بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ۔
وہ گاؤں کی گلیوں میں پِیپَل پرانا
وہ باغوں میں پیڑوں پہ ٹائر کے جھولے
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا
وہ اِملی کے پیڑوں پہ پتھر چلانا
جو پتھر کسی کو لگے بھاگ جانا
چھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ
وہ ماں کے دوپٹے سے سکے چرانا
وہ سائیکل کے پہئے کی گاڑی بنانا
بڑے فخر سے دوسروں کو سکھانا
وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت
وہ ماتھے پہ کاجل کا ٹیکا لگانا
وہ کاغذ کی چڑیا بنا کر اڑانا
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چھپانا
وہ نرکل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا
وہ گھر سے سبق یاد کرکے نہ جانا
وہ گرمی کی چھٹی مزے سے بِتانا
وہ نانی کا قصّہ کہانی سنانا
وہ گاؤں کے میلے میں گڑ کی جلیبی
وہ سرکس میں خوش ہوکے تالی بجانا
وہ انگلی چھپا کر پہیلی بجھانا
وہ پیچھے سے ”ہو“ کر کے سب کو ڈرانا
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی
وہ شادی میں اڑتا ہوا شامیانہ
مگر یادِ بچپن کہیں سو گئی ہے
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے
یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے
زباں بند رکھنے کا آیا زمانہ
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ
کہ جب مل کے رہتے تھے سب ہی مسلماں
نہیں آئے گا اب وہ موسم سہانا
No comments:
Post a Comment