Pages

Saturday, 9 March 2019

یہ محبت کی داستان یوں مکمل نہیں ہو سکتی ۔۔۔


سجل اور شامیر کی جوڑی کسی رومانوی داستانوں جیسی تھی۔ وہ دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے ۔ شامیر سجل پہ دل ہار بیٹھا ہر بار اس کو یونیورسٹی میں دیکھنا۔۔ وہ جب بھی دوستوں کےساتھ باتیں کرتی اس کا بہانے بہانے سے اُس کے پاس سے گزرنا۔ اس کو چھپ چھپ کے دیکھنا پر ہمت نہ ہو سکنا بات کرنے کی۔ خیر ایک دن اُن دونوں کی لائبریری سٹیرز پہ بات ہوہی گئی جب سجل اداس بیٹھی سوچوں میں گم تھی دراصل والدہ کی خراب صحت کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھی۔ تب سے شامیر نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا اور سجل نے اسے بتا دیا تب سے شامیر ہر روز اُس سے کوئی نہ کوئی بات کر لیتا اور اس طرح یہ رشتہ مظبوط سے مظبوط تر ہوتا چلا گیا-
دونوں کافی پیارے تھے ۔سجل سادہ پر دلکش نین نکش کی مالک تھی- دونوں کی دوستی محبت میں بدل گئی ۔ ایک دوسرے کو محبتوں کے تحائف دینا۔سجل اکثر کہتی اتنی محبت نہ کرو کے چھوڑنا سکے تو چھوڑ نہ پاؤ۔ یہ سنتے ہی شامیر کی آنکھیں نم ہو جاتی اور کہتا میں کوئی پیزہ بوائے تھوڑی ہوں جو ڈلیوری کروں اور چلا جاؤں میں تو وہ لاعلاج مرض ہوں جو جان جائے تو جائے پر چھوڑ کے نہ جائے اور پھر کافی دیر تک وہ اس پہ ہنستےرہتے۔ اُنکی معصوم اور پاکیزہ محبت پہ سبھی رشک کرتے۔ ہر خوشی انکی ایک ساتھ گزرتی پھر ایک دن ایسا ہوا کہ سجل کی ماں چل بسی ۔سجل خاموش سی ہو کہ رہ گئی تھی۔ بجھ سی گئی تھی ۔کھوئی کھوئی سی رہتی ہر وقت۔ شامیر اب اسکا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگا تھا۔ سجل کی سالگرہ کا اس بار سپیشل شامیر نے اہتمام کیا تھا ۔سپیشل  کیک اور گفٹس لے کے آیا۔
جیسے ہی کیک کاٹا سجل نے تو، رو پڑی ۔شامیر نے اُسکے آنسو پونچھ لیے اور بولا: پگلی خوشی کے موقع پہ رویا نہیں کرتے۔
سجل نے جواب دیا: شامیر امی ہمشہ مجھے سب سے پہلے برتھ ڈے وش کرتی تھیں۔ آج امی نہیں ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔مجھے چھوڑ گئی ۔۔
کیا تم بھی ایک دن مجھے چھوڑ جاؤ گے؟؟؟؟
شامیر: ارے نہیں نہیں میں تجھے اب کبھی چھوڑ کے نہیں جاؤں گا اور ہاں رویا نہ کرو ورنہ وعدہ ہے اب جب بھی تم رو گی تو میں بھی رو دوں گا۔ تمہارے ساتھ اب ہمارے غم اور خوشیاں دونوں سانجھے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا کہ میں خوشیاں بانٹوں اور غم تجھ پہ چھوڑ دوں۔اور چھوڑ کے جہاں بھی جاؤں پگلی تم بھی ساتھ آجانا اور پھر دونوں مسکرا دیئے-
دونوں کی گریجوئشن مکلمل ہوچکی تھی۔ شامیر کو ایک اچھی کمپنی میں جاب مل گئی۔ شامیر اور سجل کنووکیشن پہ ملے ایک دوسرے کو تو دونوں کافی خوش تھے ۔سجل نے سپیشل مبارکباد دی۔۔ شامیر نے بھی دھیمے پر پیار بھرے لہجے میں مبارکباد وصول کی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کیا- سجل نے جاب کی خوشی میں ایک بہت خوبصورت گھڑی تحفے میں دی۔شامیر نے وہی پہ وہ گھڑی نکال کے پہن لی۔
شامیر نے بولا میرے پاس بھی ایک گفٹ ہے آپ کے لیے۔ سجل بہت پر جوش تھی ۔۔مسکرا کے بولی کیا؟؟؟
شامیر وہی پہ محبت بھرے پر مسرت انداز میں کسی فلمی انداز میں زمین پہ بیٹھتے ہوئے ہاف۔۔ اور ایک ہاتھ کوٹ کے اندر سے ایک رنگ نکال کے بولا
سجل ۔۔۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ کیا آپ مجھ سے شادی کرو گی۔؟؟
سجل کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے وہ اپنی اُس خوشی کو سنبھال ہی نہیں پارہی تھی اس نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
شامیر: تمہیں بولا ہے مت رونا کبھی ورنہ میں بھی رو دوں گا اور شامیر کی آواز بھر آئی۔۔۔
شامیر نے رشتہ بھجوا دیا جو کہ سجل کی فیملی نے قبول کرلیا- دونوں کا نکاح بہت دوھوم دھام سے ہوا-سبھی کلاس فیلوز اور چاہنے والے شریک ہوئے سب کی زبان پہ ایک ہی جملہ تھا
"اللہ پاک اس جوڑی کو نظر بد سے بچائے"
اُنکی رخصتی کا ایک دن مقرر ہوا- سب کچھ صحیح سے چل رہا تھا - سجل اور شامیر شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔شامیر کی خواہش پہ عروسی جوڑا سپیشل تیار کیا گیا تھا-سب شادی کے انتظامات دونوں نے خود ترتیب دیے تھے۔ جیسے جیسے رخصتی کا وقت قریب آتا گیا دونوں کی محبت اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی- سجل کا ایک شام دل بہت بوجھل ہوا-اس نے کال کر کے شامیر کو ملنے کو کہا۔شامیر شادی کے فنکشن کی تیاریوں میں کافی مصروف تھا پر پھر بھی وہ سجل کو ملنے کے لیے تیار ہوگیا۔ خوبصورت ڈریسنگ کی اور گاڑی پہ نکل پڑا ابھی گاڑی مین روڈ پہ آئی ہی تھی کے ایک تیز رفتار ٹرالر بڑی بے دردی سے کار سے ٹکرایا اور کار قلابازی کھاتے ہوئے کافی دور جا گری۔ شامیر کو کافی چوٹیں آئیں تھی -اسکو فوراََ ہسپتال منتقل کر دیا گیا- سجل ہسپتال پہینچ چکی تھی۔اور روئے جارہی تھی -چلا رہی تھی اور باری باری سب کے گلے لگ رہی تھی ۔سجل کے ابو اسے تسلی دیے جارہے تھے ۔بہن بھائی  سب بہت دکی تھے۔ سجل ڈاکٹر کے روکنے کے باوجود آئی سی یو میں داخل ہوئی اور۔۔۔۔
شامیر۔۔۔ شامیر ۔۔۔اٹھو شامیر
تم نے کہا تھا نہ تم میرے ساتھ رہو گے
تم کبھی چھوڑ کے نہیں جاؤ گے-
شامیر دیکھو۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آچکے ہیں
شامیر کی آنکھ سے آنسو گرا اور گال پہ بہہ گیا-
شائید اب وہ سجل کو چپ نہیں کراسکتا تھا
ہاں اُس نے محبت بھرے عہد کو نبھا دیا تھا کہ اب اگر تم روئی تو میں بھی رو دوں گا۔
سجل نے شامیر کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔۔۔ شامیر کی ایک یک دم ہچکی بندھی اور سانسیں تھم گئی۔۔۔
ڈاکٹر نے نبض چیک کی اور شامیر کو ڈھانپ دیا چادر سے۔۔۔
سجل ادھ مری آواز سے چیخی
نہیں شامیر۔۔۔ نہیں ۔۔۔میں نہیں جی سکتی تیرے بغیر
یہ محبت کی داستان یوں مکمل نہیں ہو سکتی ۔۔۔
نہیں ہو سکتی مکمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سجل گر گئی ۔۔۔ سجل کو فوراََ سٹریچر پہ ڈال کے دوسرے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا۔۔۔ لیکن دیر ہو چکی تھی شائید ۔۔۔۔
سجل اور شامیر کا رشتہ شائید دو جسموں سے زیادہ روحوں کا تھا۔ سب کی آنکھیں نم تھی۔۔۔ سجل بھی دنیا چھوڑ کے جاچکی تھی۔۔۔
واقعی وہ پگلی تھی۔۔۔
شامیر کی اُس بات کا اُس نے پورا بھرم رکھا کہ """اور چھوڑ کے جہاں بھی جاؤں پگلی تم بھی ساتھ آجانا "" وہ بھی اُس کے ساتھ چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت دو جسموں کے ملنے کا نام نہیں۔۔محبت تو دو روحوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اور موت جسموں کو آتی ہے روحوں کو نہیں۔۔۔

No comments:

Post a Comment