👈ہرنی جب بچہ دیتی ہے تو قدرت کے اصول فوراً لاگو ہو جاتے ہیں اور اسے ان اصولوں کے ساتھ جینا پڑتا ہے اور جینا سیکھانا پڑتا ہے ۔ سب سے پہلے تو وہ بچہ تب پیدا کرتی ہے جب ہریالی ہر سو ہوتی ہے اور گھاس اتنی اونچی کہ اسکا بچہ اس میں چھپ جائے تاکہ وہ شکاریوں کی نظر میں نہ آئے ۔
👈بچہ بھی قدرتی طور پہ پہلے دن ہی چھلانگیں لگانا شروع کردیتا ہے بھاگنے کی پریکٹس ہونے لگتی ہے کیونکہ اسکی بقاء کے لیے یہ لازمی ہے۔۔۔
👈اونچی گھاس اسکو وہ وقت دیتی ہے کہ وہ آنے والے مشکل دور کے لیے خود کو چند دنوں میں تیار کرلے اور ماں اسے چند دنوں میں ہی خطرات سے آگاہی سیکھا دیتی ہے ماں بچے کو اونچی گھاس کا استمال ' جھنڈ سے جڑے رہنے کے فوائد ' شکاری کی شکل اور اسکی چالوں سے آگاہ کردیتی ہے۔ یوں وہ بچہ بڑا ہوکر بچ بچا کر اپنی نسل کے بقاء کے لیے کردار ادا کرتی یا کرتا ہے۔۔۔
👈 ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی اگر کوی شکار ہوجائے تو وہ قدرت کا قانون ہے تقاضے ہیں شکاری کو شکار چاہیے جو بھاگ سکتا ہے بھاگ جائے جو غافل ہوگا مارا جائے گا طاقت کا قانون ہے۔
☜ ہرنی کا رونا بنتا ہے ۔
☚ دوسری طرف ہم انسانوں کے بچے ہیں جو بڑے بہت دیر بعد ہوتے ہیں اور سمجھدار تو اور بھی دیر بعد ہوتے ہیں ۔
☚ بات کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص نے بازار میں ایک 8 سے 10 سالہ بچی دیکھی جو جسمانی اعتبار سے 15 سالہ لگ رہی تھی اور وہ انتہای تنگ کرتی (قمیض) اور پٹیالہ شلوار میں ملبوس تھی ۔ بچی تندور والے کے پاس روٹیاں لگوا رہی تھی۔۔۔
☚ تندور پہ تین مرد تھے انکے بائیں طرف برابر میں دودھ والے کی دکان میں دو لڑکے تھے سامنے سبزی والا تھا اسکے برابر میں خالی پلاٹ پہ دس رکشے والے اسکے بعد دو الیکٹریشن ایک برف والا اور تندور والے کے دائیں طرف ایک سکول کا گارڈ بیٹھا تھا ۔ یہ تمام لوگ باہمی دلچسپی کے امور پہ آنکھوں سے گفتگو کررہے تھے اور انکی اس بصری گفتگو کا مرکزی خیال تھا۔۔۔ (پٹیالا شلوار)
☚ کوئی بھی احتیاطی تدابیر استعمال کیے بنا اگر بچہ شکار ہو جائے تو اس پر ہرنی کا رونا بنتا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
☜ دوستو ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں. اس موضوع پر اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے.
☜ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فی صد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے "ان شاءاللہ" ان کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی ۔
💠اسلام نور، فطرت اور معصومیت کا دین ہے💠
👈 اسلام میں جنسی تربیت کا یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ ۔۔
💠جب تمہارے بچے دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو،
💠جب جسم میں بلوغت کے آثار نمودار ہونے لگیں تو پاکیزگی و طہارت کے یہ یہ طریقے اختیار کیئے جائیں،
💠 غیر محرم مرد و زن ایک دوسرے کے سامنے نگاہیں نیچی آواز پست اور شرم و حیا کو خود پر لازم کریں،
💠 عورت پردہ کرے اور گھر میں مقید رہے،
💠 مرد اپنے گھر کی بیٹیوں بہنوں ماؤں والی حرمت سے ہر اک عورت سے پیش آئے،
💠 بے حیائی کے حالات سے بچنے کے لیئے ہر دم باوضو رہیں،
💠 نماز پابندی سے ادا کریں، کہ نماز آپ کے اعصاب و جذبات کو نارمل رکھنے میں معاون ہو کے ، جنسیاتی بے حیائی کے کاموں کی طرف رجحان بننے ہی نہیں دیتی،
👈 گویا اسلام میں نکاح سے پہلے مرد و زن کے دین ایمان حیاءداری عزت و عصمت اور نگاہوں کی حفاظت کا انفرادی سطح پر اہتمام کیا جا رہا ہے،
👈 بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں۔
👈آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔
👈 بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے. بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
👈 بچوں کو فارغ مت رکھیں ۔ فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے ۔ اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں. ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں ۔ تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
👈 بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں ۔ یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے.
" اللہ تعالی " نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.
بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے ۔
👈 اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں ۔ کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
👈 بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں ۔
🌸حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ 🌸 اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے ۔ ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں ۔ بچوں کو سنت نبوی ہے مطابق دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں ۔
👈 بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں ۔ اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں ۔ لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں ۔
👈 بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں ۔ یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے ۔
👈 بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہے ۔ یا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں ۔ بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں ۔
👈 بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں ۔ تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے ۔
👈 بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں ۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے . مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے ۔ اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں ۔ کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے ۔
👈 یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
👈 بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں ۔
👈 والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں. ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے .
👈 نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سرزنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے ۔ جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
👈 13 یا 14 سال کی عمر میں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.
👈 تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
👈 بچپن سے ہی اپنی بچیوں کو پردے کا سبق سکھاؤ اور جب بچیاں بڑی ہو جائیں تو خود بخود گھر سے باہر نکلتے وقت پردے اور برقعے کا اہتمام کریں ۔
👈 محترم والدین، محترم بھائیو، محترم بہنو اپنے بچوں کی خود اچھی نگہداشت رکھو۔ اپنے بچوں کو معاشرے کے بھیڑیوں سے خود محفوظ رکھیں۔
دین اسلام ایک نفیس ترین مذہب ہے اور الحمدلله ھمارا ہی دین ہے لہذا اس دین پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کے معاشرتی تحفظ کو یقینی بنائیے ۔
👈 آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو انشاءاللہ آخرت میں اللہ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے.
۔🕋 اللہ تعالی 🕋 امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔
اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن
No comments:
Post a Comment