قسط 4 آخری خواہش

چار سال بعد اسکے ہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا، وہ اتنا خوش نہیں ہو پا رہا تھا جتنا کہ اسے ہونا چاہیے تھا، جب بچے کو اسکی گود میں ڈالا گیا تو اک عجیب سی خواہش اسکے دل میں مچلی کہ کاش یہ بیٹی ہوتی میری حنا جیسی، کاش رب میری حنا مجھے یوں لوٹا دیتا اسے تو میں ڈھونڈ ڈھونڈ تھک چکا ہوں.
پھر دل میں یہ خواہش سر اٹھانے لگی کہ بیٹی چاہیے پر عینی کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی اسے ڈاکٹر نے مزید اولاد سے منع کر دیا تھا.
یہ خواہش بھی اسکے دل میں ناسور بن کر پلتی رہی.....
کتنے ہی سال بیت گئے اسکے سر میں اب چاندی چمکنے لگی تھی ماں باپ داغ مفارقت دے چکے تھے، عینی اب مستقل بیمار رہنے لگی تھی اسکا بہت علاج کروایا جا رہا تھا پر اسکی بیماری کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی.

بڑے بیٹے نے بہت اعلی نمبروں سے ایف ایس کی تو اسے کالج کی طرف سے بیرون ملک تعلیم کی آفر کی گئی جو کہ فورا قبول کر لی گئی... وہ چلا گیا
تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ وہاں جاب بھی کرنے لگا اس نے مستقل وہیں سیٹ ہونے کا ارادہ کر لیا.
کچھ سالوں بعد چھوٹے نے بھی بھائی کے پاس جانے کی ضد پکڑ لی، وہ بیٹے کو بھیجنا تو نہیں چاہتا تھا پر اسکی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی.
دونوں میاں بیوی اب تنہا رہ گئے تھے عینی سارا وقت روتی رہتی اور اسکے پاس دلاسہ دینے کو الفاظ بھی نہ ہوتے، یقین تھا کہ جانے والے اب لوٹنے والے نہیں وہ وہیں اپنی دنیا بسانے کا خواب آنکھوں میں سجا کر گئے ہیں، ماں کے لیے وہ اپنے خوابوں سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے، پھر وہ اسے کیسے تسلی دیتا اور کیوں دیتا..... وہ اسکے ساتھ کوئی غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا تھا سو خاموشی سے اسے روتا دیکھتا رہتا.
بیٹوں کا کبھی کبھار فون آ جاتا تو وہ خود ماں کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے اور وہ کئی دن آنکھوں میں خوبصورت خواب سجاتی رہتی، تصور کی نظر سے گھر کے آنگن میں پوتے پوتیوں کو کھیلتے دیکھ کر خوش ہوتی رہتی.....
ایک دن خواب دیکھتی دیکھتی ہی خالق حقیقی سے جا ملی، عینی کے جانے کے بعد کئی دن تک اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا تھا، لوگ آ جا رہے تھے وہ کیا کہتے تھے اسے کچھ سمجھ نہ آتا تھا وہ بس خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھے جاتا تھا... بیٹوں نے فون پر معذرت کر لی تھی کہ وہ اپنی ماں کا آخری دیدار نہیں کر سکے.... اسے بیٹوں سے یہی امید تھی.
........ ،............ ،........... ،.......... ،........
وہ چار دن سے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا، ماضی کی یادوں نے اسے بری طرح جکڑ رکھا تھا، وہ اٹھا ہاتھ منہ دھویا اور کچھ کھانے پینے کے لیے کچن کی طرف چل دیا، ویران کچن اسے منہ چڑھا رہا تھا، فریج میں چند سلائس دکھائی دئیے تو جلدی سے وہی کھانے بیٹھ گیا کہ بھوک اب برداشت سے باہر تھی. کچھ آسرا ہوا تو اسے یاد آیا کہ سالار کو ملے کافی عرصہ ہو گیا ہے کیوں نہ آج اسے مل آؤں کچھ دل بہل جائے گا کچھ ماضی سے جان چھوٹے گی.
جلدی جلدی تیار ہوا اور اسکی طرف چل دیا. سالار سے اسکی دوستی زیادہ پرانی تو نہ تھی پر وہ اسکے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اسکے ماضی سے بھی وہ خوب واقف تھا.
ایک گھنٹے بعد وہ اسکے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا.
یار معاف کرنا تمہارے بیٹے کی شادی میں شرکت نہیں کر سکا دراصل میں ملک میں تھا ہی نہیں.... بیٹے ضد کر رہے تھے کہ میں انکے پاس چلا جاؤں سو مجھے جانا پڑا تو تو جانتا ہے اولاد کی بات موڑنا کتنا مشکل کام ہے. اس نے سالار سے معافی مانگتے ہوئے کہا.
ہاں مجھے پتہ چلا تھا کہ تم بیٹوں کے پاس چلے گئے ہو میرا تو خیال تھا اب تم سے کبھی ملاقات نہیں ہو گی پر تم تو بہت جلد واپس آ گئے. یار اتنی بھی کیا جلدی تھی واپس آنے کی.... گھومتے پھرتے، انجوائے کرتے وہاں کی زندگی کو. سالار نے اسکا کندھا تھپتپھاتے ہوئے کہا.
نہیں میرا دل نہیں لگا اس مشینی دنیا میں وہاں تو ہر انسان الجھا ہوا لگتا ہے،لگتا ہے کسی کو کسی کی پرواہ ہی نہیں، وہاں میرا کوئی نہیں تھا، کئی کئی دن بیٹوں کی صورت دیکھنے کو نہیں ملتی تھی، یہاں تو دوستوں سے ملاقات ہو جائے تو دل بہل جاتا ہے وہاں تو اب مجھے سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا. اس کی آواز بھیگنے لگی..... آنسو آنکھوں میں مچلنے لگے. اس نے بمشکل خود کو رونے سے روکا.
اچھا یار چھوڑ ان باتوں کو، چل چائے پیتے ہیں، سالار نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کہا.
اتنے میں سالار کی بہو چائے کی ٹرالی لیے اندر داخل ہوئی،
اس نے جلدی سے عینک اتار کر آنکھیں صاف کیں.... جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ لفافہ نکالا جو وہ گھر سے اسکے لئے لے کر آیا تھا.
بہو آگے بڑھی کہ اس سے سر پر پیار لے سکے وہ بھی اٹھا کہ اسے سلامی دے...... دونوں کی نگاہیں جب ٹکرائیں تو وقت ٹھہر گیا آنکھوں میں حیرت اور شناسائی کے آنسو بھر آئے..... دونوں اک دوسرے سے نگاہیں چرانا چاہتے تھے پر ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا....
حنا.... اس نے زیر لب کہا
حنا نے اثبات میں سر ہلا دیا....
وہ باپ سے لپٹنا چاہتی تھی،... وہ بھی بیٹی کو سینے سے لگانا چاہتا تھا..... جانے کیسی جھجھک دونوں کے درمیان حائل تھی.
سالار بھی اٹھ کھڑا ہوا، وہ ناسمجھی کے عالم میں دونوں کو دیکھے جا رہا تھا.
پھر جلد ہی اس نے ان کی آنکھوں میں لکھی داستان پڑھ لی، اس نے دونوں کو پکڑ کر صوفے پر بیٹھایا. ان کی حالت اب قدرے سنبھل چکی تھی، حنا نے باپ اور سسر کو چائے بنا کر دی.
کمرے میں مکمل خاموشی تھی لگتا تھا سب لفظ منجمد ہو چکے تھے سب بہت کچھ کہنا چاہتے تھے پر کہنے کو اک لفظ بھی نہ تھا.
وہ چاے پیتے ہوئے مسلسل حنا کو دیکھ رہا تھا وہ جانے سر جھکائے کیا سوچ رہی تھی. اسے تو بس اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے حنا کی آنکھوں میں اپنے لیے وہ نفرت نہیں دیکھی تھی جسکا اسے اتنے سالوں سے خوف ستا رہا تھا.
وہ حنا کی شادی خود کرنا چاہتا تھا اسے کسی اچھے اور نیک شخص کے حوالے کرنا چاہتا تھا..... آج وہ اس کو سالار کے گھر میں دیکھ کر بہت خوش ہوا..... وہ اگر خود بھی اسے بیاہتا تو شاید سالار کا بیٹا ہی اسکا انتخاب ہوتا، آج ایک ایک کر کے سب خوف سب خدشات دم توڑ رہے تھے.
کافی دیر بیٹھنے کے بعد  وہ جانےکے اٹھا

جاری ہے

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment