Pages

Saturday, 23 March 2019

مجھے ایک عظیم بزنس مین کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

مجھے ایک عظیم بزنس مین کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
اس انٹرویو میں اس نے دلچسپ باتیں کہیں۔
"دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا۔"

"انسان کی معاشی زندگی تب شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز خود کرتا ہے۔"

👈اسکی دوسری بات
"کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔"

"اگر تعلیم سے روپیہ کمایا جا سکتا تو آج دنیا کا ہر پروفیسر ارب پتی ہوتا۔"

اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں۔
"ان میں سے کوئی بھی پروفیسر ،ماہر تعلیم شا مل نہیں۔"

"دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی۔"
یہ لوگ وقت کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور میں ہی کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
"کامیابی ان کو کالج یا یونیورسٹی کی بجائے کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے۔"

میں زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا۔
"میری کمپنی میں اسوقت اعلی تعلیم یافتہ 30 ہزار مرد اور خواتین کام کرتے ہیں
یہ تعلیم یا فتہ لوگ مجھ سے وژن، عقل اور دماغ میں بہت بہتر ہیں لیکن ان میں نوکری چھوڑنےکا حوصلہ نہیں۔
انہیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتبارنہیں۔

"اگرکوئی شخص میرے لیے کام کر سکتا ہے تو وہ اپنےلیے بھی کر سکتا ہے۔"
👈بس اس کے لیے ذرا سا حوصلہ چاہیے۔

"دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا نہیں۔"

"دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں لیکن کام کرنے والوں کے لیے ساری دنیا کھلی پڑی ہے۔"

👈اس کی کی باتیں سن کے میں نے سوچا

کاش کاش کاش۔ ۔ ۔
میں اس کی باتیں ہندوستان کے ان تمام پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بےروزگاری کا رونا روتے ہیں. (منقول)
کیا ان کی تعلیم کا مقصد صرف نوکری وغلامی کرنا ہی تھا،  انہیں حوصلہ ہونا چاہئے کہ خود محنت کرکے اپنی دنیا بنائیں اور نوکر رکھنے کے قابل بنیں نہ نوکری کرنے کے. اگر موجودہ تعلیم یہ حوصلہ نہیں دے پاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس تعلیم یا تعلیمی نظام کی بڑی کمزوری ہے.

No comments:

Post a Comment