ہربچہ کچھ رجحان لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہ رجحان شرارت کا ہوسکتا ہے،مزاح کا ہو سکتا ہے،گانے کا ہوسکتا ہے،لکھنے کا ہوسکتا ہے یاپھر وہ رجحان روحانیت کا ہو سکتا ہے۔جب بچہ حالات کا سامنا کرتا ہے تو رہنمائی کرنے والے لوگ ملتے ہیں تو پھر اس کی شخصیت منظم ہوناشروع ہوتی ہے۔تاریکی میں رہ تاریکی کا حصہ بن جانے سے کبھی شخصیت منظم نہیں ہوتی۔شخصیت منظم اس وقت ہوتی ہے جب تاریکی میں رہ کر اجالے کا خواب دیکھاجائے۔
منظم شخصیت میں اخلاقیات کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔اخلاقیات کے مضمون کو چاہے دین میں پڑھا جائے یا پھر یونیورسل اخلاقیات کی کتابوں میں پڑھا جائے تو ایک ہی پیکج ملتا ہے اور وہ پیکج یہ ہے کہ کسی شخص کے اٹھنے، بیٹھنے اور سوچنے کے انداز میں جو ردِ عمل ہوتا ہے وہ اخلاقیات کہلاتا ہے۔اخلاقیات کسی نہ کسی طور پر پہلے سے شخصیت میں ہوتی ہے۔اگر یہ پہلے سے نہ ہو تو اس کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ایک باباجی بچوں کے حفاظتی مرکز میں گئے اور کہنے لگے کہ میرے بڑے مجھے حفاظتی انجیکشن لگوانا بھول گئے تھے لہذا اب میں حفاظتی انجیکشن لگوانے آیا ہوں۔مرکز والوں نے جواب دیا ، باباجی اب وقت گزر چکا ہے اگر یہ اس وقت لگ جاتا تو اچھا ہوتا۔ اس لیے یہ اب نہیں لگ سکتا۔اسی طرح انسان میں اخلاقیات وقت پر پیدا ہو جائیں تو ٹھیک ہیں وگرنا منظم شخصیت بننا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سخت برتن کے باہرتو ڈئزائن بنائے جا سکتے ہیں لیکن اس کو اندر سے بدلنا مشکل ہو تا ہے۔ آج جدید نفسیات یہ کہتی ہے کہ انسان میں ساٹھ فیصد رویوں کی وراثت پائی جاتی ہے۔حضوراکرمﷺ کے ارشادِ مبارک کا مفہوم ہے کہ ایک باپ کی طرف سے بہترین وراثت تربیت ہے۔ ایک باپ جو تربیت کرتا ہے اس سے اچھی وراثت اورکوئی نہیں ہو سکتی۔اگر تربیت اچھی ہوگئی تو پھر کسی قسم کی دولت دینے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ وہ خود ہی دولت بنا لیتا ہے۔ ایک ماں سگمنڈفرائڈ کے پاس دوسال کا بچہ لے کرآئی اور کہنے لگی کہ میں نے اپنے بچے کو بڑا انسان بنا نا ہے، آپ بتائیں میں کیا کروں۔سگمنڈفرائڈ نے کہا ،آپ لیٹ ہوچکی ہیں۔ اس عورت نے پوچھا وہ کیسے؟سگمنڈفرائڈ نے کہا ، پہلے تمہاری تربیت ہونی تھی پھر اس پراثرات پڑنے تھے۔ وہ کیا ماں ہوگی جو شکر کی پڑیابچے کی جائے نماز کے نیچے رکھ نماز پڑھنے کی ترغیب دیتی تھی۔آج کی ماں میں ایسی ذہانت کہاں سے پیدا ہو جو بچوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی ترغیب پیدا کرے۔حضرت سری سقطی ؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ؒ وقت کے بادشاہ کے پاس گئے تو وہ آپ ؒ کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔بادشاہ سے ملنے کے بعد جب آپؒ گھر پہنچے تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ ماں نے دیکھا اور آپؒ سے پوچھا یہ مسکراہٹ کیسی؟آپؒ نے جواب دیا ، آج میرے احترام میں بادشاہ کھڑا ہوگیا۔ والد ہ نے جب یہ سنا تو ان کا چہرہ پیلا ہوگیا۔آپ ؒ نے پوچھا ماں جی کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی؟ والدہ فرمانے لگی ، مجھے حلال کمانے کا وقت یاد آرہا ہے جب تم پیٹ میں تھے تو میں سوت کاٹتی تھی ،کھاتی تھی اور تجھے پالتی تھی۔ یہ اس حلال کمائی کی طاقت ہے کہ بادشاہ تیرے احترام میں کھڑا ہو گیا�آ بعض لوگ بہت قابل ہوتے ہیں لیکن ان میں اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ ایسے لوگ جو مرضی کر لیں آخر کارناکامی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اتنے زیادہ قابل تو نہیں ہوتے لیکن اخلاقیات کے لحاظ سے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے جیسے جیسے انسان ترقی کرتا ہے اسی طرح اس کی اصلیت بھی سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے کرپٹ کے لفظ کو صرف تین چیزیں یعنی شرابی، زانی اور جواری سمجھ لیا ہے۔یہ تین چیزیں ہم نہیں ہوتی لیکن اور طرح کی ہزار خامیاں پائی جاتی ہیں۔تعصب کتنا بڑا گناہ ہے یہ ہم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے لیکن اس کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا۔ نفرت کتنا بڑا گناہ ہے اس کے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کرتے اسی طرح حسد ، کینہ ،غیبت بہت بڑے گناہ ہیں لیکن ان کے متعلق کبھی ہمارا خیال ہی نہیں جاتا۔آج معاشرے میں ہر کوئی نمبر لینے کے چکر میں ہے لیکن ان بیماریوں کی طرف بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ہمارے معاشرے میں وعدہ پورا کرنے والوں کی بہت زیادہ کمی ہے ۔اگر ہم وعدہ پورا کرنا شروع کر دیں کچھ ہی عرصہ میں زند گی بدل جائے گی۔ ہمارے مسجدوں کے ممبر دین کے اس پہلو پر روشنی نہیں ڈال رہے کہ دین پر عمل کرنے سے دنیامیں ہمیں کتنا زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ جنت دنیا میں ہی بنتی ہے کیونکہ بندہ جس سمت سفر شروع کرتا ہے اس طرف کی ہواآنا شروع ہو جاتی ہے۔ جو شخص اخلاقی طور پر اپنے آپ کو مضبوط نہیں کررہا وہ خسارے میں ہے۔ جس میں اخلاقی خصوصیات ہوتی ہیں اس کی زیادہ مانگ ہوتی ہے۔اخلاقی طور پر مضبوط شخص ویسے ہی روحانی ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنی کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کا کرم سمجھتا ہے تو اس کے منہ سے شکر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہم پیشہ وارانہ لحاظ سے بہترین انسان بننا چاہتے ہیں لیکن اندر سے ہم گھٹیاہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ تمام احکام جن کا شریعی طور پر حکم ہے اور ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کے بارے میں ہم فکرمند نہیں ہیں۔ آج ہماری عبادتیں اوپر چلی گئی ہیں لیکن اخلاقیات میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔جو شخص اپنی چالاکی سے نفع بناتا ہے وہ اس کے گلے پڑ جاتا ہے۔ جب تک کامیابی منسوب نہیں ہوگی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اس وقت تک سکون نہیں ہو سکتا۔اس لیے ہمارے اخلاقیات کی بنیاد ایمان ہونا چاہیے۔ ایمان یہ کہتا ہے نقصان کروالو نفع ہو جائے گا۔ فیصلہ جب کریں عقل پر نہ کریں بلکہ ایمان پر کریں۔کبھی ایمان سے کسی نفع دے کر دیکھیں وہ نیکی آگے چل کر آپ کوفائدہ دے گی۔
اخلاق ، اخلاق کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے۔ جب اچھی مثالیں دیکھی ہو ں توویسی مثال بننے کو دل چاہتا ہے۔اچھائی کے بچے کا نام اچھائی ہے اور برائی کے بچے کا نام برائی ہے۔ جب بندہ اخلاق کا اچھا ہوتو دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اچھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم صرف اچھی باتوں سے اچھا ہونا چاہتے ہیں۔ ہماری نصیحتیں دوسروں کو تبدیل نہیں کرتی بلکہ ہمارا اخلاق دوسروں کو تبدیل کرتا ہے کیونکہ جہاں پہ معافی دی جاتی ہے اور معافی لی جاتی ہے تہذیب وہیں پرہوتی ہے۔
~ سید قاسم علی شاہ ~
0 comments:
Post a Comment