’’میں بچوں کو کارٹونز نہیں دیکھنے دیتی‌‌" ‌

🌺🌺
’’میں بچوں کو کارٹونز نہیں دیکھنے دیتی‌‌" ‌
..........

آگے سے کسی نے کہا ۔
لیکن اس طرح تو بچے بہت تنگ کرتے ہیں، گھر میں اودھم مچا دیتے ہیں۔
....................

وہ پُرعزم لہجے میں کہنے لگیں۔
’’مجھے ان کا اودھم مچانا ،گند مچانا منظور ہے۔
لیکن..........
روح کی گندگی ، حیا کے جنازے اٹھوانا قطعی طور پر نامنظور ہے۔
..........

گویا آپ کو ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔
بچوں کا شور… یا…  کارٹونز کا شور ؟
بکھرا گھر.......... یا.......... بکھرے پریشان بچے !
طے کرنا ہے کہ : نہیں ! تو بس نہیں ، ہرگز نہیں !
🏻ہاں کا آپشن نکال دیں ! عزم پختہ رکھیں اور بھروسہ اللہ پر رکھیں ۔
..........

بچوں کو ایک بار نہیں ، ہزار بار بتائیں کہ یہ کارٹونز کس قدر خراب ہوتے ہیں۔
🏻بار بار بتائیں کہ اللہ کہ
مسلمان بندے ایسے نہیں ہوتے۔
نبی کے امتی میوزک نہیں برداشت کرتے ۔
وہ جتنی دفعہ کارٹونز کی بات کریں آپ اتنی دفعہ انہیں روکیں ۔
..........

ہر وہ بات جو آپ محسوس کرتے ہیں انہیں بتائیں ۔
وہ آپ کے اپنے بچے ہیں ۔
ان سے خائف نہ ہوں ۔
ان کی ذہن سازی کریں ۔
..........

میری عزیزہ ہیں. وہ اپنی دوسالہ بچی کو ہر بات بتا دیتی تھیں۔ مشکل سے مشکل کہانی سنا دیا کرتی تھیں ۔
وجہ بتادیا کرتی تھیں کہ یہ کیوں نہیں کرنا !.......... اور یہ کیوں کرنا ہے ۔
کرنے سے کیا ہوگا.......... اور نہ کرنے سے کیا ہوگا ۔
..........

ہم سمجھتے ہیں کہ بچے نا سمجھ ہیں. مگر یقین جانیے وہ سمجھتے ہیں ۔
گورے (انگریز) یوں ہی نہیں کہتے کہ :
تین سال تک کا بچہ مسلمان،  کافر، عیسائی یا مجوسی بن چکا ہوتا ہے۔ یعنی اس کا مذہب اس عمر میں طے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ نے اسے جو کچھ بنانا ہوتا ہے، بنا لیتے ہیں.
..........

کچھ عرصہ قبل کسی کے گھر جانا ہوا ۔ وہاں ایک اورعورت بھی اپنے بچوں کے ساتھ مدعو تھی۔

ان (مہمان عورت) کی بچی اپنی ماں سے سوال پوچھتی ہے۔
امی! ان لوگوں کے گھر ٹی وی نہیں ہے ؟

میزبان کے گھر کی ایک پیاری ننھی سی بچی جو اسکارف پہنے ہوئے تھی ،یہ جملہ سنتے ہی جلدی سے بولی :
ٹی وی ہمارے ڈرائنگ روم میں پڑا ہوا ہے۔
پھر سر ہلاکر وہ بچی کہنے لگی :
کیا آپ کو نہیں پتا ! ٹی وی نہیں دیکھتے ، گناہ ہوتا ہے۔!!!

اُس مہمان بچی کی والدہ کھسیانی سی ہوگئیں اور بولیں :
ہاں بیٹے ٹی وی نہیں دیکھتے۔
..........

گویا یہ بچے خود سکھانے والے بن جاتے ہیں۔ اور یہ خود روکنے والے بن جاتے ہیں۔
شرط یہ ہے کہ ان کے قلوب و اذہان اور دل و دماغ میں برائیوں کی نفرت بٹھائیں ۔ بار بار بتائیں پیار و محبت سے سمجھائیں۔
..........

میری دوست کے گھر اس کی بہن کے بچے رہنے آئے ہوئے تھے۔
اس نے مجھے بتایا ۔
میرے بچے معاذ نے ہر تصویر کو پرمننٹ مارکر سے مٹا دیا۔
پورا کمرہ صاف ستھرا ہوگیا ۔
مارکر کلرز کے ڈبے پر ایک چھوٹی سے تصویر تھی، جو بمشکل دیکھی جاسکتی تھی۔
اسے بھی مٹایا

اور بولا !
خالہ جان ! اب ہمارے کمرے میں رحمت کے فرشتے آجائیں گے نا !

یہ وہ بچہ تھا جو بات تک نہ سنتا تھا ، مگر بار بار پیار سے کہا۔ آخر وہ سمجھ گیا ۔

اور اب یہ بچہ ہر ایک کو موسیقی سے روکتا ہے۔
میوزک بند کردیں.......... . اوہو! یہ نہیں سننا اس میں میوزک ہے۔.......... ہم کچھ اور سن لیتے ہیں۔
..........

مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو اللہ کی آیات سناتے ہی نہیں !
رسول کی حدیث بتلاتے ہی نہیں !
اگر بتائیں.......... تو وہ ان ننھے معصوم دلوں پر کیوں کر نہ اثر کریں گی؟
..........

آپ انہیں وحی الہی اور قرآن و حدیث کی تعلیمات سنائیں۔ وہ ہماری بات سے کہیں زیادہ پُر اثر ہیں۔
..........

صرف فرض نہ اتاریں ۔ دل لگا کے محبت میں ڈوب کر کڑھن بھرے جذبے کے ساتھ بتائیں۔ ایسے پُر اثر انداز میں معاملہ کی نزاکت و سنگینیت سے آگاہ کریں کہ آپکی ان باتوں کا اثر ان کے چہروں پہ محسوس ہونے لگے۔
..........

یہ پریکٹس بار بار کریں ۔
ان شاءاللہ ضرور فائدہ ہوگا ۔ ۔
..........

مجھے یاد ہے، آج سے گیارہ بارہ سال قبل ۔ جب ہم خود بچے تھے۔
ایک دفعہ میری بڑی بہن نے کہیں کارٹون کی سی ڈی دیکھ لی۔ اور وہاں سے اپنے گھر اٹھا بھی لائی۔
اب ہم وہ بڑے مزے اور مزے سے دیکھ رہے ،

اچانک ہماری آپا کمرے میں وارد ہوئیں ،
چند لحظے انہوں نے منظر دیکھا ، اور بولیں ۔
چندا ! یہ اچھی چیزیں نہیں ہیں ، لہو و لعب ہے ، مومن لہو ولعب سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اس سی ڈی کو توڑ دو !

(یہ نہیں کہا ، کہ کسی سہیلی کو دے دو۔ بلکہ اس شر کو توڑ ڈالنا ہی اس کا حل ہے۔ کیونکہ یہ کسی کے لیے بھی سود مند نہیں۔)
اب میری بہن ہچکچائی، منہ بنا بنا کہ بولی ،
آپا اپنے جمع پیسوں سے لی ہے۔

آپا نے جھٹ پیسے نکالے ، پیسے مجھ سے لے لو ، یہ توڑ دو !

اور الحمد للہ *ہم نے توڑ دی ۔

اور آج ہم شکر کرتے ہیں ، کہ آپا نے بروقت ہمیں اس شر سے روکا۔
..........

کارٹونز نہ دکھائیں۔

بچوں کو.......... بچوں کی تلاوتیں سنوائیں۔ بچوں کی تلاوتیں بچوں کے لیے زیادہ پر اثر ہوتی ہیں۔

ان شاءاللہ کچھ ہی عرصہ میں ان کا ذوق بیدار ہوجائے گا ۔

بچے بالکل بھی بور نہیں ہوں گے۔
ان شاءاللہ

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment