''
"واہ! کیا فگر ہے بندی کا "... وہ اس وقت میٹرو اسٹیشن پر کھڑی اپنی سہیلیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی جب الفاظ اچانک اس کی سماعتوں سے ٹکرائے تھے۔
"کیا بہودگی ہے ،شرم نہیں آتی؟؟؟ بھوکے،ہوس پرست ،جاہل انسان"...
اس نے تنفر سے لڑکے کو اک ہی سانس میں کافی سنا ڈالی مگر لڑکے نے محض قہقہے پر اکتفا کیا اور وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔
"محترمہ... آپ سے ایک درخواست ہے ؟"...اسی لمحے ایک اور مردانہ آواز اسے اپنے عقب سے آتی محسوس ہوئی۔
"جی کہیئے؟؟؟"...اس نے نخوت سے ناک چڑھاتے ہوئےرخ موڑ کر پیچھے موجود معمولی شکل و صورت کے لڑکے کو سر تا پیر دیکھا۔
"کیا آپ مجھے پانچ منٹ دے سکتی ہیں؟؟ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے"...لڑکے نے اس سے نظر ملانے سے خود کو باز رکھا۔
"جی کہیئے ؟"... طرب نے اسے اجازت دیتے ہوئے یہی سمجھا کہ شاید یہ بھی انھیں مردوں میں سے ایک ہے جو اس کے حسن کے اسیر بن گیا ہے اور اب دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
"میرا نام غیور عباس ہے اور میں ابھی کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ بلاشبہ آپ پر کسے جانے والا جملہ کسی طور معقول نہیں تھا مگر پھر میری سماعتوں سے آپ کے الفاظ ٹکرائے جو کہ آپ کا ردعمل تھا آپ نے اس لڑکے کو بھوکا اور ہوس پرست کہا"...
ٹھیک ... بہت صحیح کہا آپ نے...بہترین!...ہم مرد برے ... ہوس پرست ... گھٹیا ... بھوکے ... جسم کے پجاری ... گندی نظروں اور گندی سوچ کے حامل... بے شرم ...نیچ ...لفنگے اور وہ سب جو لغت میں کسی برائی کی وضاحت کے لیے موجود ہے ، سب ہم ہی سے منسلک ہیں... اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہماری بھوک کی اشتہا کون بڑھاتا ہے ... توچلئیے ... ذرا خود کو دیکھیئے بی بی!..۔ یہ آپ کے چہرے پر ادھر ادھر مچلتی گستاخ زلفیں ...یہ اٹھتی گرتی فتنہ پرور آنکھیں ...ان میں لگی کاجل کی دھاری اور ان پر ہوا میک اپ...ہونٹوں پہ لگی یہ تیز چنگھاڑتی لپ اسٹک ... گردن میں رسی کی طرح لٹکتا دوپٹہ ... آگے اور پیچھے کی طرف سے نیچے کی طرف ڈھلکتا گلا ...آدھی آستینوں سے جھانکتے آپ کے بازو ...باریک قمیض میں سے واضح طور پر آپ کے جسم کا نظر آنے والا ہر ایک عضو ... پنڈلیوں سے نیچے برہنہ حصے پر لٹکتی مٹکتی یہ پائل ، اس کی چھنکار ... ہیل کی ٹک ٹک،یہ سب یہ سجی سجائی پلیٹ ... یہی تو ہماری بھوک بڑھاتی ہے ...ہم ہوتے ہیں بھوکے ... مگر اس بھوک کو ہوا بھی آپ جیسی عورتیں دیتی ہیں.
" میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں، جب بھی میں اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے ان کے لباس سے متعلق کچھ کہتا ہوں، تو وہ مجھے کہتی ہیں کہ "شرم آنکھوں میں ہوتی ہے لباس کیسا بھی ہو اور ویسے بھی یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے"... تب میں حیران ہوتا ہوں کہ واہ کیا بات ہے مسئلہ ذاتی ہے اور گناہ گار ہمیں بنا رہی ہیں... حیرت ہوتی ہے مجھے ایسی حالت دیکھ کر ... میرے مالک کے احکامات کی دھجیاں اڑانا نہ عورت کے لئے جائز ہے نہ مرد کے لیے۔پھر یہ کون سا فیشن ہے جو ہمیں پھر سے پتھر کے زمانے میں دھکیل رہا ہے جہاں لوگ لباس سے محروم تھے..۔
"میں یہاں کھڑا اس اوباش لڑکے کا دفاع نہیں کر رہا ہوں ... ہاں مگر آپ کی کہی گئی بات کی وجوہات بتا رہا ہوں۔.. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ سجنا چھوڑ دیں،... نہیں،... بلکل نہیں،عورت بغیر سنگھار کے ایسی ہی ہے جیسے بنجر زمین ...
" مگر خدارا!اپنے حسن کے نظارے اسے دکھائیے گا جو چار لوگوں کی موجودگی میں قبول ہے قبول ہے کہہ کر آپ کو اپنی نصف بہتر چنے۔.. مفت میں دعوت نظارہ دیتی رہیں گی تو ایسے ہی حیوانوں سے پالا پڑتا رہے گا اور وہ اوپر والا... وہ بھی تو ناراض ہو جائے گا"
"میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا میں معذرت چاہتا ہوں"...غیور نے پاس آ کر رکنے والی بس کو دیکھ کر بات مکمل کی اور بس میں سوار ہوگیا۔
طرب کے پاؤں ندامت کے احساس سے بھاری ہو رہے تھے ...گردن یوں جھک چکی تھی مبادا دور سے کھڑا انسان اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگا بیٹھے کے اس کی گردن ہے ہی نہیں۔..
"آپ نے بس کے اندر جانا ہے؟"...وہاں موجود کام کرنے والی لڑکی کی آواز نے اسے متوجہ کیا تھا۔
اس نے آہستہ سے جھک کر پائل اتاری اوپر اٹھ کر ٹشو پیپر سے لپ اسٹک صاف کی دوپٹے کو سر اور کندھے پھیلا کر کیا اور بس میں داخل ہو گئی۔
No comments:
Post a Comment