اماں بی نے ناراضگی سے پاؤں سمیٹے ،
"اٹھو بھئی یہ تم میاں بیوی کے روز کے جھگڑے ، ہمارے پاس نہ لایا کرو "
" اماں آپ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں۔ عاجز کر دیا ہے آپ کی بہو نے۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں، کہاں جاوں۔ " احسن نے تقریبا سر کے بال کھینچتے ہوئے کہا۔
" تمیں کچھ ماہ کی چھٹی ملے گی۔؟ " اماں بی نے اس کے پریشان چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" کیوں اماں کیا آپ اب مجھے اس کے ساتھ گھومنے بھیجنا چاہ رہی ہیں ۔ بھر پایا میں ہر روز کے رونے دھونے ، مطالبوں سے۔ اوپر سے زبان درازی الگ۔ میں فوزیہ کو لے کے کہیں سیر کے لیے نہیں جا رہا۔ " احسن نے بری طرح بلبلا کے کہا۔
" میں جو پوچھ رہی ہوں اس کا جواب دو؟ " اماں بی نے گھورا ۔
" اماں آپ جانتی تو ہیں اچھی طرح کہ آرام سے مل جائے گی۔ میں بھائی جان سے پوچھ لیتا ہوں اپنے بزنس کا یہی فایدہ ہے"
"چلو ابھی کال کر کے پوچھو " اماں نے موبائل اٹھا کے ہاتھ میں دیا ۔
احسن نے کال ملا کے بھائی سے بات کی اور اماں کو بتا دیا۔تین ماہ کی چھٹی مل گئی تھی۔
" ٹھیک ہے بیگ پیک کرو ، تین ماہ کے لیے تم اپنے جاوید ماموں کے پاس رہو گے۔ میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ فوزیہ ساتھ نہیں جائے گی۔ اس کو اس کی اماں کے گھر بھیج دو تاکہ اس کے بھی وہاں رہنے کے ارمان پورے ہو جائیں ۔" اماں بی نے مزے سے بتایا اور لیٹ کے کروٹ بدل لی۔
احسن جانتا تھا اب یہی کرنا پڑے گا۔ "خیر اچھا ہی ہے اس لڑاکا لڑکی سے جان چھوٹے۔ تین ماہ مزے کروں گا۔ یہاں تو اس کے فرمائشی پروگرام ہی ختم نہیں ہوتے ۔ "
بیگ پیک ہوا۔ فوزیہ بھی خوشی سے اچھل پڑی ۔ " چلو جی ہماری تو عید ہو گئی ۔ کہاں اماں کے گھر کے آرام ۔ کہاں یہ بدمزاج دھونس جماتو میاں۔ یہ کرو وہ کرو ۔ ایسے کرو ، ایسے نہ کرو، اب تو میں تین مہینے تک خوب گھوموں گی، شہر بھر کے گول گپے برگر کھاؤں گی۔ دل بھر کے سووں گی۔ ۔۔" ایک لمبی لسٹ تیار کرلی دل ہی دل میں ۔
جلدی جلدی بیگ پیک کر کے ، دونوں میاں بیوی اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئے ۔
سارے گھرانے نے سکھ کا سانس لیا ورنہ تو صبح شام کی لڑائیاں تھیں جن میں وہ سب کبھی ایک کو سمجھاتے کبھی دوسرے کو مناتے دن گزارتے تھے۔ اور اس منانے سمجھانے میں سارے اہم کام رہ جاتے۔
احسن کا ماموں نے خوب استقبال کیا۔
"آ جاؤ میرے کڑیل جوان ۔ مجھے تو بیج کی بوائی کے لیے تمہارا ہی انتظار تھا۔ چلو آج ہی تمہیں زمین دکھاؤں" گرم جوشی سے گلے لگا کر انہوں نے کہا۔
" جی !!! " احسن نے حیرت سے کہا،
" آپا بی نے کہا تھا جب تک تم اپنی زمین سے پھل نہ پاؤ گے واپس جانے کی اجازت نہیں "
" ہیں اماں بھی نہ !!!"
خیر مرتے کیا نہ کرتے ، ماموں کے ساتھ گھر سے نکلا ، گیلی مٹی کی البیلی مہک ، نرم ہوا ، آس پاس بکھرا سبزہ، موڈ ایک دم خوشگوار ہوگیا۔ لیکن جب وہ قطعہ دیکھا جس میں اس کو بوائی کرنی تھی تو کچھ دیر تو چپ کا چپ ہی رہ گیا۔ اچھے خاصے حصے میں کانٹے دار جھاڑیاں اگی تھیں ، ایک جانب کائی ذدہ ڈھلان ، جس میں پانی ٹھرا ہوا تھا۔
"یا اللہ", خیر دیکھتے ہیں۔
اگلے دن سویرے سے زمین کی گڈائی شروع ہوئی ، ہر جگہ سے مٹی اوپر نیچے کرنا، کھاد ملانا اور زمین کو بیج بونے کے لیے خود رو پودوں سے پاک کرنا کوئی آسان نہ تھا اور نہ ہاتھ اس محنت کے عادی تھے۔
کانٹے دار جھاڑیوں سے زمین کو صاف کرتے ، ڈھلان کو مٹی ڈال کے ہموار کرتے اس نے سوچا کہ اماں نے شاید اس کی ذہنی حالت کو درست کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے جیسے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے لوٹنے کے بعد گھوڑوں کو سدھانے اور فارمننگ کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تا کہ ان کے اعصاب بحال ہوں۔
واقعی فوزیہ کے ساتھ رہنا حالت جنگ سے کم نہیں ۔ سارا وقت بہنوئیوں، اپنی کزنز کے شوہروں کے قصے، کون منہ میں نوالہ ڈالتا ہے ، کس کی بیوی رات کو صبح کہہ دے تو وہ بھی پھر صبح ہی کہتا ہے اور کون محبت میں دودھ کی نہر کھودنے پہ آمادہ ہے، سنا سنا کہ زچ کر دیتی۔ اور اس پہ بس نہ چلتا تو شوہر کے فرائض اور زمہ داریوں پہ مشتمل احادیث ، اقوال جمع کر کے واٹس ایپ کرتی، فیس بک پہ پوسٹ لگاتی اور ٹیگ بھی اسی کو کرتی ۔ ایک زمانے کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ اپنی زمہ داریوں اور فرائض سے ناواقف ہے ۔
اللہ اس لڑکی کو کسی نے اس کی زمہ داریاں بھی بتائی ہیں ؟؟؟ اپنی قابلیت کے قصے اور خوبصورتی کی داستانیں سنانے کا شوق مزید سونے پہ سہاگا تھا ۔ اس نے غصے سے کدال زمین پہ ماری اور گھٹنوں بیٹھ گیا۔ کسی مرد کے لیے اس سے زیادہ تھکا دینے والی بات کیا ہو گی کہ اس کی بیوی کے مطابق اس میں کوئی خوبی ہی نہیں۔ اور اس کی قسمت ہی پھوٹ گئی جو ایسے مرد سے اس کی شادی ہو گئی ۔ہنہ۔ یہ تو اس کا سیلف کتھارسس ہی ہو گیا۔
تھک ہار کے گھر آتا تو لذیذ ساگ ، دیسی مرغ کے سالن ، لسی کا گلاس پی سکون سے سورہتا۔
زمین تیار ہوئی تو بوائی کا موسم آیا ۔ ایک کٹھن مرحلہ ، لیکن اس کے بعد جو پانی دینے اور بیج کی دیکھ بھال کرنی تھی ، تو اندازہ ہوا کہ یہ اور بھی پر مشقت کام ہے ۔ گھر کی یاد بھی آتی۔ فوزیہ سے فون پہ بات بھی کرتا ۔ یہاں دل ایسا لگ گیا تھا ، جس زمین میں پسینہ بہایا تھا ،اس کی بہار دیکھے بغیر گھر لوٹنا اب مشکل لگتا۔
زمین پہ چلتا بھی تو احتیاط کے ساتھ کہ کہیں کوئی نرم و نازک کونپل نکلنے سے پہلے نہ کچل جائے۔کبھی وہیں بیٹھ کے زمین کو پھاڑ کے نکلتے سبزے کو دیکھنے سے بڑھ کے دل فریب کام کیا ہوگا ۔ پھر انکی حفاظت کے جنگلی جانور گھس کے تباہی نہ مچا دیں۔اب تو رات کی نیندیں دن کا چین سب غائب تھا۔ جیسے جیسے پھل آنے کا موسم آ رہا تھا اس کی محنت بھی بڑھ رہی تھی۔ کیڑوں نے حملہ کیا تو زرعی سینڑ سے جا کے معلومات حاصل کرکے اسپرے کیا۔ اس پاس کے لوگوں سے دوستی بڑھائی کے ضروت پڑنے پہ کوئی سنگی ساتھی تو ہو۔
ننھی ننھی توریاں اب پودوں پہ بہار دکھا رہی تھیں۔ ہر دن نئے جوش سے اٹھ کے اپنی زمین کے پاس اتا۔ فصل پک کے تیار ہوئی تو خوشی سے اس کا دل رقص کناں تھا۔ سرپرائز دینے اماں بھی آ گئیں۔ لہلہاتے سبز پودے اور تازہ تازہ توری ، بیٹے کی محنت دیکھ کے دل باغ باغ ہوگیا۔ محبت سے ماتھا چوما۔
"چلو بھئی امتحان ختم, اب ہمارے ساتھ واپس چلو "
رات جب وہ ان کے پاؤں دبا رہا تھا تو پیار سے کہنے لگیں۔اتنے دن کے بعد بیٹے کو دیکھا تھا۔
"کیسا رہا میرے بیٹے کا یہ تجربہ ؟"
" بہت مشکل، بے حد کٹھن ،جان توڑ محنت ۔
بس اماں کیا بتاؤں، جب فصل لہلہاتی ہے تو ساری تھکن غائب ۔ اپنی کھیتی کو ہرا بھرا دیکھنا اتنا خوبصورت تجربہ ہے کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ۔ "
جوش سے اٹھ کے بیٹھ گیا۔ ہاتھ اماں کے سامنے کھولے
سخت محنت سے نشان زدہ گٹے پڑے ہاتھ ۔
اماں دھیرے سے مسکرائیں۔
"نساوکم حرث لکم
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔"
" اماں !"
ایک دم بہت کچھ سمجھ آیا ،
اماں نے کیوں بھیجا تھا ؟
کیا تھا جو وہ سکھانا چاہتی تھیں ؟
زمین سے محبت کیسے کی جاتی ہے !
اپنا بنانے کے لیے کس طرح خون پسینہ بہانا پڑتا ہے !
کیونکر حفاظت کی جاتی ہے !
دیکھ بھال کتنی کٹھن !
پھر خوبیوں میں اضافہ اور خامیوں کی کاٹ چھانٹ !
اور تمام محنت کے بعد لہلہاتی زمین کو دیکھ کے خوش ہوجانا !
ایسی خوشی کسی دوسری چیز میں کہاں ؟
یہی وہ سبق ہے جو اب اس کو یاد رکھنا ہے ۔
"اماں بی، " لاڈ سے ماں کی گود میں سر رکھ دیا ۔
فوزیہ کی یاد آئی،
مسکرا کے آنکھیں موند لیں۔
مریم روشن
No comments:
Post a Comment