Pages

Sunday, 21 April 2019

جہیز -

"آپ کچھ اور بھی لیں نا" فاطمہ کی امی نے کہا.
"جی شکریہ، ہم پہلے ہی کافی کچھ کھا چکے ہیں، ویسے بھی آپ نے بہت تکلُّف کیا ہے" علی کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا.
"ارے نہیں، تکلُّف کیسا.. یہ سب تو ہماری فاطمہ کا کمال ہے، ہمارا گھر تو جیسے اسی نے سنبھال رکھا ہے. جب دیکھو کام میں مصروف رہتی ہے، گھر کے ہر فرد کا خیال رکھتی ہے.. اور کھانا تو بس نہ ہی پوچھیں، کیا غضب کا ذائقہ رکھا ہے رب نے اس کے ہاتھوں میں..!!" فاطمہ کی ام ایک ہی سانس میں کہہ گئیں.
" بس کریں امی بس کریں..میں کوئی مشین نہیں ہوں.. یہ سب کچھ میں سب گھر والوں کے ساتھ مل کر کرتی ہوں.. کوئ جادو کی چھڑی نہیں ہے میرے پاس.. اُف میرے خدا!! کیا ہو گیا ہے امی کو.. " ادھر فاطمہ اپنا سر پکڑے یہ سب سوچ رہی تھی. اس کو ایسی تعریفوں سے ایک چڑ سی تھی جن کا مقصد اپنی بیٹی کو قبول کروانا ہو. جیسے اگلے گھر بہو نہیں بلکہ"کام والی ماسی" بن کے جانا ہو.
" خیر آپ سنائیں، علی بیٹے کی نوکری کیسی چل رہی ہے؟" فاطمہ کی امی نے پوچھا.
" سرکاری نوکری ہے جی.. وہ بھی پکّی..اور ہمارا بیٹا تو ہے بھی لاکھوں میں ایک.. نہ سگریٹ نہ پان.. نہ کوئی ایکسٹرا یار دوست.. کیا کیا خوبیاں گنوائیں آپ کو.." اب علی کی امی کی باری تھی.
" ہم لوگ مارکیٹ کے لیے نکلے تھے سوچا کہ آپ سے بھی مل لیں اور ویسے بھی ایک ضروری بات کرنا تھی آپ سے...!!" انہوں نے اپنی بات جاری رکھی.
" ہونہہ یہ جہیز کی ہی بات کرنے آئے ہونگے".. فاطمہ کی امی کے دل میں خیال منڈلانے لگا.
" وہ بات دراصل یہ ہے.. آپ برا مت منائیے گا.. لیکن یہ بات ہم آپ سے واضح طور پر ابھی کرنا چاہتے ہیں.."
" ارے نہیں آپ کھل کر بات کریں پلیز" اس کی امی کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی.
ان کو یقین ہو چلا تھا کہ کسی وجہ سے انکار ہی کرنے آئے ہونگے.. "مگر یہ بات تو فون پر بھی کہی جا سکتی تھی. اس طرح ہمدردیاں سمیٹ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں. پتہ نہیں کیا کمی ہے ہماری بیٹی میں.. یا ان کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں" ایک لمحے میں نجانے کیا کیا اندیشے ان کے دماغ میں آ گئے.
"ہم لوگ جہیز کے معاملے میں تھوڑا سینسِٹِو ہیں. اب کیا بتائیں آپ کو.. آج کل کتنی مہنگائی ہے.. انسان اولاد کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا.. پھر یہ جہیز بنانا تو کسی بوجھ سے کم نہیں ہے " مہمانوں نے اپنی بات جاری رکھی.
ادھر دوسرے کمرے میں کھڑی فاطمہ کو تو یہ سن کر جیسے آگ ہی لگ گئی."لوگ بھی کتنے بے حِس ہو جاتے ہیں. والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر کتنی محنت کرتے ہیں اور پھر کچھ لوگ آ کر ان کو مال و دولت میں تولنا شروع کر دیتے ہیں. وہ یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ جس مہنگائی کا رونا وہ رو رہے ہیں وہ بیٹی والوں کے لیے بھی تو ویسی ہی ہے. تو گویا لڑکی کی کوئ اہمیت نہیں ہے اگر اہم ہے تو وہ مال و اسباب جو وہ اپنے گھر کو نچوڑ کر ساتھ لے آئے گی. کیا فائدہ اتنی تعلیم کا کہ جو آپ کو اتنا شعور بھی نہ دے سکے کہ رشتوں کی بنیاد کیسے رکھی جاتی ہے" وہ سوچتی جا رہی تھی اور آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے.
" کیا ایسا رشتہ جس میں عمر بھر کا ساتھ ہو "اِس" بنیاد پر رکھا جاتا ہے؟ کیا ایسا رشتہ جس میں دو لوگوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہو، اُس کی شروعات یوں کی جاتی ہے؟ کیا مہنگائی کا رونا رو کر اور اس طرح  جہیز مانگ کر شادی کی بات کی جاتی ہے؟ کیا یہ کوئی رشتہ جوڑ رہے ہیں یا سودا کر رہے ہیں؟" اس کو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رہا تھا.
"....اس لیے ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ جہیز کے لیے کچھ بھی نہ بنائیں.." ادھر مہمانوں نے اپنی بات مکمل کی..
کیا؟؟؟؟؟ اس کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا. لیکن بدگمانی کے بادل ابھی مکمل طور پر چھٹے نہیں تھے تو سوچ رہی تھی کہ یقیناً اب یہ کوئی نیا بہانہ ہو گا اپنی ڈیمانڈ بتانے کا..ادھراس کی امی بھی سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے. وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھیں مگر علی کی امی نے بات جاری رکھی،
"دیکھیں بات یہ ہے کہ ہم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آپ زیادہ سے زیادہ کیا کچھ تیار کر لیں گے.. سامان، زیور، پیسہ، گاڑی، مکان وغیرہ.. آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا اس سب سے آپ کی بیٹی کی قیمت بڑھ جائے گی؟ ہر گز نہیں.. آپ اس بات کا یقین رکھیں کہ آپ کے پاس سب سے قیمتی بلکہ انمول، آپ کے جگر کا ٹکڑا، آپ کی بیٹی ہے... جس کو آپ ہماری بیٹی بنانے کا ارادہ کر چکے ہیں.."
"یہ سب ضروریاتِ زندگی کا سامان ہے جو کہ ضرورت، حالات اور استطاعت کے مطابق ہی بنانا چاہئیے. اس لیے جو بھی ضرورت کی چیزیں ہونگی ان شاءاللہ ہم خود ہی تیار کر لیں گے. اس بات کی گارنٹی تو نہیں ہے کہ ہر چیز 100 فیصد ہو گی مگر اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ ہماری بیٹی کے لیے جو کچھ بھی ہم سے بن پڑے گا اس میں خلوص، احساس اور محبت 100 فیصد ہو گی. اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ لڑکا  گھر کی ذمہ داری اٹھانا جانتا ہے. اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ آپ کی بیٹی کو بالکل اپنی بیٹی کی طرح ٹرِیٹ کیا جائے گا. اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ اس کو کبھی بھی جہیز نہ لانے کا طعنہ نہیں ملے گا. سامان، چیزیں وغیرہ استعمال کے لیے ہوتی ہیں.. وہ پرانی بھی ہو جاتی ہیں، ٹوٹ بھی جاتی، اور پھینک بھی دی جاتی ہیں مگر رشتے چاہے جتنے بھی پرانے ہو جائیں، وہ نہ تو ٹوٹتے ہیں اور نہ ہی پھینکے جاتے ہیں. اِسلئیے اس بات کی گارنٹی ضرور ہے کہ آپ کی بیٹی کو پیار 100 فیصد ملے گا بالکل ہمارے ایک فیملی ممبر کی حیثیت سے..
اسلئیے ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اگر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ "سوچ" دیں کہ اپنے سسرال کو بالکل اپنے گھر کی طرح سمجھے. ضروریات زندگی، چھت، مکان وغیرہ مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے مگر یہ عورت ہی ہے جو اس کو ایک خوبصورت گھر میں بدل دیتی ہے. ماں باپ کی طرف سے کی گئی اصلاح ہو یا گھر کے کسی اور فرد کی کوئی بات ہو، صبر، خوش دلی اور حوصلے سے کام لے. گھر کے ماحول کے حساب سے خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے. حالات جیسے بھی ہوں، گھر والوں کے ساتھ مل کر صبر اور شکر سے کام لے. پھر کمرے میں شوہر کی طرف سے رکھا ہوا بیڈ ہو، چارپائی ہو یا چٹائی ہو کیا فرق پڑتا ہے؟.. کہ زندگی بہت زیادہ سامان اور پُر تکلف آسائشوں سے رنگین تو ہو سکتی ہے مگر خوبصورت اور پُر سکون نہیں ہو سکتی. اُس کے لیے خوبصورت اور پازیٹِو سوچ اور وہ احساس چاہیے جو آپ کو اپنے مکمل ہونے پر ہوتا ہے. اور اس رشتے میں جُڑ کر دو لوگ ایک دُوسرے کو مکمل ہی تو کرتے ہیں. ہو سکے تو یہ سوچ ضرور دیں کہ لڑکی کے لیے "سب سے ضروری" کام جاب وغیرہ کر کے پیسہ کمانا نہیں ہے بلکہ جتنے بھی موجودہ وسائل ہوں ان کو اور اپنی حاصل کی ہوئی تعلیم و تربیت کو استعمال کر کے "فیملی ڈویلپمنٹ" کرنا ہے. اور یہ کام نوکریاں کر کے روپے پیسے کما لینے سے کہیں زیادہ مشکل ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ جنّت کو اس کے قدموں تلے رکھا گیا ہے کہ اپنے گھر پر کی گئی وہ محنت نسلوں کو سنوار جاتی ہے. ہاں ضرورت پڑنے پر اپنے لائف پارٹنر اور گھر والوں کا ساتھ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے. مگر زیادہ کے چکر میں تھوڑے کا سکون بھی برباد کر لینا یہ کہیں کی عقلمندی نہیں ہے. یہ رشتہ تو احساس کا ہوتا ہے نہ کہ بھاری زیورات، قیمتی فرنیچر اور بہت سارے سامان کا...کہ یہ سب کچھ آپکو آرام تو دے سکتا... سکون نہیں دے سکتا. اس لیے جہیز کے طور پر ایک سوئی بھی تیار نہ کیجئے گا.
اللہ پاک کی رحمت سے زندگی اچھے طریقے سے گزر رہی ہے. ہمارے گھر میں اولاد کی سب سے بڑی جائیداد ان کے والدین ہیں اور والدین کے لیے سب سے قیمتی پراپرٹی ان کی اولاد ہے. ہمارے ہاں ہر چیز سو فیصد تو نہیں ہے مگر جو کچھ بھی ہے اور جتنا بھی ہے گھر کے سربراہ سے لے کر سب سے چھوٹے فرد تک سب کے سامنے ہے. اور سب لوگ اِنہی حالات میں خوشی اور سکون سے زندگی گزار رہے ہیں. ہر انسان اپنی ذات میں منفرد ہے اور سوچنے سمجھنے کا انداز اپنا اپنا ہوتا ہے. اس لئے گھر میں اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں مگر ایک "گھر" کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس کے اندر کے حالات گھر والوں کو ہی معلوم ہوتے ہیں اور باہر والوں کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی. میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے اور اچھے لباس کی پہچان یہی ہے کہ وہ جسم کو عیاں نہیں ہونے دیتا.
ہماری رائے ہے کہ ایسا خوبصورت رشتہ اور گھر بنانے کے لیے شادی کے نام پر دس بارہ دِنوں کے لمبے چوڑے فنکشن کی نہیں بلکہ سادگی سے کئے گئے ایک نکاح کی ضرورت ہے. اس لئے ہمیں اپنے بیٹے کے لئے ایسا گھر چاہیے جو اُس کو جمعہ نماز کی تیاری میں بھی قبول کر لے اور خود ہمیں بھی اسی طرح کی تیاری میں لڑکی قبول ہے. کیونکہ "سادگی سے کیا ہوا نکاح جس کے بعد ( لڑکی اور لڑکے دونوں کے گھر والوں پر) کوئی قرض نہ ہو اُس اسراف سے بھرپور شادی سے کہیں زیادہ بہتر ہے جس کے بعد (لڑکا لڑکی سمیت ان کے گھر والوں کو بھی) پریشانی سے نیند ہی نہ آئے.
اگر ہماری کسی بھی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو ہم معافی چاہتے ہیں مگر جہیز کے معاملے پر یہ ہمارا حتمی فیصلہ ہے. آپ لوگ مشورہ کر لیں اگر آپکو بہتر لگے تو ہم حاضر ہیں اور اگر دل نہ مانے تو بھی کوئی شکوہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ضرور دونوں کے حق میں اس سے بہتر ہی لکھا ہو گا.
فاطمہ کی امی پر سے تو جیسے مَنوں بوجھ اُتر گیا.ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بیٹی کو بیاہنا اتنا سہل بھی ہو سکتا ہے. انہوں نے دل ہی دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور سامنے بیٹھے مہمانوں کو ڈھیروں دعائیں دی. اور خود فاطمہ تو جیسے سکتے میں ہی آ گئی تھی. اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا. اور آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے لیکن یہ آنسو خوشی اور شکرانے کے تھے کہ اس کو ایسے ہی گھر والے چاہیے تھے جو مال و دولت کے نہیں بلکہ انسان کی عزت کرتے ہوں. اسکے چہرے پر آئی مسکراہٹ نے اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا. امی کی آواز کے ساتھ ہی وہ اُٹی اور اپنا حلیہ درست کرنے چلی گئی..!!!

No comments:

Post a Comment