نبوت سے پانچ سال پہلے کا وقت ھے،مکہ مکرمہ میں اتنی شدید بارش ھورہی ہے کہ کعبہ کے اندر پانی داخل ہوچکا ہے اور یہ بارشیں کسی بھی وقت خانہ کعبہ کو مہندم کرسکتی ہے ، قریش کے بڑے سردار جمع ہوتے ہیں کہ خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کی جاے ، خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کرنے کے لیے انھوں یہ وجہ بھی پیش کی کہ اس پر چھت نھیں تھی اور ایک رات چور موقع پا کر اندر رکھا ہوا خزانہ اٹھا لے گئے، اس وجہ سے بیت اللہ پر چھت ڈالنا ضروری سمجھا گیا،
متفقہ فیصلہ ہوا کہ عظیم گھر کی تعمیر کے لیے صرف حلال رقم استعمال ہوگی ، رنڈی کی کمای ، سود کا مال ، ناحق کمایا ہوا پیسہ ، چوری وغیرہ کا پیسہ تعمیر میں قابلِ قبول نہیں ھوگا، ضروری سمجھا گیا کہ خانہ کعبہ کی بنیادیں کھود دیں جاے ۔ لیکن کسی میں اتنی ھمت نھیں پڑ رھی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کا پرانا ماڈل شریف گرا کر نیا تعمیر کریں ، بلآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ہمت کی اور دعا مانگنے کے بعد کعبہ کی بنیاد پر کدال چلائ ، تمام اہل قریش اور دوسرے قبائل کے سردار منہ میں انگلی رکھ کر سوچ رھے تھے کہ مغیرہ پر غذاب بس آنے ہی والا ہے، مگر کافی انتظار کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ مغیرہ کو کچھ نھیں ہوا تو باقی لوگ بھی انہدام کے اس عمل میں شریک ھوے تعمیر کے لیے ہر قبیلے کو بیت اللہ کا ایک ایک حصہ دیا گیا تھا، " باقوم " نامی ایک رومی نے فورمین کے فرائض انجام دیۓ تھے، قریش کے پاس حلال مال کم پر جاتا ہے لہذا انھوں نے شمال کی جانب کعبہ کی لمبائ 6 ھاتھ کم کردی ، آج اس مقام کو "حطیم یا ھجر " کے نام سے جاتا ہے، دروازے کو خاصا اونچا رکھا گیا تاکہ جسے قریش چاہے اسے ہی بس اندر جانے کی اجازت دیں، دیواریں 15 ہاتھ اوپر تک اٹھائ گئ اندر 6 ستون چھت کے لیے کھڑے کیے گیے مگر چھت ڈالنے سے قبل جب عمارت حجر اسود تک بلند ہوی تو ایک بڑا جھگڑا پیدا ہوا، بنو ھاشم نے میان سے تلواریں کھینچ نکال لی کہ حجر اسود صرف بنو ھاشم ہی اسکے مقام پر رکھ سکتی ہے۔ اِدھر بنو حرب ، بنو امیہ ، کے لگ بھگ 100 افراد جمع ھوے اور انھوں نے بھی تلواریں میانوں سے نکال لی ، بنو زھرہ اور بنو سہم میں اتفاق ھوا کہ یہ سعادت صرف ھماری ہے،
ھر ایک قبیلہ یہی کہہ رہا تھا کہ حجر اسود پر صرف انکا حق ہے ، اچانک خالد بن ولید کے چچا نے کہا کہ کیوں ایک دوسرے کا خون بہانے پر تلے ہو آو ہم سب ملکر کسی ایک کو حکم بنا لیتے ہیں جس بھی قبیلے کا بندہ باب بنی شیبہ سے اس وقت سب سے پہلے داخل ہوا ھم اسکو اپنا حکم بنا لیتے ہے جو وہ فیصلہ کریں ھم سب اسکو منظور کرلے گے، سب سرداروں یہ راۓ بھت اچھی جانی
وقت جیسے ٹہر گیا ہو سب کی نظریں " باب بنی شیبہ " پر جمی ہوی ہیں کہ کونسے قبیلے کا فرد پہلے داخل ہوگا، سرداروں کی سانسیں اٹکی ہوی ہیں کہ اتنے میں محمد باب بنی شیبہ سے داخل ھوجاتے ہے، اس وقت آپ نبوت سے سرفراز نہیں ہوے تھے سب بیک وقت پکار اٹھے ۔ صادق آگیے امین آگیے یہ محمد ہے بیشک یہ تو صادق انسان ہے ہم سب ان کے ھر فیصلے سے مکمل متفق ہیں، جب محمد ﷺ قریب آے تو ان کو تمام صورت حان بیان کی گئ ،
سرور کونین نے اپنی چادر اتارتے ھے ، زمین پر بچھاتے ہے حجر اسود کو پکڑکر چادر میں اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھتے ھے ، بنو ہاشم کو پکارتے ہیں یہ ایک کونہ آپ پکڑ لیں چادر کا،بنو زھرہ کے سردار کو کہتے ہیں جناب یہ ایک کونہ چادر کا آپ پکڑ لیں تمام سردار پریشان دیکھ رھے ہیں کہ محمد کرکیا رہا ہے ، بنو امیہ اور بنو تمیم آپ بھی ایک ایک کونہ پکڑ لیں ، بنو کعب اور دیگر تمام دعویدار حضرات آپ بھی چادر کو پکڑ لیں ، سب نے نہایت عزت اور احترام سے چادر کو پکڑا اور کعبہ کی طرف چل دیے ۔ جب حجر اسود کے مقام پر پہنچے تو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اسکی جگہ پر رکھ دیا، وہ چہرے جو تھوڑی دیر پہلے غصے سے تمتمانے لگے تھے تلواریں ننگی ہوگئ تھی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا وہ سب اب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رھیں تھے کیونکہ انکو پتہ تھا کہ فیصلے کے مطابق انکا یہ حق بھی نہیں بن سکتا تھا کہ وہ چادر پکڑیں، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ان سب کو برابر شریک کیا،
ایک بڑی لڑای اور عظیم فتنے کا سدباب ہوچکا تھا ایک صادق امین دانشور اور قاید نے نہایت عمدہ فیصلہ کیا تھا ایک ایسی شخصیت کا فیصلہ جس کا دامن کردار پھولوں سے بڑھ کر معطر اور شبنم سے زیادہ پاکیزہ تھا جس نے کھبی چوری نہیں کی جو کھبی بھول کر بھی کسی خیانت کا مرتکب نہیں ہوا تھا
یہ معلومات
السیرۃ النبوۃ کے جلد اول 1 ص نمبر 223 سے 224 ہر
تاریخ الطبری ج دوم ص نمبر 212 سے 213 پر
البخاری میں حدیث نمبر 1582 سے 1586
اور فتح الباری ج تیسری 3ص نمبر555 سے 560 تک
آپکو مکمل تفصیل سے مل سکتی ہیں
Pages
▼
No comments:
Post a Comment