شادی کے پہلے عائشہ کو ایسا لگا کہ بچے پیدا کرنا کوئ بڑی بات نہیں ،جب دو جسم ایک ہونگے گو ماں باپ بنیں گے ہی اس میں خدا سے اتنی منت کیوں؟اس میں خدا کی مرضی کہاں؟یہ تو ان دونوں کی ضرورت ہے۔کچھ ایسا ہی دماغ میں عائشہ کے بنا ہوا تھا۔اور ہمیشہ کہتی بھی تھی کہ شادی کے کم سے کم دو سال تک بچے پیدا کرنے کا سوچوںگی بھی نہیں۔ماں باپ نے لڑکا دیکھا شادی کی تیاریاں اور پھر ایک دن شادی کے اس عظیم بندھن میں بندھ گئی۔اب ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی جس میں کسی کی بہو،کسی کی بیوی بن گئی تھی۔بیٹی اور بہن تو پہلے سے تھی ہی۔لیکن ماں جیسا نا دل تھا نا دماغ ۔اسے تو ہمیشہ بس یہی لگا کہ وہ جب چاہے گی تب ماں بن جائے گی۔خوشی کے یہ دن بڑی خوشی سے بہت رہے تھے۔
شادی کے پانچ مہینے بعد ایک دن جب وہ صبح بستر سے اٹھی تو اتنی تھکان تھی کہ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اتنے سالوں میں تو اسے کبھی ایس تھکان نہیں لگی۔تین چار گھنٹے بعد ہی اسے سر میں بھاری پن لگنے لگا ،بار بار بستر پر لیٹتی پھر سوچتی کہ آج اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟اس نے سن رکھا تھا کہ عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو ایسی ہی بےچینی ہوتی ہے۔لیکن اسے اس پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ابھی سے حاملہ ہو سکتی ہے۔پورا دن اسی خیال میں بیت گیا کیونکہ وہ ایک گھریلو عورت جو تھی۔شام کو وہ اکیلے ہی کسی کام سے بازار گئی جو اس کے ہاں سے قریب ہی تھا۔جب اس کا گزر میڈیکل شاپ سے ہوا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ حاملہ امتحان (pregnancy test ) کرلے،کہیں ایسا تو نہیں جو وہ سوچ رہی وہی تو سچ نہیں۔
عائشہ نے ٹیسٹ کٹ(test kit) لیا۔ اب من میں اتنی ہلچل ۔۔۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ٹیسٹ میں کیا آئے گا؟اور اس طرح کے کئی سارے خیالوں نے دماغ پر قابو پا لیا۔
گھر پہنچی اور ٹیسٹ کیا۔اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ٹیسٹ پازیٹو (positive)تھا۔گھر پر وہ ابھی بھی اکیلی تھی۔خاوند کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا جو شاید دیر رات تک آئے گا۔کیا کرے؟کسے بتائے؟ اس کی خوشی کا ٹھکانا نا تھا۔وہ بار بار اپنے پیٹ پر ہاتھ لگاتی اس ننھی جان کو محسوس کرتی جو صرف ابھی کچھ ہی دنوں کا تھا۔یہ لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خاص لمحہ تھاجس میں اس کے اندر ایک ننھی جان تھی۔
دل و دماغ میں ایک الگ ہی بے چینی تھی۔اچانک اسے دروازے کے کھٹ کھٹانے کی آواز سنائی دی۔اس نے جلدی سے دروازہ کھولا،اپنے خاوند کو دیکھ وہ اتنی خوش ہوئی کہ ہونٹوں پہ مسکان ،آنکھوں میں شرم اور ماں بننے کی خوشی ۔وہ لمحہ بہت خوبصورت لمحہ تھا۔وہ اپنے خاوند کو سب کچھ جلدی بتا کر خوش کرنا چاہ رہی تھی۔اب ایک لمحہ بھی گنوانا اسے گوارہ نہیں تھا۔ان کا غسل خانے سے نکلنے کا انتظار اتنی بے صبری سے ہو رہا تھا جتنا شادی کے وقت بھی نہیں ہوا ہوگا۔کیسے بتاؤں گی؟کیا کہوںگی؟کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔جب خاوند باہر آئے اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کی آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔
اب اور صبر برداشت سے باہر تھا اور صبح سے لیکر شام تک کی تمام باتیں ایک ہی بار میں بتادیں۔خاوند بہت خوش ہوئے ۔نا چاہتے ہوئے بھی اس خوشخبری کو چھپا کر نہیں رکھ سکے اور گھر کے بڑوں کو فون پر بتانے لگے۔اس دن عورت ہونے کا احساس بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔عورت کے وجود کے بارے میں اس دن پتا چلا کہ ایک لڑکی جب ماں بنتی ہے اس کا احساس ہی دنیا کی تمام خوشیاں اس کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ان تمام خوشیوں کے بیچ ایک ڈر جو اس کے دل میں گھر کرتا جا رہا تھا وہ یہ کہ اس ننھی جان کو نو مہینے تک اپنے میں محفوظ رکھنا۔کیا کرے کہ اس سے کوئی بھی غلطی نہ ہو،دھیرے چلنا،دھیرے سے بیٹھنا۔ہر لمحہ کسی کے ساتھ ہونے کا احساس۔ہر وقت جو اس کا خاوند اس کا خیال رکھتا،سیڑھیوں میں ہاتھ پکڑ کر چلاتے تو لگتا جیسے دنیا میں اس سے زیادہ خوش نصیب کوئی ہے ہی نہیں۔کوئی بھی کام ہو مدد کے لئے تیار رہتے،وزن اٹھانے نہیں دیتے۔اتنی محبت جیسے وہ سنبھال ہی نہیں پا رہی تھی۔ایک ننھی جان اتنی ساری خوشیاں دے سکتا ہے۔اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اچانک ایک دن صبح میکے سے فون آ یا کہ اس کے والد کو لقوہ ہوا ہے۔وہ تو جیسے ایک لمحہ کے لیے پاگل ہی ہو گئی ،والد جسے وہ سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔ان کے ساتھ ایسا ہو گیا۔رو رو کر برا حال تھا۔کسی نہ کسی طرح خود کو سنبھالا اور والد سے ملنے چلی گئی۔ایک طرف والد جو اسپتال میں بھرتی تھے اور دوسری طرف وہ ننھی سی جان جس کے وجود کی ابھی شروعات ہی تھی۔
بے قراری کھائے جا رہی تھی۔رفتہ رفتہ والد کی صحت کچھ بہتر ہونے لگی۔وقت اپنی رفتار سے بڑھتا جا رہا تھا۔ہر وقت بے چینی سی لگی رہتی اور سات مہینے گزر گئے۔اب وہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہنے لگی تھی۔لیکن دل ہمیشہ اس ننھی جان کو محسوس کرتا ۔جب پہلی دفعہ اس ننھی جان نے پیٹ میں ہلچل کی وہ احساس اتنا اچھا تھا کہ بیاں نہیں کیا جا سکتا پھر تو ہر روز اس ننھی جان کو محسوس کرنے کا احساس کچھ الگ ہی تھا۔
نو مہینے کب گزر گئے پتا ہی نا چلا۔ڈلیوری کا وقت قریب ہی تھا۔اس لیے فون کر ماں کو بھی اپنے پاس بلوا لیا۔عشاء کی آزان ہوئی تھی کہ اچانک اسے درد شروع ہونے لگے۔
خاوند بھی ان دنوں اسے اکیلے چھوڑ کہیں نہیں جاتے کے کب کچھ ہو جائے اس لئے اس کے پاس ہی تھا۔
خاوند نے جلدی سے گاڑی بلوائی اور تینوں اسپتال کی طرف چل دئے۔
عائشہ کے خاوند اور ماں دونوں بہت فکر مند تھے۔ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں بچہ اور ماں کو کئی تکلیف نہ ہو جائے۔اسپتال پہنچتے ہی داخل کر لیا تھا ۔لیکن موجود کوئی نرس نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشانی ہو رہی تھی۔
یہاں عائشہ جیسی دو عورتیں اور موجود تھیں جو درد سے تڑپ اور زور زور سے چلا رہیں تھی۔
اچانک کمرے میں ایک نرس آئی جو وضع قطع سے بالکل بھی نرس جیسی نہیں لگ رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی صاف صفائی کرنے والی ہو۔کونے والی عورت سے طنزیہ کہنے لگی جو بہت دیر سے درد سے تڑپ رہی تھی۔"ہر سال آجاتی ہے 1400 روپے لینے،شرم تو آتی نہیں تجھے"۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔میں لیبر ٹیبل پر لیٹی درد سے رو رہی تھی،نرس نے ڈھارس بندھانے کے بجائے اتنے زور سے ڈانٹا کہ میری کپکپی چھوٹ گئی۔لیکن مجھ سے یہ درد اب سہن بھی نہیں جا رہا گھا۔وہ ایک بار پھر سے میری طرف لپکی اور کہنے لگی۔"کیوں پورے اسپتال کو سر پر اٹھا رکھا ہے،تو اکیلی تو بچہ پیدا نہیں کر رہی،چپ ہوجا نہیں تو دھکے مار کر باہر نکال دونگی"۔
میں اب اپنا درد بھول پاس والی اس عورت کو دیکھنے لگی جس کے پیٹ پر وہ دونوں ہاتھوں سے زور زور سے دھکا لگا رہی تھی۔
میری ماں جو میرے پاس ہی بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی نے اس نرس سے کہا کہ تم یہ کیا کر رہی ہو؟تو اس نے ماں کی طرف غصہ بھری نظروں سے دیکھا اور بولی۔"ڈلیوری کیسے کرانی ہے مجھے مت سکھاؤ"۔
ماں بھی ایک کونے میں میرے پاس بے بس ہو کر رہ گئی۔
نرس نے چلاتے ہوئے ایک بار پھر پاس والی ٹیبل پر لیٹی اس عورت جسکے پیٹ پر وہ زور زور سے دھکے لگا رہی تھی ۔بولی "اس کے ساتھ کون ہے؟"جب وہاں موجود عورتوں میں سے کوئی نہیں بولا تو غصے سے کہنے لگی۔بھاڑ میں جاؤ کہاں کہاں سے آجاتی ہیں مرنے۔
میں پہلی دفعہ اپنے حاملہ ہونے سے ڈر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا یہ سب بھی سہنا پڑتا ہے۔ اس نرس نے ایک دفعہ پھر سے اس عورت سے کہا "جتنا زور تو چیخنے چلانے میں لگا رہی ہے اتنا زور بچے کو دھکیلنے میں لگا۔خود زور نہیں لگا سکتی تو اپنے خاوند کو بلالے،وہ آکر زور لگا دیگا"۔
کمرے کا یہ حال مجھ سے اب دیکھا نہیں جا رہا تھا۔مجھ پر اب درد کی وجہ سے بے ہوشی غالب ہوئے جا رہی تھی۔تین چار گھنٹے کے بعد جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو کسی اور کمرے میں پایا۔بغل میں ایک پیاری سی خوبصورت بیٹی بغیر رویے لیٹی ہوئی تھی۔ جو شاید اب اس دنیا میں نہیں تھی۔
ختم شد
No comments:
Post a Comment