امام ابو زرعہ مشہور جلیل القدر محدث ہیں، وہ تیسری صدی ہجری میں پہلے شام اور پھر مصر کے قاضی بھی رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے شافعی عالم جن کو قضاء کا منصب تفویض کیا گیا، اور شام میں انہی کے ذریعہ شافعی مسلک کی نشر واشاعت ہوئی۔ وہ اتنے رقیق القلب تھے کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ فلاں شخص پر میری اتنی رقم واجب ہے، انہوں نے مدعا علیہ کو بلا کر پوچھا تو اس نے اقرار کرلیا۔ آپ نے مدعی کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مدّعا علیہ کو حکم دیا کہ "مدعی کی رقم ادا کردو"۔ اس پر مدعا علیہ کی آنکھ میں آنسو آگئے، امام ابو زرعہ رح نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ "میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا تھا، اس لئے اقرار کیلئے مجبور تھا، لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں قرض ادا کر سکوں، لہٰذا آپ مجھے جیل بھیج دیجئے۔" امام ابو زرعہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ سن کر مدّعی کو بلایا، اور قرض کی رقم اپنے پاس سے اس کو ادا کی، اور مدّعا علیہ کو چھوڑ دیا۔
اس واقعے کی شہرت ہوئی تو لوگوں نے یہ وطیرہ بنا لیا کہ وہ اپنے خلاف قرض کا اقرار کرتے، اور جب ادائیگی کا حکم سُنتے تو اپنی مفلسی کا عذر پیش کر کے رو پڑتے، اور قید خانے میں جانے پر آمادگی ظاہر کر دیتے، لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ بعض لوگ حیلہ کرنے لگے ہیں، امام ابو زرعہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنا طریقہ نہیں بدلا، اور آخر تک یہی معمول رہا کہ ایسی صورت میں رقم اپنی جیب سے ادا کر کے مدعا علیہ کو قید سے بچا لیتے تھے۔ [رفع الاصر عن قضاۃ مصر ص۱۱۹ و کتاب القضاۃ الکندی ص۵۳۲]۔
Pages
▼
No comments:
Post a Comment