جس کے ہاتھ پاؤں، سینہ اور چہرہ بری طرح آگ سے جھلس چکے تھے۔ اسکا چہرہ پھول کر تربوز کی مانند ہو چکا تھا، تکلیف میں مچھلی سے زیادہ تڑپ رہا تھا!
میں سول ہسپتال برنس سینٹر وارڈ میں جب داخل ہوئی تو اسکے علاوہ ڈاکٹرز کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ آکسیجن ماسک لگایا جائے تاکہ سانس بحال ہو سکے!
میں نے اسکے والد سے واقعہ دریافت کیا۔ لڑکے کی ماں شدید صدمہ کی وجہ سے کچھ بھی بولنے سے قاصر تھی۔ البتہ اس نوجوان کے باپ نے ایک کاغذ میرے قریب کیا جس میں سے شدید پیٹرول کی بو آرہی تھی اور وہ کاغذ بھی کناروں پر سے جلا ہوا تھا، یوں معلوم ہوا کے بائیک کے کاغذات تھے اور آگ بائیک میں لگی جسکی لپیٹ میں یہ نوجوان بھی آچکا تھا۔ میں ماں باپ کو تسلّی دے کر لوٹ گئی اور اپنے مریض سے صرف اتنا کہا کہ اللہ نے چاہا تو تمہاری تکلیف دور ہوگی بس تم اللہ کو یاد کرتے رہنا! اگلے دن جب آئ تو ہمارے سینئیر ڈاکٹر یہی تبصرہ کررہے تھے کہ حالت سیریس ہے اور یہ مریض بچ نہیں سکے گا کیونکہ آگ نے اسکے پھیپڑوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ میں اس نوجوان کے کمرے تک پہنچی اور حال پوچھا۔ جواب آیا: "خیر ہے"۔ یہ سن کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ نوجوان کو کل کا پڑھایا ہوا سبق یاد رہا۔
کمرے سے باہر آئ تو سینئیر ڈاکٹر نے مریض کے والد سے صاف کہہ ڈالا: " دیکھئیے مریض کی حالت اچھی نہیں ہے، جسکو ملوانا چاھتے ہیں ملوا دیجئیے"۔۔
میں اس وقت اس نوجوان بیٹے کے باپ کو دیکھ رہی تھی، جسکے لئیے یہ الفاظ کسی بھیانک حقیقت سے کم نہ تھے! اس باپ کے کتنے ہی خواب، کتنے ارمان اور کتنی امیدیں ہونگی جو ایک جملے میں ٹوٹ گئ ہونگی! جس اولاد کے اچھے مستقبل کے لئیے نیند قربان کی ہوگی، بھوک کاٹی ہوگی، پسینہ بہایا ہوگا اور کتنی ہی مشقتیں برداشت کی ہونگی، آج وہ گوشہ جگر ہمیشہ کے لئیے نظروں سے اوجھل ہونے والا ہے؟
میں ابھی ان الفاظوں کے کرب سے باہر نہ نکلی تھی کہ اس نوجوان کے والد صاحب مجھ سے التجا کرنے لگے: "ڈاکٹر صاحب یہ بات اسکی ماں کو نہ بتانا"
میں نے سر تو ہلا دیا لیکن میری تکلیف اور پریشانی بڑھتی ہی چلی گئی!
مجھےحضرت زکریا علیہ السلام کی دعا یاد آئی ! جنہوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے اولاد کے لئیے پکارا تھا! حلانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ حالات اسکے موافق نہیں! حضرت ابراھیم، حضرت یعقوب، حضرت یونس، حضرت موسیٰ علیھم السلام کی، جو کبھی اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہ ہوۓ اور اللہ نے بھی انہیں محروم نہ چھوڑا!
میں جہاں کھڑی تھی، وہیں دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کو پکارا جسکے ہاتھ میں اس نوجوان کی سانس اور زندگی تھی! یا رب کیا مشکل ہے؟ کیا ہے جو ممکن نہ ہو؟ یا رب تو جان ڈالنے والا ہے! اسکے والدین اور اس لڑکے پر رحم کر! آنکھیں بار بار آنسؤوں سے تر ہورہی تھیں! ڈاکٹرز کے نزدیک یہ جوان بس کچھ گھنٹے میں ایکسپائیر ہونے والا تھا! %59 burn میں میڈیکل کی نظر میں مریض نہیں بچا کرتے!
لیکن دعا کے بعد میرے دل کی کیفیت ہی بدل چکی تھی! مجھے یقین ہورہا تھا کہ میرا رب اس امید کو ٹوٹنے نہ دے گا!
میں گھر لوٹ گئی! اگلے دن وارڈ میں داخل ہوئی، لوگوں کا خیال تھا مریض گزر چکا ہوگا! لیکن یہ کیا؟ مریض اپنے بستر پر موجود تھا اور سانس بحال ہو چکی تھی۔ اسکے جسم پر پٹیاں کروائی جارہی تھیں۔۔
دن گزرتے رہے اور یہ نوجوان حیرت انگیز طور پر بہتری کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں بار بار اس کی کلینکل لیبز دیکھتی رہی جو دن بہ دن بہتر ہورہی تھیں۔ حتیٰ کہ مریض نے چلنا اور مسکرانا شروع کردیا اور وارڈ میں موجود ایکسسائز جیم میں آنا شروع کردیا۔
میں اپنے سینئر ڈاکٹر کے پاس پہنچی اور دریافت کیا: "مریض کے اب کیا حال ہیں؟" انکا جواب ایک حیران کن مسکراہٹ تھی اور بہت جوش کے ساتھ کہ امید سے بہت بڑھ کر! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا دل شکر سے رب کی طرف متوجہ ہوگیا، اس دن ایسی خوشی محسوس کی جو ناقابل بیان ہے! الحمدلللہ! میں نے جاکر دیگر ڈاکٹرز کو بتایا! انکے چہروں پر بھی حیرت اور مسکراہٹ تھی!
میرا رب کیسے دعایں سنتا ہے؟ صرف ایک بار کی پکار؟ صرف چند آنسو؟
پھر ہم اتنی جلدی کیوں مایوس ہوتے ہیں؟ ہم کیوں رب کی طاقت سے زیادہ انسانی الفاظ کو فوقیت دیتے ہیں؟
دوا اور دعا ساتھ چلتے ہیں! لیکن دعا بازی لے جاتی ہے...
- Blogger Comment
- Facebook Comment
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments:
Post a Comment