Pages

Friday, 5 July 2019

عید_یاراں دوسری_آخری_قسط


رائیٹر_زینب_خان

چھت پر کپڑے سکھا کر وہ نیچے آئی تو دادی کے ساتھ عارب اور عمر کو دیکھ کر تیوریاں چڑھی تھی لیکن ان  کے منہ لگنے کا اس کا کوئی موڈ نہ تھی اسی لئے کچن میں چلی آئی رات کے لئے آٹا گوندتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا جو صحن میں کھلتی تھی ..
آلتی پالتی مارے بیٹھے کھٹا کھٹ پالک کاٹتے ہوئے وہ بی بی سی بنا دادی کو پورے محلے کی رپورٹ دے رہا تھا ..قریب ہی عمر گڈو کے ساتھ مل کر  مختلف اوزار پھیلاۓ اس کی سائیکل ٹھیک کرنے میں مصروف تھا ..
کہنیوں تک آستین فولڈ کئے وہ اب جھک کر چین چڑھارہا تھا ..
" رہنے دے بیٹا ..ساج خود ہی کر لے گی ..!!"
دادی کو سمجھ نہیں آرہی تھی آج اس کی اتنی فرما برداری ..!!
"ارے دادی ..کرنے دے مجھے ورنہ آپ کی پوتی کہے گی کے میں مفت کی روٹیاں توڑتا ہوں ..!!"
کچن کی طرف منہ کر کے اس نے صاف ساج کو سنانے کے لئے کہا تھا ..
"لو بھئی گڈو میاں ..ہو گئی تمہاری سائیکل کی ریپئرنگ ..!!'
اتنے میں کپڑے جھاڑتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا
"ارے واہ  عمر بھائی  آپ نے تو پوری نئی کر دی میری سائیکل ..!!"
وہ دمکتے چہرے کے ساتھ سائیکل کے ہینڈل پر ہاتھ پھیر رہا تھا ..
"آپ کو پتا ہے ایک دفعہ میں نے عابی بھائی کو کہا تھا کے سائیکل کا پیڈل ٹھیک کر دے ..اور آپ کو پتا ہے انہوں نے کیا کیا ؟؟ میری پوری سائیکل کھول کر رکھ دی ایک رک پرزہ الگ کر دیا ..پھر میں نے ایک ہزار میں اسے ٹھیک کر وایا ورنہ تو انہوں نے ..آہ ہ ..!!"
"چپ کر موٹے ...!!"
عارب نے اسےٹوکری میں رکھا آلو اٹھا کر کھینچ مارا تھا
" وہ شکایتی انداز میں اسے دیکھنے لگا ..
" اب گھور کیا رہا ہے ؟؟ مجھے بھی کھاۓ گا کیا ؟ لے ایک اور آلو کھا ..!!"
عارب نے کہتے ہی ایک قدرے بڑے سائز کا آلو اٹھا کر پھر اس کی طرف اچھالا ..
"اپی ی ی ..!!"
وہ بلند آواز میں چلایا ..
"دیکھیں نہ عابی بھائی کو کب سے مجھے مارے جا رہے ہیں ..!!"
"ہاں اب بلا اپنی ہٹلر اپی کو ...ارے آپ کو پتا ہے دادی وہ جو شکورن خالہ تھی ..ارے وہی جنہوں نے اپنے بیٹے بہو کو گھر سے نکال دیا تھا ..
"پالک کاٹتے ہوئے وہ پھر دادی کی طرف متوجہ ہو چکا تھا ...
اس کی مسلسل آتی آوازوں سے چمٹا ہاتھ میں لئے تپ کر باہر نکلی ..
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ گڈو ؟؟ کیوں ایسے چیخ رہے ہو ؟؟..!!"
"وہ ..وہ اپی ..عابی بھائی .عابی بھائی نے مارا مجھے ..!!"
اس کے تیوروں سے گھبرا کر وہ سہم کر بولا ..
" تو تمہیں کہا کس نے ہے کے یہاں کھڑے ہو کر عابی بھائی کی مار کھانے کو  ؟..اور ٹیوشن کون جاۓ گا ہاں ؟؟.اٹھاؤ بیگ اور دو منٹ میں نکلو یہاں سے ..!!"
ایک ہاتھ کمر پر جماۓ چمٹا والا ہاتھ لہراتے ہوئے وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بول رہی تھی
"کیا دیکھ رہے ہو تم ایسے ؟ تماشا لگا ہوا ہے کوئی یہاں ؟؟..!!"
اس کا رخ اب عمر  کی جانب ہوا تھا جو موبائل سے توجہ ہٹاۓ مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا تھا ..
ساج کے اچانک اٹیک سے سٹپٹایا تھا ..
"اے دھوبن .. میری بلیک والی شرٹ پریس کر دی تھی ؟؟..!!"
مصروف سے انداز میں وہ جیسے یاد آنے پر چونک کر گردن موڑے ساج سے پوچھنے لگا ..لیکن اس کی آنکھوں سے نکلتے شعلے دیکھ کر بوکھلاتے ہوئے عمر کو بھاگنے کو اشارہ کیا ..
کک کوئی بات نہیں ..نہیں پریس کی تو ..میں خود کر لوں گا ..!!"
جلدی سے تخت سے اتر کر جھک کے اپنے جوتے ہاتھ میں اٹھاتا باہر کو بھاگا ..
دو سیکنڈ بعد ہی دروازے سے واپس آیا اور حیرانی سے بت بنے کھڑے عمر کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے واپس ہو لیا ...!!"
"صرف آپ کی وجہ سے میں اسے برداشت کرتی ہوں ..!!"
آلو اور پالک کی پرات اٹھاتے ہوئے وہ ناراض سے انداز میں بولی ..لیکن دادی کو مسکراتے دیکھ وہ مزید شکایتی نظروں سے انھیں دیکھنے لگی ..
" کیوں اس پر اتنا غصہ کرتی ہو بیٹا ؟ اس کے دم سے ہی تو اس گھر میں رونق ہے ..اس کے بغیر تو یہ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ..اس کی پیدائش میرے سامنے ہی ہوئی ہے ساج ..پیدا ہونے کے بعد جوانی تک وہ میرے سامنے ہی کھیلتے کھودتے بڑا ہوا ہے ..جتنی تم مجھے عزیز ہوں اتنا ہی وہ بھی ہے ..!!"
وہ حیران نہیں تھی عارب کے لئے دادی کی محبّت سن کر ..
"بس تھوڑا سا نٹ کھٹ ہے ..برا مت منایا کرو اس کی باتوں کا ..منہ پھٹ ہے لیکن دل کا صاف ہے ..!!"
"اتنی محبّت کبھی آپ نے میرے لئے تو نہیں دکھائی ..!!".
اس کے مصنوئی خفگی سے کہنے پر دادی نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگایا تھا ..
" مجھے تو تم سب ہی عزیز ہو بیٹا ..تم سب سے میں ایک ہی جتنی محبّت کرتی ہوں ..!!"
انہوں نے شفقت سے کہتے ہوئے اس پیشانی چومی تھی ..
عارب اور عمر دونوں ہی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتے تھے دونوں ہی اچھی پوسٹ پر کام کر رہے تھے لیکن آفس کے بعد اور ہفتہ اور اتوار کو چھٹی کے روز وہ دونوں ایک ساتھ ہی گزارتے تھے ساج نے اتنی دفعہ انھیں کہا تھا کے پارٹ ٹائم میں کوئی اور کام کر لیں لیکن دونوں ہی اس کی بات پر کان نہیں دھرتے تھے ..
_________________________________________
تھکی ہاری سکول سے وہ ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی دھڑ سے دروازہ کھول کر عارب بھی اس پیچھے ہی آیا تھا ..
"کس کیساتھ آئی ہو تم ؟؟..!!"
آتے ہی وہ کڑے انداز میں پوچھنے لگا ..
ساج تو اس کے انداز پر ہی حیران رہ گئی تھی ..
دوسرے ہی لمحے اس کے پنکھڑی جیسے گلابی لب بھنچے تھے ..
"یہ تم کس ٹون میں مجھ سے بات کر رہے ہو ؟؟اور  تم ہو کون جو میں تمہیں جواب دوں ؟ ..اپنے کام سے کام رکھو  ..!!"
وہ عادی نہیں تھی عارب کے اتنے سخت انداز کی ..
"میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ساج ..سکول اتنی دور تو نہیں ہے جو تمہیں کسی سے لفٹ مانگنی پڑے ..اور اگر بائیک پر ہی آنا تھا تو کیا مجھے فون نہیں کر سکتی تھی ؟..میں مر گیا تھا ..؟!!"
وہ غصے سے بول نہیں دھاڑ رہا تھا ..
"بات کو ..بڑھاؤ مت عارب ..!!"
اسے اپنی آواز لرزتی ہوئی لگی تھی ..
"میں بات بڑھا رہا ہوں ؟ ..ٹھیک ہے تو پھر تم ختم کر دو .. بتا دوں مجھے کے کس کے ساتھ آئی ہو ؟..!!"
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے عارب اس طرح سے اس پر شک کرے گا ..
وہ بد گمانی کی حدوں کو چھو رہا تھا
"تم ...تم مجھ پر شک کر رہے ہو ؟.!!"
"شک نہیں کر رہا ..جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس کی وضاحت مانگ رہا ہوں ..!!"
"اور تمہیں لگتا ہے کے میرے گھر میں کھڑے ہو کر تم اس طرح سے مجھ پر چیخ چلا کر وضاحت مانگو گے اور میں تمہیں دے دوں گی ؟؟..!!"
جوابآ وہ بھی بھڑک اٹھی تھی ..
" ساج ..غصہ مت دلاؤ مجھے ..جو پوچھ رہا ہوں بتا دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا ..!!"
ساج نے اس کی آنکھوں کو دیکھا تھا جن میں صرف سختی تھی ..
"عارب مرزا ..دفع ہو جاؤ میرے گھر سے ..تم میرے سر پرست نہیں ہوں ..نہ ہی میں تمہارے سامنے جواب دہ ہوں ..!!"
دروازہ کی طرف ہاتھ سے  اشارہ کرتے ہوئے اس نے چبا کر کہا تھا آنکھوں سے آنسوں تو بس نکلنے کو ہی تھے ..دل دکھ سے بھر چکا تھا کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ اس طرح سےبے بنیاد الزام لگا کر ذلیل کرے گا ..
آج سکول میں سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس کا پیر مڑ گیا تھا  شاید موچ آ گئی تھی قدم زمین پر رکھتے ہی تکلیف سے اس کی چیخ نکلتے رہ گئی تھی جس پر ساتھ ٹیچر ہما نے زبردستی اسے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بائیک پر بھیجا تھا ..
وہ بھی تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد راضی ہو گئی تھی ہما کا بھائی اکثر اسے لینے آتا تھا تو ساج سے بھی سلام اور حال چال پوچھ لیتا تھا
اور وہ تو سارے راستے باجی باجی کرتے اس کا دھیان بٹاتے ہوئے آیا تھا کے کہیں موچ کا سوچ سوچ کر تکلیف نہ بڑھے ..
اور گھر کے سامنے اترتے ہوئے ساج نے جب اس کا شکریہ ادا کیا تو کہنے لگا کے ..
" ارے ساج باجی آپ تو میرے لئے ہما باجی کی طرح ہی ہو ..شکریہ کہ کر شرمندہ تو نہ کریں ..ہاں لیکن شکریہ کے بدلے آپ میرے لئے نگٹس بنا کر ضرور بھیج سکتی ہیں باجی کے ساتھ ..!!"
اس کے شرارتی انداز پر وہ تکلیف کے باوجود مسکرا دی تھی
"ٹھیک ہے بھیج دوں گی ..جاؤ اب ہما انتظار کر رہی ہو گی ..!!!"
اسے بھیج کر وہ جونہی اندر آئی عارب بھی اس کے پیچھے ہی آیا تھا شاید اس نے چھت سے  ان دونوں کو دیکھا تھا لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث ان کے بیچ ہونے والی گفتگو کو سن نہیں پایا ..جبھی اس قدر بد گمان ہو رہا تھا ..
ساج کو یاد نہیں تھا کے بچپن سے لے کر آج تک عارب نے اس سے کبھی سخت لہجے میں بات بھی کی ہو ..کبھی اسے ڈانٹا ہو یا اس قدر شدت سے باز پرس کی ہو ..
لب بھینچے تنے تاثرات سے وہ اسے دیکھ رہا تھا آنکھوں میں گویا شعلے سے لپک رہے تھے ..
"تو تم مجھے نہیں  بتاؤ گی ہاں ؟؟..!!"
سرد آواز میں براہ راست اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ دو قدم اس کی جانب بڑھا تھا ..
اس کے تیور ساج کی جان خشک کر رہے تھے اس سے پہلے کے وہ ڈر کر پیچھے ہٹتی عارب نے جھٹکے سے اس کا بازو دبوچ کر اپنے مقابل کیا تھا ..
اس کے چوڑے سینے سے وہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی ..
"یہ کیا بدتمیزی ہے ..؟؟!!"
وہ چیخ کر بولی ساتھ ہی اپنا بازو اس کی گرفت میں سے نکالنے کی کوشش کی لیکن اس کی گرفت سخت تھی ..
"اگر تمہارے ماں باپ زندہ نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کے جو من میں آۓ کرتی پھرو..جس کے ساتھ دل چاہا بائیک پر گھومتی رہو  میں برداشت نہیں کروں گا اگر کسی کے ساتھ تم مجھےدوبارہ نظر آئیں تو ..!!!
عارب  کے لہجے کی کاٹ اسے اپنے تن بدن میں پھرتی محسوس ہوئی تھی ..
اس نے کرب سے آنکھیں میچ لی تھی ..
یہ حد تھی اس کی برداشت کی ..
اسے ہر چیز گوارا تھی لیکن اپنی ذات پر اٹھی انگلی وہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی تھی عارب مرزا نے اس کی زات کو نشانہ بنایا تھا اتنے رکیک الزام نےاس کی عزت نفس کو مجروح کر کے رکھ دیا تھا ..اشتعال کی شدید لہر اس کے جسم میں اٹھی تھی دوسرے لمحے اس نے کھینچ کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر مارا تھا اور جھٹکے سے اپنا بازوں اس کی گرفت سے نکالا ..
" وہ اٹھارہ سال کا لڑکا ..چار سال چھوٹا ہے مجھ سے بھائیوں کی طرح ہیں وہ میرے ..اپنی بڑی بہنوں کی طرح سمجھتا ہے مجھے اور تم سمجھ رہے ہو کے میں اس کے ساتھ ؟؟..
دکھ سے اس کی آواز کانپ رہی تھی آنکھوں سے نکلتا گرم سیال اس کے رخساروں پر بہتا جا رہا تھا ..!!"
"شرم آ رہی ہے مجھے تمہاری سوچ پر ..میری زندگی کے پورے بائیس سال تمہارے ساتھ گزرے ہیں ..کہیں تم نے میری ذات میں جھول دیکھا ؟؟..میں ساج ظہیر ہوں ..میں ایسی لڑکی نہیں ہوں عارب مرزا جو ماں باپ کے مرنے کے بعد غیر لڑکوں کے ساتھ گلیوں میں آوارہ پھرتی پھروں جہاں دل کیا منہ اٹھا کر چلی جاؤں  ..تم ..تمہاری ہمّت بھی کیسے ہوئی میرے کریکٹر پر انگلی اٹھانے کی ؟..آج تو تم نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے ..میں کبھی ..کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں ..!!"
لہوں رنگ ہوتی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو اس نے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر جھٹکے سے اس کا کالر چھوڑا تھا ..
زخمی نگاہوں سے اس کو دیکھتے ہوئے موچ کے باعث تکلیف کی اٹھتی لہروں کو دباتی وہ مڑ کر اندر گئی تھی ..
عارب نے اب اس کے پیر کی لڑکھڑاہٹ کو دیکھا تھا شاید وہ اسی وجہ سے بائیک پر اس کے ساتھ آئی تھی ..
"ڈیم اٹ ..!!"
بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ
ساری بات تو اب سمجھ آئی تھی ..شدید غصہ آ رہا تھا خود پر اس کے کلین شیو گال پر ساج کی انگلیوں کے نشان ابھی بھی دہک رہے تھے ..
وہ جلدی سے اس کے روم کے باہر آیا تھا ..
"ساج ..ساج دروازہ کھولو ..پلیز دروازہ کھولو مجھے بات کرنی ہے تم سے ..ساج دروازہ کھولو ..!!"
ہاتھ سے دروازہ پیٹتے ہوئے وہ مسلسل اونچی آواز میں کہ رہا تھا ..
ورنہ دل تو شرمندگی کی اتھا گہرائیوں میں ڈوب چکا تھا ..
"اب کیا فائدہ شرمندہ ہونے کا ..؟!!"
عمر کی آواز پر کرنٹ کھا کر پلٹا تھا
" اگر تو ابھی بھی اس کا سامنا کرنے کی اپنے اندر ہمّت رکھتا ہے تو ..یقین کر تجھ سے بڑا بے غیرت اس دنیا میں کوئی نہیں ہوگا ..!!"
عمر کے سرد انداز پر اس نے خود کو زمین میں گڑتا محسوس کیا تھا ..
اس نے کچھ بولنا چاہا تھا لیکن آواز نے اس کا ساتھ نہ دیا ..
ایک نظر بند دروازے کو دیکھ کر وہ نفی میں سر ہلاتا پلٹ کر نکلتا چلا گیا ..
عمر نے تاسف سے اسے جاتے ہوئے دیکھا ..
_________________________________________
رات کے گیارہ بج رہے تھے گھر ہنوز اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا نہ جانے کتنی دیر گزر گئی تھی اسے آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹے ہوئے ایک ملال سا اس کی روح میں اترا ہوا تھا لگ رہا تھا جیسے اس نے ساج پر الزام نہیں لگایا بلکے خود کو ہی بے مول کر دیا ہو جس لڑکی کو وہ بچپن سے جانتا تھا جس کا اٹھنا بیٹھنا تک اس کے سامنے تھا آخر کو وہ کیسے ..کیسے اس پر اس قدر گھناؤنا الزام لگا سکتا تھا ؟ وہ اچھے سے جانتا تھا ساج کی قدر معصوم اور پاکیزہ ہے وہ سوچ بھی کیسے سکتا تھا اس کے بارے میں ؟؟..ابھی بھی اس کی آواز عارب کو اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی
"میری زندگی کے بائیس سال تمہارے ساتھ  گزرے ہیں ..کہیں تم نے میری ذات میں جھول دیکھا ؟..میں ایسی لڑکی نہیں ہوں عارب مرزا ..نہیں ہوں میں ایسی لڑکی ..!!"
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا ..بار بار خود کو مورد الزام ٹھہراتے وہ تھک چکا تھا دل چاہ رہا تھا کے خود کو ختم کر لے ..
وہ ہاتھوں میں سر گراۓ بیٹھا تھا ساج کا سامنا کرنے کی ہمّت نہیں تھی اس میں جبھی گڈو کے دو دفعہ بلانے پر بھی کھانا کھانے نہیں گیا ..
اور جب وہ ٹرے میں اس کے لئے لے کر آیا تو بھی اس نے بھوک نہ ہونے کا بہانہ کر کر واپس بھیج دیا .
آخر جاتا بھی کس منہ سے ؟؟..
جو حرکت اس نے کی تھی کیا وہ اس قابل تھی کے اسے نظر انداز کیا جا سکتا ..؟؟
یا معافی دی جا سکتی ؟..
اس کا سر پھٹا جا رہا تھا
تبھی دروازے کھول کر اندر آتے عمر کو دیکھ کر وہ چونکا تھا ..
عارب جانتا تھا کے وہ نیند کا کتنا کچا تھا کبھی بھی رات گئے تک نہیں جاگتا تھا لیکن اس وقت نہ صرف وہ جاگ رہا تھا بلکے اس کے گھر میں بھی موجود تھا ..
" خیریت ؟؟..!!"
عارب نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا تھا
"کھانا کھانے کیوں نہیں گیا ؟؟..!!"
عمر نے بغیر لگی لپٹی رکھے پوچھا ..
"ساج نے بلایا ہے تجھے ؟..!!"
عارب کے استفسار کرنے پر اس نے آثبات میں سر ہلایا تھا ..
"مجھے کال آئی تھی اس کی کہنے لگی کے آج اس نے رات کا کھانا نہیں کھایا ..تم دیکھ آؤ وہ زندہ تو ہے نہ ؟..!!"
عمر کے کہنے پر وہ ہنس دیا تھا ..
" "چل آجا ..تیرے انتظار میں جاگ رہی ہے وہ بھی ..!!"
عمر اسے لئے سیدھا ساج کے گھر میں کچن میں ہی لے آیا تھا
"اہم اہم ..!!"
دروازے پر رکے اس نے گلہ کھنکار کر ساج کو متوجہ کیا تھا جو برنر کے سامنے کھڑی روٹیاں بنا رہی تھی ..
اس نے پلٹ کر ان دونوں کو دیکھا تھا عارب کی نظریں شرمندگی کے باعث جھکی ہوئی تھیں ..
ساج نے کبھی اسے اس طرح سے شرمندہ نہیں دیکھا تھا
چاہے کوئی بڑے سے بڑا غلط کام کیوں نہ کردے تو بھی ڈٹھائی سے ہنستا رہتا تھا
"کیا تم نے بھی کھانا نہیں کھایا ؟..!!"
اس نے عمر کو مخاطب کر کے پوچھا
"نہیں بھئی ..امی نے قیمہ بنایا تھا اور میرا دل نہیں تھا کھانے کا تو سوچا کے تمہارے ہاتھ کی بنی کڑاہی انجوۓ کی جاۓ ..عارب کو تو ویسے بھی بہت پسند ہے ..!!"
تفصیل سے کہتے ہوئے وہ خود ہی ڈائنگ ٹیبل کے پاس آ کر کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ..
سالن کا ڈونگا میز پر رکھتے ہوئے اس کی نظر عارب پر پڑی تھی جو ابھی بھی دروازے میں ہی ایستادہ تھا ..
"اب کیا تمہیں اندر آنے کے لیے بھی انویٹیشن چاہیے ؟..!!"
ساج کی آواز پر اس نے چونک کرسر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو بے تاثر لہجے میں کہ کر کاؤنٹر کے پاس جا چکی تھی ..
"کیا واقعی ؟؟ اس نے مجھے مخاطب کیا ؟؟..!!"
حیران ہوتے ہوئے وہ اندر آیا تھا کرسی کھینچ کر عمر کے برابر میں بیٹھا جو کھانا کھانے میں مصروف ہو چکا تھا ..
اس کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ڈونگے میں سے سالن نکالنے لگا
"کیوں گھور رہا ہے بھائی ؟ کھانے دے نہ ..!!"
عمر نے کہتے ہوئے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا تھا ..
"بعد میں پوچھتا ہوں تجھے تو ..!!"
نوالہ بنا کر منہ میں رکھتے ہوئے اس کو دھمکاتے ہوئے  ساج کو دیکھا تھا جو دوپٹے سے سر ڈھانپے برنر کے پاس کھڑی تھی اچانک اس کے پلٹنے پر  اس نے سٹپٹا کر نظروں کو زاویہ بدلا ..
"کھا تو لو ٹھیک سے ..!!"
ٹرے میں دو چاۓ کے کپ رکھے جب مڑی تو عمر کو نیپکن سے منہ صاف کرکے اٹھتے دیکھ بولی ..
" بس اتنی ہی بھوک تھی ..!!"
اس نے کہتے ہوئے ایک کپ اٹھا لیا تھا
عارب فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا دفتآ فون بجنے پر چونکا ..
گلاس اٹھا کر پانی کے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو چہرے پر انوکھی سی چمک اتر آئی ..
"السلام عليكم امی کیسی ہیں آپ ؟..اور ابو کیسے ہیں ؟..!!"
فون کان سے لگاۓ وہ کھانا چھوڑ کر بات کرتے ہوئے باہر چلا گیا تھا ..
ان دونوں نے ہی اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا کتنی بچوں جیسی خوشی تھی اس کے چہرے پر ..
اپنی امی سے تو بلکل ہی بچوں کی طرح لاڈ اٹھواتا تھا اب اتنے دنوں سے وہ اکیلا کافی اداس ہو گیا تھا لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا ..
" امید ہے مس انڈراسٹینڈنگ سمجھتے ہوئے اسے معاف کر دو گی ..تم اچھے سے جانتی ہوں وہ ایسا تنگ نظر نہیں ہے..نہ ہی اتنی چھوٹی سی بات کا اتنا بڑا ایشو بناتا ہے وہ تو بس  تمہارے لئے پوزیسیو بھی تو بہت ہے نہ ..!!"
" آخر میں عمر کے شرارت سے کہنے پر وہ چونکی ..
"کیا مطلب ؟؟..!"
اس نے الجھن زدہ انداز میں پوچھا
اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتا عارب اندر آیا تھا
"امی بات کریں گی تم سے ..!!"
اپنا فون ساج کی جانب بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا
عام دنوں سے مختلف تھا اس کا لہجہ ..
"ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھنے کے بعد اس نے بڑھایا ہوا فون تھام لیا تھا ..
"رات بہت ہو گئی ہے چاۓ پی کر فورآ نکل یہاں سے زیادہ دیر رکنے کی ضرورت نہیں ..!!"
چاۓ ختم کر کے کپ میز پر رکھتے ہوئے عمر نے عارب کو کہا تھا جو کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے اپنا کپ اٹھا چکا تھا
عمر کے کہنے پر گھور کر اسے دیکھا پھر ساج کو جو فون کی جانب متوجہ تھی ..
" پہلے تو ' تو نکل یہاں سے ..!!"
"میں تو چلا جاؤں گا تو اپنی فکر کر ..!!"
اس نے موبائل آف کر کے عارب کو دینے کے بجاۓ ٹیبل پر رکھ دیا تھا ..
"عمر ..تم میرا لیپ ٹاپ چیک کر لو گے کل ؟ ..دو دن سے خراب پڑا ہے ..!!"
اس کو نظر انداز کئے وہ عمر کی جانب متوجہ تھی اور یہی چیز اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی ..
" سآج ..وہ مجھے بات کرنی ہے تم سے ..!!"
اس کے مخاطب کرنے پر وہ دونوں ہی اس کی طرف دیکھنے لگے تھے ..
وہ تھوڑا جزبز ہوا تھا ..
" وہ ..آئم رئیلی سوری ..مجھے تمہارے ساتھ ایسے بی ہیو نہیں کرنا چاہیے تھا ...سوری اگین کے میں نے تمہاری بات ہی نہیں سنی ..میں سچ میں شرمندہ ہوں ..!!"
جھکی آنکھوں سے اس نے شرمندہ انداز میں کہا تھا ..
ساج نے عمر کی طرف دیکھا جس نے آثبات میں سر ہلایا تھا ..
"کوئی بات نہیں .تمہاری جگہ اگر میرا بھائی ہوتا تو بھی یہی کرتا ..!!"
پانی کا جگ اٹھاتے ہوئے اس نے نرمی سے کہا تھا لیکن عارب کی بے ساختہ چیخ اور عمر کے مصنوئی کھانسنے پر وہ حیرت سے آنکھیں پھیلاۓ ان کو دیکھنے لگی ..
"کیا ہوا ؟؟..!!"
"اسی سے پوچھو ..میں چلا خدا حافظ ..!!"
وہ کہتے ہوئے ہنسی ضبط کرتے ہوئے وہاں سے نکلا تھا کندھے اچکاتی وہ عارب کی جانب مڑی جو خشمگیں انداز میں اسے گھور رہا تھا ..
"آج تو بول دیا آئندہ نہیں کہنا ..!!"
"کیا ؟؟..!!"
"بھائی ..!!"
وہ دانت پیستے ہوئے بولا ..
" کیوں ؟؟..!!"
" کیوں کے میں تمہارا بھائی نہیں ہوں ..!!"
اس کے ناراض انداز پر وہ رخ موڑ کر  ہنسی چھپا گئی تھی ..
"اچھا تو پھر کون ہو ؟..!!"
وہ اسے چھیڑنے کو بولی ..
"بتا دوں گا اتنی بھی کیا جلدی ہے ..!!"
اس کی ننھی سی ناک دباتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اپنا فون اٹھا کر باہر چلا گیا تھا ..
"دروازہ بند کر لو اندر سے ..!!"
وہ اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی تھی ..
_________________________________________
"اپی ی ی ۔۔۔اپی دیکھیں اپنا بکرا آ گیا ..!!"
وہ جو روم میں اپنی وارڈ روب سیٹ کر رہی تھی گڈو کی آواز پر باہر آئی تھی جہاں وہ بکرے کی رسی تھامے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے اس پر ہاتھ پھیر رہا تھا ..
ساج اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوئی تھی
"ہاں بہت پیارا ہے ...!!"
اس نے دور سے ہی اس سفید رنگ کے بڑے کانوں والے بکرے کو دیکھتے ہوئے کا جو گردن گھما گھما کر چاروں اور دیکھ رہا تھا ..
"اپی .ادھر آ کر دیکھیں نہ آپ تو اتنی دور کھڑی ہیں ..!!"
"میں یہیں ٹھیک ہوں ..پیچھے پیچھے کرو اسے گڈو ..!!"
وہ رسی تھامے ساج کے پاس لانے لگا تو وہ چیختی ہوئی پیچھے ہٹی تھی لیکن جبھی اندر آتے عارب سے ٹکرائی تھی ..
وہ کبھی بھی قربانی کے جانوروں کے قریب نہیں جاتی تھی ..
"سس سوری ..!!"
وہ دور ہٹتے ہوئے بولی ..
" کوئی بات نہیں ..اور یہ لو ..تیس  ہزار کا بکرا باقی کے دس ہزار پک اپ میں اور اس کے ہار سنگھار میں خرچ ہو گئے ..
"عارب نے ہاتھ میں پکڑے ہار وغیرہ اس کی جانب بڑھاۓ تھے جس نے فورآ سے دونوں ہاتھ پیچھے کیے تھے
"میں کیا کروں اس کا ؟ خود ہی پہنا دو اسے ..!!"
وہ بدک کر بولی ..
" لو بکرا تمہارا ہے خود پہناؤ ..!!"عارب نے زبردستی اس کے ہاتھ میں تھمایا جو جلدی سے گڈو کی طرف پھینک کر دور جا کھڑی ہوئی ..
اتنے میں دادی اندر سے چھوئی سی کٹوری میں گھلی ہوئی مہندی لے آئیں ..
"لو ساج مہندی لگاؤ اس کو ..ایک تو اتنی دیر سے لاۓ ہو کے اب وقت ہی نہیں اس کی خاطر داری کا ..!!
دادی نے مہندی اس کی جانب بڑھائی تھی ..
" دادی آپ جانتی ہیں مجھے ڈر لگتا ہے ..!!"
اس نے اونچے لمبے بکرے کو دیکھتے ہوئے منمناتے ہوئے کٹوری تھامی ..
" ارے کچھ نہیں کہتا وہ بے زبان ..عارب ایسا کرو مظبوطی سے پکڑو اس کو ..!!"
آثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس نے آگے جا کر اس کو سینگوں سے پکڑ کر قابو کیا گڈو الگ اس کی رسی تھامے کھڑا تھا ..
"لکھوں کیا ؟..!!"
"اپی پاکستان زندہ باد لکھیں ..اور چاند ستارے بھی بنا یے ..!!"
گڈو نے جوش سے کہا ..
"چپ کر موٹے ..عید مبارک لکھو جب عید ہے تو ..!!"
عارب نے گڈو کو آنکھیں دکھانے کے بعد ساج کو کہا جو ڈرے ہوئے انداز میں اس کے پاس جھکی ہاتھ سے مہندی لگا رہی تھی ..اچانک سے اس کے ہلنے پر وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹی تھی ..
"اے ڈرپوک ..ادھر دو مجھے ..!!"
اس کے ہاتھ سے مہندی لے کر عارب خود اسے لگانے لگا وہ شکر ادا کرتی روم میں بھاگی ..
_________________________________________
آتشی رنگ کے اسٹائلش سی فراک اور چوڑی دار پاجاما  پہنے لائٹ سے میک اپ میں وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی عام دنوں سے ہٹ کر تو آج اس کی چھب ہی نرالی تھی گہرے کالے بالوں کو بھی ہاف کیچر میں باندھے پشت پر پھیلا رکھا تھا سوٹ کے ساتھ کا ہم رنگ دوپٹہ  ناک پر لپیٹے وہ افغانی پلاؤ اور بادامی قورمہ بنا رہی تھی قربانی کے گوشت کی مہک سے اس کا جی متلی ہونے لگتا تھا پہلے تو وہ کبھی بقرہ عید کے دن گوشت کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتی تھی لیکن اب تو مجبوری تھی ..
عید کے نماز پڑھتے ہی عارب قصائی کو لے آیا تھا قربانی اور گوشت کی تقسیم کے بعد بھنی ہوئی کلیجی کا ناشتہ کر کے رات کو دوستوں کے ساتھ بار بی کیو پارٹی کے لئے بہت سارے گوشت کی بوٹیوں پر مصالحہ لگا کر فریج میں رکھنے کے بعد اب وہ لمبی تانے سو رہا تھا صرف وہ ہی نہیں عمر اور گڈو کا بھی یہی حال تھا پلاؤ کو دم پر لگانے کے ساتھ  سلاد اور رائتہ بنانے کے بعد اچھی طرح سے چہرہ دھوکر ٹشو سے صاف کرتی وہ اپنے روم میں آئی تھی گھڑی میں ٹائم دیکھا تو دوپہر کے ڈھائی بج رہے تھے کپڑے چینج کر کے وہ نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی ..
_________________________________________
"اپی ..اپی اٹھیں ..!!"
اسے سوۓ ہوئے نہ جانے کتنی دیر گزر گئی تھی جب گڈو کے جگانے پی کچی نیند سے اٹھی تھی ..
ا"اب کیا مسئلہ ہے گڈو ؟..!!"
مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ کروٹ بدل کر پھر لیٹ گئی تھی
"اپی اٹھیں نہ ..خالہ اور خالو واپس آ گئے ہیں ..!!"
"کون خالہ اور خالو ..؟؟!!"
وہ غائب دماغی سے بولی ..
"افوہ اپی ..عابی بھائی کے امی ابو کا کہ رہا ہوں وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں .. اب جلدی اٹھیں ..!!"
اس کی نیند بھک سے اڑی تھی ..
جھٹکے سے وہ اٹھ بیٹھی ..
" کب آۓ ؟؟..!!"
" تھوڑی دیر پہلے اور آپ کو پتا ہے سیدھا ہمارے گھر آۓ ہیں ..!!"
"دادی کہاں ہیں  ؟..!!"
بالوں کو جوڑے میں لپیٹتے ہوئے اس نے جلدی سے بیڈ سے اتر کر  پیروں میں سلیپر اڑستے ہوئے پوچھا ..
"دادی اور عارب بھائی بھی وہیں ہیں ..!!"
منہ پر پانی کے چھنٹے مارکر بالوں میں برش کر کے سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتے ہوئے وہ ڈرائنگ روم میں آئی تھی ..
"السلام عليكم ..!!"
سب نے ہی اس کی طرف دیکھا تھا ..
مرکز نگاہ بنتے ہوئے وہ پزل ہو گئی تھی ..
" وعلیکم السلام  بیٹا ..!!"
مرزا صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ..
"حج کی سعادت بہت مبارک ہو آپ کو ..!!"
"بہت شکریہ بیٹا ..!!
عارب کی امی سمیرا نے اسے پیار سے اپنے برابر میں بٹھایا تھا ..
"کیسی ہے میری بیٹی ؟اور  زیادہ تنگ تو نہیں کیا نہ عارب نے تمہیں ؟..!!"
اس نے پلکیں اٹھا کر اپنے ابو کے ساتھ باتیں کرتے عارب کو دیکھا تھا جو سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا جو اس کے گندمی رنگت پر کافی جچ رہی تھی ..ہلکے براؤن بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے تھے ..
اس کی ساری توجہ مرزا صاحب کی طرف تھی لیکن وہ جانتی تھی جتنا وہ بے نیاز بن رہا ہے اتنا ہے نہیں .
اس کے کان اس طرف ہی لگے تھے ..
دل میں جانے کیسی ہلچل سی مچی تھی ..
"زیادہ نہیں ..لیکن جتنا پہلے کرتا تھا اتنا ہی کیا ہے ..!!"
ساج کے کہنے پر وہ ہنس دی تھی
"معاف کرنا بیٹا لیکن تم تو جانتی ہو یہ کس قدر ڈھیٹ ہے ..حلانکے میں اسے تاکید کر کے گئی تھی کے تمہیں تنگ نہ کرے ..!!"
"کوئی بات نہیں آنٹی ..!!"
اس کے نرمی سے کہنے پر سمیرا نے اسے ساتھ لگا کر محبّت سے اس کی پیشانی چومی تھی ..
" اب تو آپ میرا انتظار ختم کر دیں اماں ..تاکے میرے گھر میں بھی رونق لگ جائے ..!!"
انہوں نے دادی کو متوجہ کر کے کہا تھا ..
"میں تو بس تمہارے واپس آنے کا انتظار کر رہی تھی ..خیر سے اب تم دونوں آ گئے ہو تو جب چاہو لے جاؤ ..مجھے کوئی اعتراض نہیں ..!!"
دادی کے
مسکراتے انداز پر اس نے حیرت سے ان کو دیکھا تھا ..
عارب نے مسکراہٹ دبا کر اس کے حیران چہرے کو دیکھا تھا ..
"امی اور دادی ہماری شادی کی بات کر رہی ہیں ساج ..لیکن دیکھو اب تم مجھے ڈانٹنا بند کردو ..اب کیا میں شادی کے بعد تم سے ڈانٹ سنتے ہوئے اچھا لگوں گا ؟؟..!!"
اس کے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر کہنے پر سب ہی ہنسنے لگے تھے ..
وہ تو سٹپٹا گئی تھی سب کے سامنے وہ کتنی بے شرمی سے بول گیا تھا  ٹھیک سے گھور بھی نہ سکی اسے ...
_________________________________________
"خوش ہو ؟..!!"
"کیوں میری کوئی لاٹری نکل آئی ہے جو مجھے خوش ہونا چاہیے ؟..!!"
تڑ سے جواب آیا ..
"بندہ کوئی لاٹری سے کم تو نہیں ..!!"
کالر کھڑا کرتے اس نے گردن تان کر کہا ..
" خوش کا تو پتا نہیں لیکن مطمئین ضرور ہوں ..!!"
"اور وہ کیوں ؟؟..!!"
" کیوں کے مجھے کہیں دور نہیں جانا پڑے گا ..اگر کہیں اور میری شادی ہوتی تو مجھے دادی اور گڈو کی فکر رہتی ..!!"
"مطلب مجھے سے شادی صرف دادی اور گڈو کی وجہ سے کر رہی ہو ؟..!!"
اس نے فورآ منہ پھلا لیا ..
"ام ..صرف ان کی وجہ سے نہیں ..!!"
"تو پھر ؟؟..!!"
"تو پھر یہ کے اس میں میری مرضی بھی تو شامل ہے نہ ..!!"
"ہیں ..؟؟..!!"
وہ جی بھر کر حیران ہوا ..
اس کا بازو پکڑ کر رخ اپنی طرف کیا ..
"پھر سے کہنا ایک بار ..!!"
" سوری ..میں اپنی بات دہرانے کی عادی نہیں ..!!"
کیا شان بے نیازی تھی ..
اس کےگھورنے پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی ..
ناراضگی بھلاۓ وہ اس کی ہنسی کے سحر میں کھو سا گیا تھا ..چاند کی روشنی سیدھی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ..
" اس کے ایک ٹک دیکھیے پر ساج کی پلکوں پر منوں بوجھ آ گرا تھا اس کی نظریں جھک گئی تھی ..
" اتنی خوبصورت آج سے پہلے تو کبھی نہیں لگیں تم ..!!"
اس کا جھومر ٹھیک کرتے ہوئے عارب نے کھوۓ ہوئے انداز میں کہا تھا ..
" دیکھنے کا انداز جو بدل چکا ہے ..!!"
اپنی بھاری میکسی سنبھالتی وہ جانے کے لئے مڑی تھی ..تبھی اوپر آتے عمر نے ان دونوں کو گھورا تھا ..
"نیچے مہمان ویٹ کر رہے ہیں کے دولہا اور دلہن کہیں سے مل جائیں تو نکاح کی رسم ادا کی جاۓ لیکن ان کو تو جی فلرٹ سے ہی فرصت نہیں ..!!"
"تو پاگل ہو گیا ہےعمر  ؟ اس سے فلرٹ کروں گا میں ؟؟..!!"
وہ جو سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی عارب کے صدمے سے کہنے پر چونک کر مڑی ..
"کیا کہا تم نے ؟؟..!!"
اس کا انداز یخلت ہی بدلا تھا
"مذاق کر رہا تھا یار ..اب پھر سے نہ ڈانٹنے لگ جانا مجھے ..!!"
ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے وہ منہ بسور کر بولا تھا ..
اس کو گھورتی وہ نیچے چلی گئی تھی پیچھے ان دونوں کا قہقه بلند ہوا تھا ..

ختم شد ..!!"

No comments:

Post a Comment