Pages

Saturday, 5 October 2019

*دیکھ کر پیروں تلے زمین کھسک گئ*

✒ *تحریر...جمیل اخترشفیق*

بچوں پہ ان کا بہت رُعب تھا،وہ اپنی سخت کارکردگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے،مدرسے کا اندرونی نظام ان ہی کے ذمّے تھا،کیا اساتذہ کیا طلباء سبھی ان سے ڈرتے تھے،ادارے کے ذمہ داروں کا وہاں بہت کم آنا جانا ہوتا تھا اگر اتفاق سے وہ لوگ آتے بھی تو مدرسے کی ایک ہال میں خاص میٹنگ ہوتی جو کچھ گھنٹے چلنے کے بعد ختم ہوجاتی اور سارے ممبران اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اوپر جس مدرس کے رُعب کا ذکر کیا گیا ،اُنہیں طلباء حافظ صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے،حافظ صاحب ایک طرح سے مدرسے میں ہونے  والی میٹنگ میں ادارے کے اندرونی نظام کی نمائندگی کیا کرتے تھے اندر کیا ہورہا ہے؟بچے کس طرح رہ رہے ہیں ؟اساتذہ کا کیا حال ہے ؟اس سے ذمہ داروں کو کوئ خاص مطلب نہیں تھا بس وہ حافظ صاحب پر اتنا اعتبار کرتے تھے کہ جو کچھ بھی دریافت کرنا ہوتا ان ہی سے دریافت کرکے مطمئن ہوجایا کرتے تھے جبکہ حافظ صاحب کا یہ حال تھا کہ اساتذہ پہ بےجا سختی اور بچوں پہ عجیب طرح  سے ٹوٹ پڑنا ان کے روز مرہ کا معمول تھا ،اپنے ماں باپ سے بچھڑے یتیم وغریب بچے بےزبان جانور کی طرح ان کے اشاروں پہ ناچتے رہتے تھے، کیا مجال کہ ان کے کسی عمل پہ کوئ اعتراض کردے یا ان کے کسی حکم کو ٹالنے کا تصور تک ذہن میں لاسکے،چھوٹے چھوٹے معصوم پھول سے بچوں کو کھانا وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ پیر دبانے کے لیے کہتے تو یہ نہیں کہ بچوں سے خدمت لےکر چند منٹوں میں انہیں فارغ کردیا ،بلکہ عالم یہ تھا بچے گھنٹوں پیر دباتے رہتے ،حافظ صاحب اسی حالت میں باضابطہ ایک نیند تک لےلیتے اور بچے ان کا پیر دباتے رہتے ،ان کی خدمت پہ مامور بچوں کو ان کا پیر دباتے وقت کئ دفعہ میں نے اپنی آنکھوں سے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا،خود میں بھی کئ بار بےتحاشہ روپڑا لیکن حافظ صاحب بچوں کی اس بےچارگی سے بےپرواہ میٹھی نیند لے رہے ہوتے تھے انہیں اس بات کی کوئ فکر نہیں رہتی تھی کہ مدرسے کے معمولی کھانے پہ پلنے اور پڑھنے والے یہ نو دس سال کے بچے کہاں سے اتنی طاقت اپنے اندر پیدا کریں گے کہ گھنٹوں ان کی خدمت کرتے رہیں ...حافظ صاحب کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ پیر دباتے چھوٹے بچے بعض دفعہ گھنٹوں اپنی مخصوص ضرورتوں سے فارغ تک نہیں ہوپاتے تھے لیکن کیا مجال کہ بغیر حافظ صاحب کی اجازت کے کوئ بچہ اُٹھ جائے کیونکہ ان حالات میں بھی تھکن سے چور اگر کوئ بچہ چلا جاتا تو آنکھ کُھلنے کے بعد حافظ صاحب اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے اور اس طرح مارتے کہ دیکھنے والا کانپ اُٹھے لیکن حافظ صاحب کو میں نے کبھی ان پہ ترس کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

مجھے اس مدرسہ سے نکلے لگ بھگ دس بارہ سال کا عرصہ بیت چکا تھا ،ایک روز وہیں ساتھ پڑھنے والے ایک پرانے ساتھی سے اتفاقیہ ملاقات ہوئ تو میں نے اس سے حافظ صاحب کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ دو سال قبل اُنہیں غبن کے الزام میں بہت ذلیل کرکے مدرسے سے نکال دیا گیا سن کر افسوس بھی ہوا اور تکلیف بھی۔

اس واقعہ کو گزرے ایک زمانہ ہوگیا ،زندگی کی بھیڑ میں بہت سارے چہرے آنکھوں کے پردے سے اوجھل ہوگئے ،یادیں دل کے کسی تہہ خانے میں دب گئیں،لگ بھگ پچیس سال بعد ایک روز ملک کے ایک مشہور شہر میں یونہی شام کے وقت میں تفریح کے ارادے سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں پراگندہ لباس میں ملبوس ایک نابینا فقیر صدائیں لگاتے ہوئے جارہا تھا حسبِ معمول کچھ ہاتھ میں پیسہ لےکر اس کی جانب میں لپکا ،قریب پہونچا ،چہرے پہ نظر پڑی تو میرے پیروں تلے زمین کھسک گئ کیونکہ وہ حافظ صاحب ہی تھے ،میری آنکھیں ڈبڈباگئیں ،میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا:حافظ صاحب میں میں ....جمیل......پہچانا آپنے؟ کچھ دیر رُکے پھیکی مسکراہٹ انہوں نے لبوں پہ طاری کی اور کہا: ہاں...یاد آیا کیسے ہو؟،میں نے پوچھا: یہ آپنے کیا حالت اپنی بنا رکھی ہے سب خیریت تو؟کہنے لگے:کیا بتائیں بیٹا مدت ہوئ مدرسہ چھوڑ دیا،حال یہ ہے کہ اب بوڑھاپا عذاب بن گیا، آنکھوں کی بینائ کم ہوگئ بچے سارے اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ الگ ہوگئے،بیوی کا سالوں پہلے انتقال ہوگیا ،بچے چاہتے تو آنکھ کا علاج ہوسکتا تھا لیکن کسی نے کوئ توجہ نہیں دی، پیسے کی قلت کے سبب میں خود بھی نہیں کراسکا،نتیجہ یہ ہوا کہ دھیرے دھیرے جو تھوڑی بہت بینائ تھی وہ بھی ختم ہوگئ اب کسی طرح بھیک مانگ کر گزر بسر کرتا ہوں اتنا کہتے ہوئے حافظ صاحب بُری طرح روپڑے۔

No comments:

Post a Comment