فقیروں کی ندا سن کر تونگر کانپ جاتا ہے
ہوا کے زور سے اکثر سمندر کانپ جاتا ہے
کسی مظلوم کا آنسو بظاہر بوند بھر پانی
اگر پتھر پہ گر جائے تو پتھر کانپ جاتا ہے
سنو تعداد کے بل پر ہمیں للکارنے والو!
ہمارے پاؤں کی آہٹ سے لشکر کانپ جاتا ہے
خدا کے نیک بندوں سے محبت سب کو ہوتی ہے
مجاہد کا بدن چھوتے ہی خنجر کانپ جاتا ہے
No comments:
Post a Comment