دل کے تاروں کو چھیڑتی ایک خوبصورت تحریر :-
✍ محترمہ بہن اسریٰ غوری کے قلم سے ؛
2006 نومبر حج میں نام نکلا تھا فلائیٹ بھی پہلی تھی کھاریاں سے بہاولپور کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔
دو کمروں کا فلیٹ الاٹ ہوا تھا دو تین دن میں جلدی جلدی سامان شفٹ کیا بچوں کو پیچھے چالیس دن چھوڑنا تھا سو ان کی ساری سیٹنگ کی اور بچوں کو ساتھ لیا اور بائے روڈ کراچی کیلیے نکل پڑے۔ راستے میں رات اور شدید بارش ہونے لگی۔ ساتھ ہی ٹائر پنکچر ہوگیا۔ رات کا سناٹا ، نومبر کی سرد رات ( جو کبھی نہیں بھولتی ) جس کی شدت میں تیز بارش نے خوب اضافہ کردیا تھا۔
صاحب نے گاڑی اک سائیڈ پر روکی اور خود باہر نکلے ٹائر بدلنے لگے ۔۔۔ سات سالہ ارسل بھی بابا کے ساتھ اترا اور اترتے ہوئے بولا ۔۔۔ مما اچھی طرح دروازہ بند کرلیں آپ لوگ بھیگ نہ جائیں ۔۔۔ اور پھر برستی بارش میں ٹارچ تھامے کھڑا تھا ۔ آپی چھوٹو اور مما گاڑی کے اندر گرم ہیٹر آن کئیے بیٹھی تھیں۔
چھتری نا ہونے کی وجہ سے ارسل بھی بابا کے ساتھ مکمل بھیگ چکا تھا ۔
ہم دھندلائے شیشوں سے ان دونوں کو سردی میں بھیگتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ دعاوں میں مصروف تھے ۔
آپی جو حفظ کے دوران جب بھی مردوں کے اک درجہ آگے ہونے والی آیت پر پڑھتی تو سوال کیا کرتی ۔
مما یہ کیا بات اللہ نے ہمارا درجہ کم کیوں رکھا ۔۔۔ ؟
دس گیارہ سال کے ننھے سے ذہن میں سوال اٹھا کرتے تھے مما کئی مثالوں سے سمجھاتیں مگر ننھا ذہن اٹکا ہوا تھا ۔
اسوقت بھائی کو بھیگتے دیکھ کر بولی مما اسے ٹھنڈ لگ جائے گی نا ۔
مما بولیں ۔۔۔ وہ جو آپ پوچھا کرتی ہیں نا کہ ۔۔ مما مردوں کو اللہ نے ایک درجہ کیوں زیادہ دیا ہے اور ہمیں کیوں اک درجہ کم دیا ہے کیا عورت کمتر ہے ۔۔۔ ؟
تو دیکھو یہ اک درجہ زیادہ ہی ہے جو اک سات سالہ بھائی بھی باہر برستی بارش میں تمہیں اندر بٹھا کر گیا کہ کہیں تمہیں سردی نہ لگ جائے کہیں تم نہ بھیگ جاؤ ۔۔۔ خود سردی میں بھیگ رہا ہے ۔
مگر نا ہی اسنے آکر کہا کہ اماں آپ باہر ائیں آپ کو انا چاہئے نا ہی آپی کو کہا کہ آپی بڑی ہو باہر آؤ ۔۔۔
یہ اک درجہ کم ہی ہے کہ ہم اسوقت گرم ہیٹر چلائے اندر گاڑی میں بیٹھے ہیں اور ہمارے حصے کی بھی ساری تکلیف یہ بابا اور بھائی اٹھا رہے ہیں ۔
تو بس یاد رکھیں بیٹا کہ اللہ نے مرد کو درجہ بڑھا کر عورت کو نجانے کتنی تکالیف سے نجات دے دی ہے۔ جب تک عورت اس اک درجہ کو خوشی سے قبول کرتی رہے گی وہ ایسے ہی مرد کو اپنے سامنے باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے کی صورت میں ڈھال بنا ہوا پائے گی ۔
No comments:
Post a Comment