Pages

Monday, 23 September 2019

درد لا دوا۔


رانی تم نے آج پھر دیر کر دی۔ تم دیر کرتی ہو تو مجھے بھی کالج پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں فرج کا دروازہ بند کر کے پلٹی۔
OMG.
یہ کیا ہوا؟ میں نے سوجے اور نیلو نیل منہ والی رانی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ پھر اس کمبخت نے مارا؟ تم آخر اس منحوس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتی ،کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔
میں نے ہاٹ پاٹ سے پراٹھا نکالا، مائکرو میں آلو کی بھجیا گرم کی اور تھرمس سے چائے کپ میں انڈیل کر ناشتے کی ٹرے اس کے سامنے رکھی،ساتھ ہی ایک پتہ پیناڈول کا۔ مجھے دیر ہو رہی ہے تھوڑا آرام کرو پھر چابی چوکیدار کو دیتی ہوئی چلی جانا۔
میں رش میں حتہ المقدور تیزی سے ڈرائیور کر رہی تھی ۔ شکر ہے کہ میرا تیسرا اور چوتھا پریڈ تھا ۔

نہ جانے کیسے کل شام کا منظر میری آنکھوں کے سامنے نیون سائین کی طرح جھلملانے لگا اور آصف کی کرخت آواز کانوں میں گونجنے لگی ۔
میری گرے شرٹ نہیں مل رہی؟
وہ لانڈری سے واپس نہیں آئی ہے۔ شام میں ندیم (ڈرائیور )گیا تھا مگر لانڈری بند ہو چکی تھی۔
تو یہ تو تمہاری نااہلی ہے۔ نہ چیزوں کو مینج کرنا آتا ہے نہ وقت کو۔ کہنے کو پڑھی لکھی اور برسرے روزگار، چار پیسہ کیا کمانے لگی کہ دماغ عرش معلی پر ہے۔
میں بس منہ ہی دیکھتی رہ گئی، بولنے کا مطلب تھا کہ رات کا کھانا غارت کرنا اور بچیوں کو مزید سہما دینا۔ ابھی بہترے کام پڑے تھے، رات کا کھانا تھا ،بچیوں کی مدد کرنی تھی اور کل کے لیکچر پر ایک نظر ڈالنی تھی۔ اس لایعنی بحث میں الجھ کر اپنی انرجی ڈرین اوٹ نہیں کر سکتی تھی ۔
اوپر تلے چار بچیوں کی پیدائش کے بعد میرے پاس وقت نہیں تھا نوکری کا۔ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد تو واقعی نہیں لگتا تھا کہ کسی لائق بھی ہوں۔ مگر خود ہی آصف نے میری سی۔ وی بھی بھیج دی کالج میں اور بدقسمتی کے انٹرویو کال بھی آ گئ اور تقرر بھی ہو گیا ۔ مجھے اندازہ تو تھا کہ زندگی کس قدر مشکل ہونے والی ہے مگر کیا کرتی۔ نہ جائے رفتن نہ پائے مانند ۔شادی کیا ہوئی تھی، رولر کوسٹر میں ہی بیٹھ گئی تھی ۔اپنا آپ منوانے کے چکر میں کیا کیا کھو دیا تھا۔ سب سے زیادہ اذیت میں تو عزت نفس تھی۔ کمبخت بلا کی ڈھیٹ تھی۔ ہزاروں بار کچلے جانے کے باوجود سر اٹھا لیتی تھی اور زندگی کو مزید مشکل کر دیتی تھی ۔
آصف نے جب یہ گھر خریدا تو میں نے اس کو بہت محبت سے سجایا۔ خاص کر چمن،میرا پھولوں سے دیرینہ عشق نکھر کر سامنے آیا ۔ بڑی محبت سے ہار سنگار کا پودا لگایا کہ انشاء اللہ جب بچیاں بڑی ہونگی تو ان کے مایوں کا ڈوپٹہ اسی سے رنگو گی۔ چمبیلی، رات کی رانی اور سہرے کی بیل بڑے شوق سے لگائی اور موتیا اور گلاب کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا۔ فجر کی نماز کے بعد ہار سنگار کے پھول چن لیتی، یہ اس قدر نازک پھول ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی گرمی تو بڑی بات سانسوں کی گرمی بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔ پھر دس، بارہ موتیا کے پھول توڑ کر تشتری میں رکھ کر ڈیک پر رکھ دیتی پورا لاوئج معطر ہو جاتا۔ طبیعت میں تازگی اور انبساط رچ جاتا۔ پھر منڈیر پر پڑے کونڈے میں باسی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ڈال دیتی اور دوسرے کونڈے میں تازہ پانی۔ پورے دن کی روٹین میں یہ میرا پسندیدہ وقت اور روٹین تھی۔

زندگی لو کے تھپڑے کے ساتھ گزر رہی تھی، سسرال میں اس لئے راندہ درگاہ تھی کہ چار بیٹیوں کو پیدا کرنے کی خطا وار تھی۔ میری ساس برملا کہا کرتیں تھیں کہ عزت ان بہوئوں کی ہوتی ہے جو وارث دیتی ہیں، بیٹیوں کی مائوں کو کون پوچھتا ہے ۔ امی بابا کے گزرنے کے بعد میکہ اجڑ چکا تھا۔ ایک ہی بہن تھی، اس سے بھی عیدے بقرعیدے کا ملنا تھا۔ اب اس مختصر ملاقات کو ملال سے کیا آلودہ کرتی۔ کوئی جائے پناہ نہیں تھی ۔آگے کنواں پیچھے کھائی ۔ زندگی بڑی دقتوں سے آصف کی رضا کے پل صراط گامزن تھی۔گھوگھنٹ اٹھاتے ہی انہوں نے اپنی روئیے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا تھا۔دل اپنی ناقدری اور پائمالی پر بہت کرلایا ۔کیسا خالص اور انمول دل رول دیا تھا اس شخص نے۔ دل نے اللہ سے شکوہ بھی کیا مگر ساتھ ہی ایک جنون نے بھی سر اٹھایا، اس دل کو تسخیر کرنے کا جو دراصل دل تھا ہی نہیں ۔ میکہ کیا چھوٹا ساتھ ہی ساری آسائیش اور آرائش بھی چھوٹی اور رخصتی کے ساتھ ہی آزمائش نے انگلی پکڑ لی اور کہا چلو ری سکھی آج سے ہم تم پکی سہیلی۔ کاش انسانوں کے پاس بھی undo کا بٹن ہوتا۔ اپنی بےوقتعی کا احساس کتنا ظالم ہوتا ہے ،انسان خود اپنی نظروں میں بونا ہو جاتا ہے۔
زندگی اپنی تمام تر بےرنگینی کے ساتھ رواں دواں تھی کہ منجھلی کو دمے کا اٹیک ہو گیا ۔ مختصر سی جان جب سانس لینے کی جوکھم میں پڑتی تو دل خون کے آنسو روتا ۔ کوئی ڈاکٹر، کوئی حکیم نہیں چھوڑا مگر ایک ہی جواب کہ کوئی مستقل علاج نہیں ۔بس پرہیز اور انہیلر ہی ریمیڈی ہے۔ اس کی بہت حفاظت کرنے لگی۔ حکیم صاحب نے کہا کاٹن کی شمیض پہنائیے اور ننگے پاؤں بلکل نہ پھرے،ٹھنڈ سے بچائں ۔ میں نے اس بات کو حرف آخر مان لیا۔ اس رات کھانے کے بعد میں برتن سمیٹ رہی تھی کہ منجھلی ننگے پیر پھرتی نظر آئی ۔میرے تو پیروں سے لگی اور سر پہ بجھی کیونکہ میں شام میں ہی لیکچر سن چکی تھی کہ یہ مرض لا علاج ہے اور مجھے ڈاکڑوں اور حکیموں کے پیچھے پیسا پھیکنے کا شوق ہے، اور میں ان کی محنت کی کمائی اجاڑ رہی ہوں ۔خلاف معمول میں نے بہت زور سے منجھلی کو ڈانٹ دیا۔
وہ غریب سہم گئی، ابھی پلیٹس میرے ہاتھوں ہی میں تھیں کہ آصف بجلی کی طرح بیڈروم سے نکلے اور ایک زبردست تھپڑ رسید کیا ۔ہاتھ پتہ نہیں کیسا اوچھا پڑا کہ کان میں پڑا ٹوپس کان کی لو کو کاٹتا ہوا کہیں دور جا گرا۔ نکل میرے گھر سے،تیری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ کہ کر گھسیٹتے ہوئے مین گیٹ کے باہر دھکا دے دیا۔ اسی وقت باہر سڑک پر قاضی صاحب گزر رہے تھے ۔ہیں ہیں آصف صاحب کیا ہوا؟ یہ کیا کر رہیں ہیں آپ ۔ ان کو دیکھتے ہی آصف تن فن کرتے اندر چلے گئے ۔ اتنے میں بچیاں بھی روتی بلکتی باہر آ گئی ۔ میں تکلیف سے کم مگر بےعزتی کے احساس سے زیادہ شل تھی۔
تمام رات منجھلی کے کمرے میں روکنگ چیئر پر بیٹھے بیٹھے گزر گئ ۔فجر کی آذان پر اٹھنا چاہا تو پتہ چلا کہ جسم اکڑ گیا ہے۔ جیسے تیسے نماز ادا کی۔پھر نیچے کچن میں آ گئی ناشتے کی تیاری کے لئے ۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ بچیوں کو اسکول بھیج کر ،پیناڈول کھا کر سو جاو گی۔ ندیم کو اپنی اپلیکیش دے دوں گی کہ کالج میں ڈراپ کر دے۔ناشتے کی ٹبل پر آصف اتنے نارمل تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ مگر ناشتے کے بعد آصف کو دوبارہ گھر کے کپڑوں میں لیٹتے اور اخبار پڑھتے دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ ان کا چھٹی کا موڈ ہے۔ اب میں کیا کروں؟ چھپا ہوا منہ لیکر کالج جانے کی ہمت نہیں تھی اور میرے پاس کوئی اور جائے پناہ نہیں تھی ۔زمین سخت تھی اور آسمان دور۔ اس دن شدت سے محسوس ہوا کہ زمین تنگ ہونا کس کو کہتے ہیں ۔کوشش کی کہ فاونڈیشن سے چہرے پہ چھپی چار انگلیاں کچھ کم نمایاں ہوں۔ مگر اس صبح تو ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر جگہ چار انگلیاں چھپی ہوئی ہیں ۔میری طبیعت میں اتنا غصہ تھا کہ مجھے رونا بھی نہیں آ رہا تھا۔
میں حاضری کے رجسٹر پر سائین کر ہی رہی تھی کہ مسز شکیل نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پرجوش سلام کیا اور میرا چہرہ اٹھتے ہی ان کا چہرہ فق ہو گیا ۔ یہ یہ کیا ہوا؟ پھر وہ خود ہی سنبھل گئی ظاہر ہے کہ تیس سالہ ازدواجی سفر بھگتی ہوئیں تھیں ۔ میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہنے لگیں، کوئی بات نہیں ہوتا ہے۔
میرے کچھ کہنے سے پہلے میرے بہنے والے آنسو نے سارا ماجرہ کہ سنایا۔ شام میں آصف پھول اور کیک لیکر آئے ۔ کہا کہ مجھے غصہ آ گیا تھا۔ آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔ مگر مجھے پتہ تھا کہ آئیندہ بھی یہی ہو گا۔ پہلے صرف بیڈ روم تک محدود تھا۔ بچیوں کے سامنے نہیں تھا۔ مگر رات کا شو کچھ اس قدر پر لطف تھا،تماشائی اتنے سہمے ہوئے تھے کہ یہ پھر ہو گا اور بار بار ہو گا۔ یہ abuse کی سائیکل تھی۔ پہلے زبانی تشدد، پھر ہاتھ اٹھانا پھر منانا، پھر مختصر سا ہنی مون پریڈ ۔جو جسم و جاں کے لئے سوحان روح تھا۔،پھر وہی تشدد ۔یہ میں عرصے سے سہ رہی تھی ۔اب وقفے میں کمی اور اظہار میں شدت آتی جا رہی تھی ۔میں بلکل سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس سلسلے کو کیسے ٹیکل کروں۔
سائیکالوجسٹ سے بھی ملی۔ اس کا کہنا یہی تھا کہ یہ بہت مشکل ہے۔ اگر بندے میں بہت ول پاور ہو اور وہ واقعی اس عادت بد سے چھٹکارا چاہتا ہو تبھی ممکن ہے ۔مگر عموما ایسا ہوتا نہیں ۔مجھے اپنے سے زیادہ بچیوں کی فکر تھی ۔ان کے سامنے ایک لمبی زندگی تھی۔اس رشتے کی بدصورتی دیکھ کر کہیں وہ اس رشتے سے ہی منحرف نہ ہو جائیں ۔ ان کی پڑھائی اور صحت متاثر ہو رہی تھی ۔ آصف کے گھر میں داخل ہوتے ہی پن ڈراپ سائلنس ہو جاتا۔ عجیب حبس بے جا تھا۔ کھل کے سانس بھی نہیں آتا تھا ۔

اتوار کی شام سسرال کا دورہ فرض نماز کی طرح فرض عین تھا۔ فرض نماز کی تو پھر بھی قضا ہے۔سب صحن میں جمع کسی بات پر ضرور شور سے تبادلہ خیال میں مشغول تھے ۔پتہ چلا کہ موضوع گفتگو اخبار کی ایک مختصر خبر ہے، جس میں آندرون پنجاب کے کسی گاؤں کی عورت نے اپنے میاں کو مارنے سے روکنے کے لیے وہی ڈنڈا لے کر اس کو پیٹ دیا تھا اور اس کا سر پھاڑ دیا تھا۔اماں اس واقعے کو قرب قیامت سے جوڑ رہیں تھیں ۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ اس میں برائی کیا ہے۔اس نے بہت اچھا کیا ۔سب کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ وہاں سناٹا چھا گیا ۔ پھر میری بڑی نند کے بیٹے نے جو ان دنوں تازہ تازہ ہائوس جاب پر لگا تھا،کہنے لگا کہ آپ تو بہت خطرناک ہیں ۔آپ سے تو ڈر لگ رہا ہے ۔میں نے کہا کہ جب ایک عورت پٹ رہی ہوتی ہے تو تم لوگوں کو گھیرا ڈال کر دیکھنے اور چہ چہ کرنے سے تسکین ملتی ہے۔ اور جب وہی عورت مارنے والے کا ڈنڈا پکڑ لیتی ہے تو مظلوم کے بجائے ظالم بن جاتی ہے؟ اگر ظلم کرنے والے کو کوئی وقت پر روک لے تو مظلوم ظالم نہ بنے۔
ممانی آپ تو فیمینسٹ ہو گئی ہیں ۔لیجئے یہ اعزاز بھی میرے ماتھے کا جھومر ہوا۔
مجھ میں اتنے الاو دہک رہے تھے کہ میں نے آصف سے آنکھیں ملانا چھوڑ دی تھی ۔بہت مدہم لہجہ میں جواب دیتی تھی ۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا لہجہ اور نظر ان کو جلا کر خاک کر سکتا ہے۔
بیل زور زور سے بج رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ چوکیدار کی باجی باجی کی صدا بھی جاری و ساری تھی ۔
کیا ہوا بابا خیر تو ہے؟
باجی وہ رانی کا چھوکرا آئی تھی، بولتی کہ رانی کا اپنے گھر والا سے لڑائی مڑائی ہوئی اور اب دونوں زخمی مخمی پڑی ہے۔
ہیں؟ خان بابا کی اردو کو ڈیکوڈ کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں ۔ ٹھیک ہے بابا! بہت شکریہ ۔
کالج سے واپسی پر کھانے کے بعد، دونوں چھوٹی سو رہیں تھیں اور بڑی بیٹی اپنا فزکس کا جرنل مکمل کر رہی تھی تو اس کو خیال رکھنے کا کہ کر میں رانی کی خبر لینے کے لئے پہلوان گوٹھ روانہ ہو گئ۔رانی منہ سر لپیٹے جھنگلی چارپائی پر ہلدی چونے میں پوتی پڑی تھی ۔کیا ہوا؟ اب کیا قصہ ہے؟
ہونا کیا ہے باجی مہینے کا اخیر ہے۔ بچوں کا دوزخ بھروں یا اس کے نشے پانی کا انتظام کروں۔ بس اسی بات پر گالم گلوچ سے بات مار پیٹ تک آ گئی ۔ مجھے بھی باجی جی قسمے غصہ آ گیا ۔ میں بھی بولی آج یا تو نہیں، یا تو میں نہیں ۔
ارے جان سے تو نہیں مار دیا نا؟ کہاں ہے؟
ہونا کدھر ہے اپنی بہن رحمتے کی کھولی میں پڑا ہو گا۔
تو اب؟
تو اب کیا باجی بس اب مار نہیں کھانا۔ قسمے باجی آج پہلی بار درد دکھ نہیں رہا بلکہ مزہ دے رہا ہے۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور زور سے ہنس دئیے ۔ یہ الگ بات کے رانی بیچاری نے ہنسنے کے بعد ہائے بھی کی اپنی چوٹوں کی وجہ سے ۔
واقعی ڈور میٹ نہیں بننا چاہیے ۔اپنے لئے آپ کو خود کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ مجھے بھی اپنی اسٹریٹجی بنانی تھی تاکہ collateral damage کم سے کم ہو۔
آپ لوگوں کے پاس بھی کوئی تجویز ہو تو بتائے گا ۔

از قلم شاہین کمال ۔

No comments:

Post a Comment