ہر ماں باپ کو یہ سوال خود سے کرنا چاہیے کہ ان کے بچے کیا چاہتے ہیں ؟عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ والدین صرف یہ سوچتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ان کے خواب کیا ہیں؟ان کی تمنائیں کیا ہیں؟؟ وغیرہ وغیرہ.....لیکن کبھی یہ سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کی مرضی کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جس سماج میں صدیوں سے سانس لے رہے ہیں اس سماج میں رائج بعض زندگی کے ضابطے اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ان سے ایک مخصوص نظریے کے پیشِ نظر نسلیں اپنے اندر ایک بوجھ سا محسوس کرتی ہیں ،ان میں ایک نظریہ یہ ہے کہ بچے پورے محلے سے تو گھُل مل جاتے ہیں ،باتیں کرتے ہیں ،سیر سپاٹے کا لطف اُٹھاتے ہیں ،اپنے چھوٹے بڑے جذبوں کو ان سے شیئر کرتے پھرتے ہیں ،ان سے مل کر،ان کے بیچ رہ کر، ان کے چہروں پہ چمک باقی رہتی ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنے گھر میں قدم رکھتے ہیں ،ان کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے کیونکہ بعض گارجین کا رویہ بالخصوص باپ کا طرزِ عمل اتنے تکلفات میں لپٹا ہوا ہوتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو باپ کم اور سخت دل حاکم زیادہ تصور کرتے ہیں ایسی صورت میں بچے باہر کے لوگوں کے لیے چاہے جو ہوں اپنے گھر میں عمر بھری اجنبی بن کر جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،کیونکہ گھر کی چہار دیواری کے اندر کا ماحول انہیں کسی جیل سے کم نہیں دکھائ دیتا ،وہ کھل کر بات نہیں کرسکتے ،اپنی مرضی سے چہک نہیں سکتے ،اپنے خیالات کا اظہار اپنے گارجین سے نہیں کرسکتے ،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اچھا خاصہ ذہین دماغ ایسی فضا میں بانجھ ہوکر رہ جاتا ہے، اندر ہی اندر احساسِ کمتری اور چھوٹے پن کا گھُن اُسے چاٹ کھاتا ہے ،زندگی کے سارے خواب گویا قبر نما اس کے گھر میں ہی دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ہر گارجین کو یہ بات بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آخر بچے چاہتے کیا ہیں؟بچے یا تو بُرا سوچتے ہیں یا بھلا۔ایسی صورت میں اگر وہ بُرا سوچتے ہیں تو ان کے دل ودماغ کی گندگی کو مضبوط دلائل کی صاف ستھری میٹھی زبان سے دھویا جاسکتا ہے اور اگر وہ بھلا سوچتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائ کی جائے ،ان کا ساتھ دیا جائے ،انہیں اپنا ہونے کا احساس دلایا جائے،تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ اگر وہ بھلی سوچ گارجین کے مزاج پہ پوری نہ اترے یا وہ اسے بچوں کے حق مناسب نہیں سمجھتے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اپنی اولاد کو ہی باغی سمجھ لیا جائے بلکہ اس کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ انہیں اپنی گفتگو سے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے یہ نہیں کہ ان پہ اپنی فکر جبراً مسلط کریں کیونکہ *گھر ایک ایسی سلطنت ہے جہاں صرف پیار ومحبت اور مثبت سوچ کی طاقت ہی اچھا ریزلٹ لے کر سامنے آسکتی ہے یہ ہمیشہ یاد رکھیے آپ اپنے بچوں پہ سختی کرکے آپ اسے خاموش تو کر سکتے ہیں لیکن آپ ان کا اعتماد کبھی نہیں جیت سکتے۔*
✒ *جمیل اخترشفیق*
No comments:
Post a Comment