرف توجہ کی اور کہا: جب مال میں گندگی شامل ہوجاتی ہے، تو نفس تقاضا کرتا ہے کہ اس سے کوئی خواہش پوری کی جائے، اس کے لئے نفس اچھے کام بھی دکھاتا ہے۔ جب کہ اللہ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ وہ صرف پرہیزگاروں کا عمل قبول کرے گا۔*
معلوم ہوا کہ خواہش نفس کبھی اچھے کاموں کی صورت بھی اختیار کرلیتی ہے۔ اس لئے نیک کام کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ اس وقت میری صلاحیت، میری دولت اور میری توانائی اچھے کاموں میں لگانے کے بارے میں میرا دل کیا چاہتا ہے، اور اللہ کی رضا کس میں ہے۔
وقت کی مناسبت سے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عظیم الشان افطار پارٹی کا ارادہ کرنے سے پہلے اپنے دل سے پوچھیں کہ افطار کرانا تو نیکی کا کام ہے، لیکن معززین شہر کی افطار پارٹی کرنے اور غریبوں کو تلاش کرکے ان کے لئے افطار کا انتظام کرنے میں کون سا کام ہے جو اللہ کی رضا تک پہونچانے والا ہے۔ کیا آپ افطار پارٹی اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے کررہے ہیں یا اللہ کو خوش کرنے کے لئے؟ اور اگر اللہ کو خوش کرنا مقصد ہے تب یہ ضرور جاننا چاہئے کہ اللہ کس کام سے خوش ہوگا؟
اخلاص صرف یہ نہیں ہے کہ اچھا عمل اللہ کے لئے کیا جائے، اخلاص یہ بھی ہے کہ عمل سے پہلے جانا جائے کہ اللہ کو اس وقت آپ سے کون سا عمل مطلوب ہے، اور پھر جس عمل کے بارے میں آپ کا دل گواہی دے کہ وہ اللہ کو مطلوب ہے بس وہی عمل کرنے کا فیصلہ کریں، چاہے آپ کی اپنی خواہش اس کام کی جگہ کوئی دوسرا اچھے کام کرنے پر اصرار کررہی ہو۔
*اس گفتگو میں حضرت بشر نے اپنے دل کی فکر رکھنے والوں کو ایک اور پتے کی بات بتائی، عام طور سے لوگ کسی ایک محتاج کو بڑی رقم نہیں دے پاتے ہیں، اس کے بجائے چھوٹی چھوٹی رقمیں بہت سے محتاجوں کو آسانی سے دے دیتے ہیں۔ ایسا دل کی تنگی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دولت مند کے لئے کسی غریب کو غربت سے نکلتے دیکھ پانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایک محتاج کو بڑی رقم دینے کے لئے دل کی غیر معمولی کشادگی اور قوت درکار ہوتی ہے۔ مومن کو صحت مند جسم، توانا دماغ اور طاقت ور دل والا ہونا چاہئے۔*
No comments:
Post a Comment