تھکن سے چور بدن کا لہو نجوڑے گا
غریب اپنی گھٹن کا لہو نچوڑے گا
خزاں رسیدہ ابھی ہے بہار آنے دے
ہرایک بھنورا چمن کا لہو نچوڑے گا
جہاں کا درد بھی سینے میں ہے میرے لیکن
تمہارا درد تو من کا لہو نچوڑیں گے
بجھے گی پیاس نہ جب اس کی خون سے میرے
وہ آکے میرے کفن کا لہو نچوڑے گا
خیال بیٹی کا مفلس کو آگیا اب تو
تمام رات بدن کا لہو نچوڑے گا
اجالے ناز نہ کر وقت شام ہونے دے
اندھیرا آکے کرن کا لہو نچوڑے گا
ابھی تو دور دسمبر ہے پاس آنے دے
کہ سعد جھونکا پون کا لہو نچوڑے گا
ارشـــد سعد ردولوی
No comments:
Post a Comment