Pages

Sunday, 17 March 2019

آیئے ایک کہانی سنتے ہیں


کہانی میں رنگ بھرتے ہیں
اک پنا تم کہو
اک میں سناتی ہوں
کچھ اس میں لوگ ہیں
کچھ باتیں ہیں ماضی کی
وہ بیٹھے ہیں چھاوں میں
بارش ہے ان پہ آنسووں کی
اک بیٹا کھو دیا ہے
چار پڑے ہیں سوچوں میں
اک پنہ یہاں تمام ہوا
دوسرا کھولو تم سناو!
جہاں قاتل ملے نہ صبر آئے
تیر اپنا سا کچھ لگتا ہے
وہ لوگ بہتے دھارے میں
موجوں سے الجھتے رہتے ہیں
رنگوں میں باتیں ہیں
اور باتوں میں لذت ہے
وہ دیکھو وہ سنو !
کچھ ایسی ہی سرگوشی ہے
اس کہانی میں اک بھائی ہے
کہانی میں ہے اک بہن بھی
بیچ میں ساری دھرتی ہے
دیکھو اب انجام کیا ہو
مقتول بھی ہے قاتل بھی
پر لپٹا ہے کچھ دھند میں!
جہاں دیکھ رہا نہ کوئی ہے
سب بات کی سرا وہیں ہے
آئیے آج یہ کہانی سنیئے
کچھ سنا دی کچھ ابھی باقی ہے
کچھ سانس کو میں ٹھہری تھی
کچھ خوف سے بھیگے چہرے تھے
کہیں گھر سے نکلی بہنیں تھیں
کہیں اٹھتا ہوا جنازہ تھا
ابھی ہلکا سا سائرن گونجا تھا
فضا میں خوشیاں ابھی باقی تھیں
ابھی سہاگ کی مہندی کے
رنگ کچھ باقی تھے
ابھی سامان پہ لگا اسٹیکر بھی
سامنے ہی چمک رہا تھا
اچانک سے سور پھونکا گیا جیسے
پھر ہر سو اک قیامت تھی
کہیں ماتم تھا کہیں گالی تھی
جل دل بھی رہا تھا
وجود میں جیسے جان نہ تھی
اک بچی پاس ہی بیٹھی
خوف سے سب دیکھ رہی تھی
ابھی تو یہ قہقہے لگا رہے تھے
اب یہ گریباں پکڑے ہیں!
الہی کیا یہ ماجرا ہے؟
کہ قرآن نے اس کو پکار دی
قصاص میں ہی زندگی ہے!
قصاص بعد بس بچی موت ہے
اور موت کا سایہ پھیل گیا
چار میں سے اک اور گیا
باقی بچے اب تین ہیں
تین بہنیں واپس گئیں
رہ گئی اب ایک ہے
وہ بچی جو دیکھ رہی تھی
اس کی معصومیت لٹی ہے
جو دن تھے گڑیا کھیلنے کے
ان میں وہ یہ دیکھے گئی ہے
کہانی کا یہ موڑ ہوا تمام
پر اک پنا ابھی باقی ہے
وہ بچی جو دیکھ رہی تھی
وہ سنا رہی اب تم کو کہانی ہے!
آئیے اس کہانی کو
دیتے اک انجام ہیں
لگی ہوئی عدالت تھی
اک بہن ہی کھڑی سامنے تھی
اک بھائی بھئی تھکا ماندا
پاس کچھ اپنے تھے
اور پوچھ رہی عدالت تھی
بھائی کا سر جھکا ہوا تھا
کہہ رہا تھا سر یہ خود کشی تھی
پر زبان اس کی لڑکھڑائی تھی
وہ اس کا گبرو جوان پتر
وہ اور کہاں یہ خود کشی تھی
پر سامنے کھڑی بھی بہن تھی
اک چلا گیا ! پر باقی بچانا تھا
پگڑی اتارے وہ
اتر گیا تھا روسٹرم سے
اور عدالت ہوئی برخاست تھی
پھر لگی اک نیلامی
بک گئیں جاگیریں ساری
شہزادے بنے اب ملازم تھے
کوئی پردیس تھا کوئی ڈرائیور تھا
جو شان سے بیٹھا کرتے تھے
وہ لوگوں کی باتیں سنتے ہیں
وہ جو ہر روز کپڑے بدلتی تھی
وہ بچی اب سال نکالنے لگی تھی
عید کی عید سوگ بچا تھا
وہ موبائل میں بسنے لگی تھی
باہر سے کٹ کر وہ
اس سکرین سے جڑنے لگی تھی
پر کھلی اس کی ان نم آنکھوں میں
وہ منظر آج بھی قید تھا
جب بیٹھے سب تھے چھاوں میں
خوشیاں ان پہ رقصاں تھیں
بنت عباس سوچ رہی ہے
وہ بچی بھی اک مورت تھی
قاتل اس کے سامنے تھے
اور وہ سوچ رہی کچھ اور تھی
نیلامی کا جو مال تھا
اس میں اس کی اک گھڑی تھی
اس گھڑی پہ لگی اک گڑیا تھی
وہی اس کو چاہئیے تھی
پر ہلک میں پڑا کانٹا تھا
زباں پہ لگے تالے تھے
اتنی سی یہ کہانی تھی
وہ بچی وہیں بیٹھی تھی

No comments:

Post a Comment