Pages

Monday, 2 September 2019

کیا ہمارے درمیان قران بھی اب مختلف فیہ بن جائے گا ؟


   
  یہ ان دنوں کی بات ہے جب پڑھ کر فارغ ہوئے کچھ عرصہ ہی گذرا تھا، ڈاڑھی بھی بس یوں ہی سی تھی، لباس بھی بہت ذیادہ مولویانہ نہیں تھا ( وہ تو خیر اب بھی نہیں ہے) ان دنوں استاذ محترم حضرت مفتی عزیزالرحمان صاحب شدید بیمار ہوگئے تھے، ممبئی کے حبیب اسپتال میں عرصے تک زیر علاج رہے، ان کی تیمار داری اور عیادت کے سلسلے میں میرا بھی ذیادہ وقت اسپتال ہی میں گزرتا تھا ـ
    ایک دن دوپہر بعد میں اسپتال پہونچا دیکھا ایک سیاہ عبا اور شیعوں کا مخصوص عمامہ پہنے ہوئے ستر پچھتر سال عمر کے ایک صاحب سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے بہت تعجب ہوا کہ پتہ نہیں یہ کون صاحب ہیں، بستر پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ حضرت مفتی صاحب سو رہے ہیں ـ
   میں بھی سلام کرکے بیٹھ گیا اور جناب کی تعریف پوچھی، انھوں نے اپنا نام بتایا ( جو مجھے اس وقت یاد نہیں)  پھر فرمانے لگے کہ میں یہاں قریب میں ایک پروگرام کے لئے فیض آباد یوپی سے حاضر ہوا تھا، اچانک طبیعت خراب ہوگئی تو رات ہی کو منتظمین نے مجھے یہاں داخل کردیا تھا، اب ٹھیک ہوں، ....... پھر مفتی صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ صبح ان سے ملاقات ہوئی تھی، یہ بھی اہل علم ہیں، میں یہ سوچ کر ان کے کمرے میں آیا تھا کہ کچھ دیر گفتگو ہوگی وقت گزرے گا، مگر یہ آرام کر رہے ہیں اس لئے یہیں بیٹھ گیا ـ
   انھوں نے میرا نام پوچھا، میں نے نام بتایا، مشغلہ معلوم کیا تو بتادیا کہ دواؤں کاروبار ہے، ( عالم مولوی وغیرہ ہم نے کبھی خود کو سمجھا نہیں، عام لوگ بھی بہت دنوں تک ہمیں مولوی مولانا وغیرہ نہیں سمجھتے رہے، ......... مگر پتہ نہیں کیسے پہلے مولوی پھر مولانا اور اب تو " حضرت " بھی لوگ کہنے لگے ہیں)
    خیر جب بات آگے بڑھی تو موصوف کہنے لگے کہ میں پہلے سنّی تھا، میں نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی تھی، پھر میں شیعہ ہوگیا اور ایران چلا گیا وہاں قم کے حوزے میں سند اجتہاد حاصل کی، امام خمینی کے لیکچر میں بھی بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے ـ
      اس وقت میں کم عمر ہی تھا، تازہ تازہ فارغ ہوا تھا، کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا ....... لیکن الحمد للہ اس کی باتیں سن کر مجھے غصہ تو آیا مگر میں قطعی مرعوب نہیں ہوا،  میں نے پوچھا آپ نے دیوبند میں کب اور کہاں تک پڑھا ہے، کہنے لگے مولانا حسین احمد مدنی سے بخاری اور ترمذی پڑھی ہے، .......... مجھے چونکہ وہ اب تک ایک عام سا کم علم نوجوان ہی سمجھے ہوئے تھے اس لئے کہنے لگے کہ آپ نے صحیح بخاری کا نام تو سنا ہی ہوگا؟ ...... میں نے کہا مولوی صاحب میں نے بخاری کا نام ہی نہیں سنا بلکہ پڑھا بھی ہے ....... اور صرف بخاری ہی نہیں اصول کافی، فروع کافی، من لا یحضرہ الفقیہ اور استبصار بھی دیکھ چکا ہوں، ..... 
   میں نے جب شیعوں کی ان بنیادی کتابوں ( اصول اربعہ) کا نام لیا تو مولوی صاحب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، کہنے لگے ..... اچھا آپ جانتے ہیں، کہاں پڑھا ہے آپ نے؟ میں نے مختصرا اپنی تعلیم اور دیوبند سے فراغت کی تفصل بتائی اور بتایا کہ میں حضرت مفتی صاحب کا بھی شاگرد ہوں،  تو ایک بار پھر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ماشااللہ بڑی کم عمری تحصیل علم سے فارغ ہوگئے ہیں ـ
   میں نے پوچھا کہ آپ شیعہ کیوں ہوگئے، کہنے لگے، میں نے محسوس کیا کہ سنّی اہل بیت کا وہ احترام نہیں کرتے جیسا کرنا چاہئے، قران اہل بیت کو معصوم کہتا ہے سنی حضرات اہل بیت کو معصوم بھی نہیں سمجھتے بلکہ ان سے جنگ کرنے والے جناب عائشہ اور معاویہ وغیرہ ( یہ ان ہی کے الفاظ ہیں) کو بھی حق پر سمجھتے ہیں ـ
    میں نے پوچھا ذرا یہ بتائیے کہ قران میں کہاں لکھا ہے کہ اہل بیت معصوم ہیں، جواب میں انھوں نے بائیسویں پارے سورہ احزاب کی آیت پڑھی .....
    انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا
   میں نے کہا کہ یہ آیت تو ازواج مطھرات کے سلسلے میں ہے جن میں حضرت عائشہ بھی شامل ہیں، آپ ان کو معصوم کیوں نہیں مانتے؟
  کہنے لگے جناب عائشہ اہل بیت میں شامل نہیں ہیں،
    میں نے کہا مولانا قران کھول کر دیکھ لیجئے جو آپ نے آیت پڑھی ہے اس سے پہلے اور اس کی بعد کی آیتیں ازواج رسول کے سلسلے میں ہیں تو درمیان کی یہ آیت صرف حضرت علی کے لئے کیسے ہوسکتی ہے ؟
      اس پر مولوی صاحب برجستہ کہنے لگے " قران کی ترتیب وہ نہیں ہے جس ترتیب پر وہ نازل ہوا تھا، موجودہ قران ترتیب عثمانی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ آیت کہیں اور کے لئے ہوگی، ...... مولوی صاحب ذرا جوش میں آئے اور کہنے لگے " اذا جاء الاحتمال بطل الاستدال "
   مولوی صاحب کے اس جواب پر مجھے طیش آگیا میں نے کہا جناب  ! آپ کہہ کیا رہے ہیں ذرا غور کرلیجئے......... کیا پورے قران میں اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال والا اصول چلے گا، پھر قران سے استدلال کی کیا شکل ہوگی، دراصل آپ لوگوں کا قران پر ایمان ہی نہیں ہے، کئی ہزار روایتیں آپ کی کتابوں میں ہیں جن میں موجودہ قران کو غیر معتبر کہا گیا ہے، آپ لوگوں کا پورا فرقہ ہی اس مذموم  باطنیت کا حصہ ہے جس میں ظاہری نصوص کے بجائے اپنے گھریلو معتقدات پر ایمان ضروری ہوتا ہے، اگر یہ قران ترتیب عثمانی ہے تو آپ کا دوسرا قران کہاں ہے، جب وہ آپ کے امام غائب لے گئے تو وہ قران آپ کے کس کام کا جس کو آپ نے یا آپ کے باپ دادا، پردادا، لگڑ دادا، پکڑ دادا نے بھی نہیں دیکھا وغیرہ وغیرہ،  اس وقت اللہ نے میرے منہ سے نہ جانے کیا کیا کہلوایا مجھے سب یاد بھی نہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ مولوی صاحب حیرت بھری خاموشی سے میری جانب دیکھتے رہے ـ
     میری آواز کچھ تیز ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مفتی صاحب بھی بیدار ہوگئے، مفتی صاحب کے جاگنے کے بعد بات کا رخ بدل گیا، مفتی صاحب سے مخاطب ہوکر مولوی صاحب کہنے لگے کہ میں آپ سے ملنے آگیا تھا آپ آرام کررہے تھے، یہ آپ کے شاگرد رشید آگئے ان گفتگو ہورہی تھی اب مغربین کا وقت ہوا چاہتا ہے اس لئے ابھی اجازت دیجئے، صبح کی ٹرین سے واپسی ہے، چلتے وقت مل کر جاوں گا، ...... یہ کہہ کر مولوی صاحب رخصت ہوگئے، پھر دوبارہ وعدے کے باوجود نہیں آئے ـ
    یہ واقعہ میں نے محض حکایت کے طور پر نقل نہیں کیا کے بلکہ اس کے ذریعے میں کچھ اہم چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ـ
   ۱ ـ   قران مجید الحمد للہ موجودہ ترتیب وتدوین کے مطابق ہی دنیا کے ہر کنارے پر چھپتا ہے، نمازوں میں پڑھا جاتا، تراویح میں پڑھتے ہیں ـ
   ۲ ـ   اب تک قران مجید کہ جتنے قدیم  نسخے آٹھ سو بلکہ ہزارسال پرانے بھی دستیاب ہوئے ہیں سب کے سب موجودہ ترتیب کے مطابق ہیں،
  ۳ ـ   فقہا کرام نے( جن میں پہلی اور دوسری صدی کے فقہا بھی شامل ہیں ) نمازوں میں موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنے کو پسند نہیں کیا بعض نے مکروہ بھی قرار دیا ہے ـ
  ۴ ـ    فقہا نے قرانی املا کے خلاف مثلا رحمٰن کو رحمان لکھنا بھی گوارا نہیں کیا ہے ـ
   ۵ ـ     حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی، اسی طرح قران ہی میں اللہ کا وعدہ کہ انا نحن نزلناالذکر وانا لہ لحافظون، ...... یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ قران اپنی موجودہ ترتیب ۱۱۴ سورتوں کے ساتھ ہی اللہ کی رضا اور اس کی منشاء کے مطابق ہے ـ اسی پر صدیوں سے پوری امت کا اجماع بھی ہے ـ
   ۶ ـ    اس اجماع امت اور موجودہ قران کے سلسلے میں اللہ کی حفاظت کی ضمانت ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ فرقے جو قران پر ایمان نہیں رکھتے یا موجودہ قران کو عثمانی ترتیب قرار دیتے ہیں وہ بھی موجودہ قران کو پڑھنے اور چھاپنے پر مجبور ہیں، وہ ممالک جہاں ایسے فرقوں کی حکومت ہے وہاں بھی یہی قران شایع ہوتا ہے ....... میں سمجھتا ہوں یہ قران کا زندہ معجزہ ہے ـ
    ۷ ـ  ایسے میں اگر کچھ طالع آزما قسم کے لوگ قرانی ترتیب کے خلاف ترتیب نزولی یا کسی دوسرے بہانے سے نیا قران چھاپنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی جسارت ہے ......   تعجب ہوتا ہے کہ ایسا مذموم خیال انھیں  آیا کیسے؟
  ۸ ـ   موجودہ دور میں امت مسلمہ میں وحدت کی دو مضبوط بنیادیں ہیں وحدت قبلہ اور وحدت قران،......... اللہ نہ کرے ایسی بچکانہ حرکتوں سے امت کے درمیان قران بھی کہیں مختلف فیہ نہ بن جائے ـ
   
      ہم سب نے وہ پورا واقعہ پڑھ رکھا ہے جس میں حضور نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں کعبہ کی تعمیر جدید کے موقع پر رقم کی کمی تھی اس لئے قریش نے حطیم کا حصہ چھوڑ کر نئی  دیوار تعمیر کردی، آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے فتنے کا خوف نہ ہوتا تو میں پھر سے کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں تعمیر کرادیتا ......... چنانچہ حضرت عائشہ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنے دور حکومت میں کعبہ کی اس دیوار کو گرا کر ابراہیمی بنیادوں پر نئی.دیوار بنوادی، بعد میں جب حجاج بن یوسف نے مکہ پر قبضہ کیا تو اس نے عبداللہ بن زبیر کی تعمیر کردہ دیوار کو ڈھاکر پھر سےقریش کی بنیاد پر دیوار تعمیر کرائی ......  برسوں بعد جب غالبا سلیمان بن عبد الملک نے ابراہیمی بنیادوں پر پھر تعمیر کا ارادہ کیا تو امام مالک نے فتوی دیا کہ اللہ کے گھر کو بادشاہوں کا کھلونا بنانا مناسب نہیں ہے ـــــــ وہ دن ہے اور آج کا دن  !  تیرہ سو سال ہوگئے الحمدللہ کعبہ اسی حالت میں ساری دنیا کا قبلہ بنا ہوا ہے ـ
      میرا کہنا یہ ہے کہ جس طرح کعبۃ اللہ کو امام مالک نے بادشاہوں کا کھلونا بننے سے بچایا تھا بالکل اسی طرح کتاب اللہ کو چند طالع آز ماؤں کا کھلونا بننے سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ـ
      
              محمود دریابادی

No comments:

Post a Comment