Pages

Tuesday, 8 January 2019

*دِل کی اَتھاہ میں اَثر کرتی تحریر*

جناب ہرزل کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ اس موضوع کے بارے نہ سوچیں۔
*فلسطین*
میری ملکیت نہیں۔
اس لیے میں فلسطین کی زمین کا ایک بالِشت بھی نہیں بیچ سکتا۔
فلسطین سارے مسلمانوں کی ملکیت ہے۔
میرے باپ دادا عثمانیوں نے اس زمین کی خاطر سینکڑوں سال جہاد کیا،
اس کی مٹی میں مسلمانوں کا خون شامل ہے،
جس کی گواہی میری عوام نے دی ہے۔
یہودیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنے پیسے (لاکھوں) اپنے پاس محفوظ رکھیں۔
اگر خلافت کا شیرازہ بکھر گیا تو وہ فلسطین کو بغیر قیمت کے لے لیں گے۔
لیکن جب تک میں زندہ ہوں ،
*الله کی قسم*
کھا کر کہتا ہوں کہ
چُھری کیساتھ میرے بدن کو کاٹنا زیادہ آسان ہے
*اس بات سے کہ دیار الاسلام سے فلسطین کو کاٹا جائے۔"*
یہ الفاظ ہیں خلافت عثمانیہ کے آخری مضبوط بادشاہ
*خَلِیفَہ عَبدُالحَمِید ثانی* کے،
جو انہوں نے انیسویں صدی کے آخر میں اپنے دورِ خلافت کے دوران صہیونیوں کے بانی تھیوڈور ہرزل اور دیگر یہودیوں کے لیے کہے۔
جو آج بھی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے ہیں۔

خلیفہ عبدالحمید ثانی 21ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد عبدالمجید اول خلافت عثمانیہ کے 31 ویں خلیفہ تھے۔
31اگست 1876ء میں 34سال کی عمر میں خلیفہ عبدالحمید ثانی خلافت عثمانیہ کے 34 ویں اور خلافت عثمانیہ کے آخری مضبوط ترین خلیفہ بنے۔
خلافت عثمانیہ کی باگ دوڑ آپ کو ایسے وقت میں ملی،
جب دنیا پر استعماری غالب تھے،
اور خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے باہم اتحاد کر چکے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب خلافتِ عثمانیہ ایک طرف اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف خلافت عثمانیہ قرضوں اور سازشی منافقوں کے بیچ گھری ہوئی تھی۔
چنانچہ کچھ یہودیوں نے خلافت عثمانیہ میں اعلیٰ عہدوں کے لیے منافقت کرتے ہوئے اسلام قبول کیا۔
یہی یہودی تھے جنہیں تاریخ میں *"دونمہ کے یہود"* کے نام سے جانا جاتاہے۔
جس کا ترکی زبان میں مطلب ہے "یہودیت سے مرتد ہونے والے یہودی"۔
یہ یہودی مسلمانوں کے درمیان عام طریقے سے زندگی گزارتے رہے۔
یہاں تک بعض یہودی خلافت عثمانیہ میں اعلٰی مناصب تک بھی پہنچ گئے۔
جہاں انہوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے اور فلسطین کو مسلمانوں سے چھیننے کے لیے انگلینڈ اور فرانس سے خفیہ تعلقات قائم کر لیے۔
مگر *خلیفہ عبدالحمید ثانی* کی پرزور آمد کے ساتھ ان کے یہ منصوبے اس وقت تہس نہس ہوگئے،
جب صہیونی تنظیم کے بانی تھیوڈور ہرزل نے خلیفہ عبدالحمید ثانی کو خط لکھا جس میں انہوں نے خلفیہ کو بطور رشوت یہودیوں کی طرف سے قرض کے نام پر 150 ملین (15کروڑ) پاؤنڈ دینے کی پیشکش کی کہ اس کے بدلے خلیفہ یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کی حمایت کرے اور یہودیوں کو ایک ایسا قطعہ ارض دیدے
جہاں یہودیوں کی اپنی حکومت ہو۔
*خلافت عثمانیہ کے بہادروں کے اس شاہین* نے اتنی بڑی پیشکش ٹھکرادی،
حالاں کہ اس کے ذریعے خلافت عثمانیہ کی مالی مشکلات کو ختم کیا جا سکتا تھا۔
اس کے بعد یہودیوں نے عہد کر لیا کہ کسی طرح اسلامی دنیا کے اس عظیم رہنماء کو خلافت سے ہٹایا جائے۔
چنانچہ یہودیوں نے ترکی کے خائن لوگوں کی مدد سے ایک سیکولر تنظیم "ترک یوتھ" کے نام سے بنائی،
جس کے ذریعے سیکولرازم،
قوم پرستی
اور اینٹی اسلام پراگندہ افکار کو عام کرنا شروع کیا گیا۔
اس تنظیم کے ساتھ فوج کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے
جو *"اتحاد و ترقی"* نامی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔
بعدازاں یہ گروپ
*" ترک یوتھ تنظیم"* کا عسکری ونگ بن گیا۔
اسی گروپ نے 1909ء میں خلیفہ عبدالحمید ثانی کے خلاف بغاوت کی۔
جس کے ذریعے انہوں نے خلافت عثمانیہ کے بہادر خلیفہ عبدالحمید ثانی کو سلانیک شہر (یہ وہی شہر جہاں عثمانی خلفاء نے یورپ سے نکالے گئے یہودیوں کی مہمان نوازی کی اور زمین عطا کیں۔
*(ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 2009ء میں غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیرس کو اپنے عثمانی آباؤ اجداد کی یہ مہمان نوازی یاد دلائی)۔)*
معزول کر کے بھیج دیا جہاں
*10فروری 1918ء کو آپ کا انتقال ہوگیا۔*
الله کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں۔ آمین

لیکن خلیفہ عبدالحمید ثانی نے اس سازش کو ایک خفیہ خط کے ذریعے بے نقاب کر کے تاریخ اسلامی میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
جس اہم حصے پیشِ خدمت ہیں۔

*بسم الله الرحمن الرحیم*

*حمد وصلوۃ کے بعد!*

میں اپنا یہ خط زمانے کے شیخ محمود آفندی ابو الشامات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں،
ان کے مبارک ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے نیک دعاؤں کی امید کے ساتھ۔

اس مقدمے کے بعد میں آپ اور آپ جیسے اصحاب علم و فضل کے سامنے ایک اہم مقدمہ پیش کررہاہوں،
کہ یہ تاریخ کے ذمے ایک امانت رہے۔
خلافت اسلامیہ سے مجھے ہٹانے کے پیچھے جمعیت اتحاد (جان ترک) کے سرداروں کی طرف سے تنگی، دھمکی کا مسلسل آنا تھا۔
جس نے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
ان اتحادیوں نے شدت کے ساتھ اصرار کیا کہ میں یہودیوں کے لیے ارض مقدس(فلسطین) میں ایک یہودی ملک کے قیام کی اجازت دوں۔
ان کے اصرار کے باوجود میں نے قطعاً اس کام سے انکار کردیا۔
آخر میں انہوں نے مجھے 150 ملین انگریزی سونے کے لِیروں (پاؤنڈ) کی پیشکش کی۔
میں نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ 150 ملین (15کروڑ) پاؤنڈ کی بجائے اگر تم مجھے زمین کے بقدر بھی سونا دیدو تو بھی میں تمہاری بات نہیں مانوں گا۔
میں نے *امتِ محمدی ؐ* کی 30 سال سے زائد خدمت کی،
میں اپنے عثمانی بادشاہ اور خلفاء مسلمان آباؤ اجداد کے نامہِ اعمال کو سیاہ نہیں کر سکتا۔
اس لیے میں تمہاری اس پیشکش کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔
میرے اس قطعی انکار کے بعد انہوں نے مجھے خلافت سے الگ کرنے پر اتفاق کر لیا۔
جس کے بعد انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ وہ مجھے سلانیک شہر بھیج رہے ہیں،
جسے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبورا قبول کر لیا۔
*میں الله کی تعریف کرتا ہوں* کہ میں نے خلافت عثمانیہ اور اسلامی دنیا کو ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کے ملک کے قیام کی ذلت و رسوائی سے داغ دار کرنے والی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔
اسی کے ساتھ میں اپنا خط ختم کرتا ہوں۔

*والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

22ستمبر،1329ھ
(خادم المسلمین عبدالحمید )

یاد رہے کہ خلیفہ عبدالحمید ثانی کے نہ ماننے کی صورت خون خرابے کا خدشہ تھا۔ خلیفہ نے خلافت کی بقاء اور معصوم لوگوں کی جانوں کا پاس رکھتے ہوئے مجبوراً خلافت سے علیحدگی اختیار کی۔
اگر خلیفہ ان کی بات نہ بھی مانتے تو وہ اس قدر طاقت حاصل کرچکے تھے کہ خلیفہ کو زبردستی محل سے نکال دیتے۔

بہرحال خلیفہ عبدالحمید ثانی کے بعد خلافت عثمانیہ حقیقتاً ختم ہوگئی،
اگرچہ استعماری طاقتوں نے من پسند کمزور لوگوں کو 1924ء تک خلافت کے نام پر زندہ رکھا۔
مگر 1924ء میں عثمانی فوج کے ایک جرنل نے خلافت کے خاتمے کااعلان کر دیا۔
اس جرنل کا نام کمال اتا ترک تھا جس نے خلافت کے خاتمے کے بعد کئی آمرانہ قوانین کے ذریعے ترکی سے اسلامی شناخت کی حامل ہر شے کو ختم کردیا۔
ترکی زبان کا رسم الخط عربی تھا،
جسے لاطینی حروف کے ساتھ بدل دیا۔

شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کے منصب کو ختم کردیا۔

عربی زبان میں اذان کہنے پر پابندی لگا کر اسے ترکی زبان سے بدل دیا۔

عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی۔

ترکی میں جمعے کی چھٹی ختم کر کے ہفتے اور اتوار کو چھٹی قرار دیدیا۔

ہزاروں ترک مسلمانوں کو جنہوں نے اتا ترک کے کفریہ نظریات کی مخالفت کی قتل کر دیا۔

دسیوں ہزار اسلام پسند مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا۔

قرآن کریم اور اسلامی علوم کے مدارس ترکی بھر میں بند کر دیے۔

یہاں تک تمام لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ اب ترکی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسلام ختم ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ استعماری طاقتوں کو ارض مقدس فلسطین بغیر کسی قیمت پر دیدی۔

قدرت کا فیصلہ دیکھیے! آج ترکی سمیت دنیا بھر میں امت مسلمہ خلیفہ عبدالحمید ثانی کو بہادری اور اسلام اور مسلمانوں کا ہیرو مانتی ہے
جب کہ کما ل اتا ترک کو غدارِ ملت اور غدارِ خلافت سمجھتی ہے۔

قدرت کے فیصلے کے ساتھ تاریخ بھی فیصلہ کرتی جارہی ہے کہ عبدالحمید ثانی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ
طیب اردگان،
احمد داؤد اوغلو،
عبداللہ گل ،
نجم الدین اربکان
اور عدنان مندریس
جیسے لوگوں کی صورت زندہ رکھا جا رہا ہے۔

یاد رکھئیے!
*خَلِیفَہ عَبدُالحَمِید ثانی* وہی ہیں جو ہر رات
*نبئ مُکرم صلی الله عليه والیہ وسلم*
کو *دَرُود پاک* کا تحفہ پڑھ کر بھیجتے تھے،
ایک دِن فیصل نامی ایک شخص آپ کے دربار میں آیا اور کہا
کہ آپ میرے مقروض ہیں
خلیفہ نے حیرانی سے کہا کہ کیسے؟
تو فیصل بولے
کہ میں تاجر تھا، اور کاروبار میں نقصان ہونے کی وجہ سے الله کریم سے روز اپنے حالات سدھرنے کی دعا کیا کرتا تھا کہ
ایک رات مجھے خواب میں
*نبئ مُکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم*
کا دیدار ہُوا،
تو
*آپ صلی الله عليه وآلہ وسلم* نے فرمایا کہ میں آپ کے پاس جاؤں،
یہ سُن کر *خَلِیفَہ عَبدُالحَمِید ثانی* بولے کہ
کیا فرمایا میرے *آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم*
نے میرے بارے؟
فیصل بولے کہ
*میرے حمید!*
ابھی اِتنا ہی کہا تھا کہ *خَلِیفَہ عَبدُالحَمِید ثانی* نے اُنہیں روک دِیا
اور میز سے اشرفیوں کی ایک تھیلی نکال کر دی،
پھر پوچھا کہ، کیا کہا میرے
*آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم* نے،
فیصل بولے
کہ
*میرے حمید*
اور خلیفہ نے پھر روک دیا،
اور اشرفیوں کی تھیلی تھما دی،
یہ عمل چار بار ہوا تو وہاں موجود خلیفہ کے وزیر پاشا نے اس سائل کو روک دیا، اور کہا کہ کیا اس سے آپ کو کام ہو نہ جائے گا؟
فیصل بولے کہ ہو جائے گا، اور وہ اجازت لے کے چلے گئے،
جب وہ چلے گئے تو وزیر بولے کہ
مجھے ڈر ہُوا کہ کہیں آپ اُسے سب کچھ نہ دے دیں،
اس لئے ٹوکا،
تب خلیفہ بولے کہ اگر وہ مجھ سے میری ساری جائداد و بادشاہت بھی مانگتا تو *ربِ کعبہ کی قسم* میں دے دیتا،
کیونکہ
میں روز رات کو سونے سے پہلے *حضورِ اکرم حضرت محمدؐ* پہ درود پاک پڑھ کر سوتا ہوں
لیکن
کل رات کام کرتے کرتے میں تھک کر، کام والی میز پر ہی سو گیا، اور درود پاک نہ پڑھ سکا۔
اور میرے *نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* نے اس شخص کی خواب میں آکر مجھے اشارہ دیا۔

*اے الله کریم*
ہمیں بھی ہدایت نصیب ہو تا کہ ہم بھی اچھے اعمال کریں اور ایسے حکمران ہم پہ مُسلط ہوں، آمین۔

No comments:

Post a Comment